وکٹری کا نشان

اقبال خورشید  منگل 26 دسمبر 2017

اس کالم کا موضوع شاہ زیب قتل کیس ہے، مگر اس پر بات کرنے سے قبل میں آپ کو رانی بی بی اور عبدالسمیع خان کی کہانی سنانا چاہوں گا۔ ممکن ہے، ان کہانیوں کے کچھ حصے اخبارات میں آپ کی نظر سے گزرے ہوں، مگر یہ اتنی دلچسپ ہیں کہ انھیں دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

ہم رانی بی بی سے آغاز کرتے ہیں۔ 1998 میں پندرہ سالہ رانی بی بی پر اپنے شوہر کے قتل کا الزام عاید کیا گیا۔ پولیس نے اسے اہل خانہ سمیت گرفتار کرلیا۔ پورے خاندان کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ 19 برس بعد اس عورت کو، جس کا باپ دوران قید پولیس تشدد سے دم توڑ گیا، بھائی جیل میں بوڑھا ہوگیا، ناقص شواہد کی بنیاد پر باعزت بری کردیا گیا ہے۔ جی ہاں، اسے باعزت بری کر دیا گیا۔ اب رانی چنیوٹ کے پاس ایک قصبے میں رہتی ہے۔ وہ برادری میں ناپسندیدہ، سماج میں اجنبی ہے۔ ایک دھتکاری ہوئی عورت، جو 19 برس جیل میں رہ کر اپنا وقار کھو چکی ہے۔

کیس کا سب سے الم ناک پہلو یہ تھاکہ اگر 19 برس قبل رانی کے پاس چار سو روپے ہوتے، تو شاید اس کے المیوں کی فہرست کچھ گھٹ جاتی۔ رانی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’میں ان سے کہتی رہی کہ ہم بے قصور ہیں، لیکن نہ تو قانون کو کوئی فرق پڑا، نہ جج نے کچھ سنا۔ جیل میں آئے، تو اپیل کی درخواست کے لیے پولیس والے نے چار سو روپے مانگے۔ ہم اتنے مجبور اور غریب تھے کہ یہ چار سو روپے بھی نہ تھے۔‘‘

جی صاحب، یہ چار سو روپے کی کہانی تھی۔ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں افسوس کا اظہار ضرور کیا۔ اس کی سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کو جیل انتظامیہ کی بدنیتی قرار دیا، مگر ازالہ کی کوئی صورت نہیں نکالی گئی۔

رانی بی بی کو دکھ اور المیوں میں گھرا چھوڑ کر ہم اب عبدالسمیع خان کی سمت چلتے ہیں، جو رانی بی بی سا بدحال نہیں۔ ایک تاجر ہے، صاحب حیثیت ہے، مگر یہ حیثیت بھی کچھ کام نہیں آئی۔ اپنی زمین پر قبضے کا جو کیس وہ عدالت لے کر گیا، اس کا فیصلہ ہونے میں پورے 34 برس لگے۔ جی ہاں، پورے 34 برس۔ 1974 میں اسلام آبادکے سیکٹر ای 7 میں کراچی کے اس تاجر نے 48 ہزار روپے میں ایک پلاٹ خریدا۔ 1983 میں انکشاف ہوا، اس پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے۔ عبدالسمیع نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کیس برسوں چلتا رہا۔ عدالت جب بھی عبدالسمیع کے حق میں فیصلہ دیتی، دوسرا فریق حکم امتناعی لے لیتا۔ آخر 2017 میں عبدالسمیع کو اپنے پلاٹ کا قبضہ ملا۔ تو جناب، ایمان دار ججز ہونے کے باوجود، صاحب حیثیت ہونے کے باوجود، مقدمہ لڑنے کی استطاعت کے باوجود عبدالسمیع کو اپنی زمین کا قبضہ واپس لینے میں 34 برس لگ گئے۔

اب ہم سیدھے شاہ زیب قتل کیس کی سمت چلتے ہیں۔ یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ شاہ زیب کی، جو ایک پولیس افسر کا بیٹا تھا، 24 اور 25 دسمبر کی شب اپنی بہن کو چھیڑنے پر شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں سے تلخ کلامی ہوئی، جو اس نہج پر پہنچ گئی کہ انھوں نے ہتھیاروں کے ساتھ اس کی گاڑی کا تعاقب کیا، اور فائرنگ کرکے اسے قتل کر ڈالا۔ ملزمان کے بااثر اور دولت مند ہونے کے باعث پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔

واقعے کے خلاف سوشل میڈیا مہم شروع ہوئی، جس نے جلد سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کو متوجہ کر لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا حکم دیا ۔ جنوری 2013 میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں، مگر مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہوچکا تھا۔ مہم شدت اختیار کرتی گئی۔ آخر سپریم کورٹ کے احکامات پر شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے گرفتار کرکے واپس پاکستان لایا گیا۔ 7 جون 2013 کو جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت سنائی گئی۔

موت کی سزا سنتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ عدالت سے باہر آنے کے بعد اس نے وکٹری کا نشان بنایا۔ یہ وکٹری کا نشان سسٹم کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا، اسی لیے جب ماہ ستمبر میں خبر آئی کہ شاہ زیب کے ورثا نے تمام مجرموں کو فی سبیل اﷲ معاف کر دیا ہے، تو نہ صرف عوامی حلقوں، بلکہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بھی سخت ردعمل آیا۔ چیف جسٹس نے اسی نوعیت کے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے حالات اور واقعات دیکھے بغیر قتل کے مقدموں میں فی سبیل اﷲ معافی کو خلاف قانون اور دھوکا قرار دیا۔ صلح کے باوجود کیس میں موجود انسداد دہشت گردی کی دفعات کے باعث ملزمان کو رہا نہیں کیا جاسکتا تھا، اور 2013 کے اواخر میں جب ان دفعات کو خارج کرنے کی درخواست دائر کی گئی، تو سپریم کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔

میڈیا نے اس کیس کا فالو اپ جاری رکھا، مگر دھیرے دھیرے مقتول کے ورثا ذرایع ابلاغ سے دور ہونے لگے۔ خاموشی چھاتی گئی۔ یہ خاموشی 28 نومبر 2017 کو ٹوٹی، جب عدلیہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات خارج کردیں، شاہ رخ جتوئی سمیت چار ملزمان کی سزائیں معطل ہوگئیں۔ 23 دسمبر کو مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے ایک حلف نامہ جمع کروا گیا۔ اسی شام شاہ رخ کے رشتے دار اور دوست بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار جناح اسپتال پہنچے، جہاں سے اسے رہا کردیا گیا۔

گو شاہ رخ جتوئی کی رہائی میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، مگر اس فیصلے پر میڈیا، سوشل میڈیا اور سماجی مبصرین کی جانب سے کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے ریمنڈڈیوس کی رہائی سے تشبیہہ دی گئی۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے، اس فیصلے کے مجھ جیسے ناقدین لسانی تعصب کا شکار ہیں۔ ممکن ہے، چند سیاسی تنظیموں نے کیس کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی ہو، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رات ایک قتل نہیں ہوا تھا؟ جب ظلم ہو، تو مظلوم ہی کا ساتھ دیا جاتا ہے، اس بنیاد پر اس کی حمایت توترک نہیں کی جاسکتی کہ اس کی لسانی شناخت کیا ہے، اور کون سی سیاسی تنظیم اس کی حمایت کر رہی ہے۔ ساتھ ہی درخواست ہے، اسے شہری اور دیہی سندھ کا مسئلہ قرار دینے والے میرے دوست شاہ رخ کو سزائے موت سنانے والے بینچ، کیس سے دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے والے ججز اور ملزم کے وکلا کے لسانی پس منظر سے بھی ہمیں آگاہ کردیں، تاکہ ہمارے ساتھ ان کے ذہنوں میں بھی تصویر واضح ہوجائے۔

ہاں، شاہ رخ جتوئی کو اپنی غلطی سدھانے کا موقع فراہم کرنا، وہ بھی ان حالات میں جب مقتول کے اہل خانہ اسے معاف کر چکے ہوں اور قانونی تقاضے پورے کیے جارہے ہوں، قابل فہم ہے۔ البتہ جب جب میں پانچ برس میں نمٹ جانے والے اس ہائی پروفائل کیس کے بارے میں سوچتا ہوں، تو غریب رانی بی بی میری سامنے آن کھڑی ہوتی ہے، جو 19 سال بعد باعزت بری ہونے کے باوجود وکٹری کا نشان بنانے سے قاصر تھی، عبدالسمیع کا چہرہ آنکھوںکے سامنے گھوم جاتا ہے، جو 34 سال لڑی جانے والی قانونی جنگ جیتنے کے باوجود وکٹری کا نشان نہ بنا سکا۔

صاحبو، ہمارے ہاں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے والے بے حیثیت شہری اپنی زندگی اور عمر بھر کی جمع پونچی، دونوں گنوا  کر بھی خالی ہاتھ رہتے ہیں (بے حیثیت ہونا بھی المیہ ہے!) ہمارے ہاں ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً 15 سے 20 سال لگتے ہیں۔ اس وقت عام عدالتوں میں 17 لاکھ اور خصوصی عدالتوں میں دو لاکھ مقدمات تاخیر کا شکار ہیں، اور ان مقدمات کے انجام میں آپ کو وکٹری کا کوئی نشان دکھائی نہیں دے گا۔ یہ نشان فقط ’’خوش بختوں‘‘ کا نصیب بنتا ہے۔ اور 70 سال سے یہ خوش بخت ہی ہماری قسمتوں کے فیصلہ ساز ہیں۔ چاہیں، تو اٹھارہ کروڑ بے حیثیت اپنے اس اعزاز پر وکٹری کا نشان بنا لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔