5 سال میں صحت کے بیشتر منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکے

طفیل احمد  پير 18 مارچ 2013
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوئی، اسپتالوں کی رجسٹریشن اور اتائی ڈاکٹروں کیخلاف قانون نہ بن سکا، ایفی ڈرین کی قلت سے دوائیں ناپید ہو گئیں۔ فوٹو: فائل

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوئی، اسپتالوں کی رجسٹریشن اور اتائی ڈاکٹروں کیخلاف قانون نہ بن سکا، ایفی ڈرین کی قلت سے دوائیں ناپید ہو گئیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: صوبائی حکومت کے 5 سال مکمل ہونے پر کراچی سمیت صوبے میں صحت کے بیشتر منصوبے ادھورے رہے۔

کراچی میں جناح اسپتال سمیت دیگرتینوں وفاقی اسپتالوںکی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ادھوری رہی جبکہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کواعلان کے باوجودسٹی یونیورسٹی کادرجہ نہیں دیاجاسکا، حکومت نے محکمہ صحت میں 20 سال سے عارضی بنیادوں پرکام کرنے والی 24 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکروں سمیت دیگر 11منصوبوں میں کام کرنیوالے دیگر عارضی ملازمین کومستقل کر دیا، ادویات کا شعبہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا جبکہ نجی اسپتالوںکی رجسٹریشن اوراتائی ڈاکٹروںکیخلاف قانون سازی نہیںکی جاسکی۔

کراچی سمیت صوبے میں 712 ارب روپے کی مالیت سے 7تھیلیسیمیا سینٹرز، 4 بزنس سینٹروں 5 یورولوجی مراکزاور کارڈک سینٹر کو ٹیچنگ اسپتالوں میں قائم کرنا تھا جو مکمل نہیں ہوسکا، سول اسپتال سمیت صوبے کے 5 ٹیچنگ اسپتالوں میں ایم آر آئی اور سٹی اسکین منصوبہ ادھورا رہا صرف سول اسپتال میں یہ مشین نصب کی گئی جبکہ اندرون سندھ میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا، 3 سال گزرنے کے بعد سول اسپتال میں بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹرکا منصوبہ بھی ادھورا رہا، ملک میں جرمن اشتراک سے سینٹرلائزڈ بلڈ بینکس کا منصوبے بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکا۔

3

کراچی میں نیپا چورنگی پر 400 بستروں پر مشتمل اسپتال قائم نہ ہو سکا، گزشتہ سال صوبے میں خسرہ کی وبا نے 3 سو بچوں کی جان لے لی، گزشتہ سال انسدادپولیومہم کے دوران مجموعی طورپر 6 رضا کاروں کی جانیں ضائع ہوگئیں، پہلی بار حکومت سندھ نے بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین کو ای پی آئی میں شامل کیا، صوبائی اسمبلی نے اختتامی اجلاس میں بعدازمرگ انسانی اعضا کے قانون کی منظوری دی۔

گزشتہ سال گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کراچی سمیت اندرون سندھ میں 5میڈیکل کالجز کا سنگ بنیاد گورنر ہاؤس میں رکھا یہ منصوبہ13ارب روپے مالیت کا بتایاگیا ہے، 30 جون 2011کوصوبائی خودمختاری اور18ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود بھی وفاق کے ماتحت چلنے والے جناح اسپتال، قومی ادارہ امراض قلب اور قومی ادارہ اطفال برائے صحت نہ تو صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت ہے اورنہ وفاق کے زیر انتظام، ان اسپتالوں کی انتظامیہ نے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کر رکھی ہے،گزشتہ 5 سالوں میںحکومت نے کراچی میں شہید بینظیر بھٹو لیاری میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جبکہ صدرمملکت آصف زداری کی ہدایت پرسابق سندھ میڈیکل کالج کویونیورسٹی کادرجہ دیکر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا آرڈینس جاری کی گیا جس کی مدت ختم ہوگئی۔

بعدازاں سندھ اسمبلی سے جناح سندھ میڈیکل کالج کا ادھورا بل منظور کیا گیا جس کی وجہ سے یہ یونیورسٹی اب بھی نامکمل ہے18ویں ترمیم کی منظوری اور پارلیمان کے صوبائی خودمختاری کے فیصلے تحت 30جون 2011کووفاقی وزارت صحت سمیت دیگر شعبے صوبوںکومنتقل کیے گئے لیکن پارلیمان کے ڈیلوشن منصوبے پر مکمل عملدرآمدنہیںکیاجاسکا،گزشتہ 4سال سے ملک میں نیشنل صحت پالیسی کا اعلان نہیں کیاجاسکا،ایفی ڈرین کیمیکل کی قلت کی وجہ سے کھانسی اور بچوں میں نزلے زکام کے تمام اقسام کے شربت کی قیمتوں میں بھی 25فیصد تک اضافہ کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔