پاکستان کو انسانی ہمدردی کا صلہ مل گیا؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 29 دسمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

25دسمبر2017ء کی سہ پہر ہر پاکستانی یہ خبر سُننے کا منتظر تھا کہ آج بھارتی جاسوس ، کلبھوشن یادیو، کو اُس کی والدہ اور اہلیہ ملنے آرہی تھیں، نتیجہ کیا نکلا؟ کلبھوشن یادیو نے مبینہ طور پر ہماری سیکیورٹی فورسز کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور ہمارے لاتعداد بے گناہ شہریوں کا جس وحشت سے خون بہایا ہے، اس پس منظر میں ہونے والی ملاقات میں ہر پاکستانی فطری طور پر دلچسپی رکھتا ہے۔

اِس بھارتی جاسوس کو اگر ’’پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا بھیانک چہرہ‘‘ کہا جا رہا ہے تو اِس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ بھارتی ’’را‘‘ کا یہ درندہ صفت کارندہ پاکستان کے خلاف  (جاسوسی اور قتل و غارتگری) اپنے تمام جرائم کا اعتراف کر چکا ہے، اِسی لیے اُسے فوجی عدالت سے(اپریل میں) سزائے موت کا حکم بھی ہو چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ اُس کے جرائم اتنے بڑے ہیں کہ ہر پاکستانی اُسے تختہ دار پر جھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت چونکہ اُس کا مقدمہ (مئی میں)عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) میں لے جا چکا ہے، اس لیے بوجوہ سزا پر عمل رکا ہُوا ہے۔

پاکستان بھی تمام ممکنہ شواہد کے ساتھ ، کلبھوشن کے خلاف، عالمی عدالتِ انصاف میں موجود ہے(اگلی سماعت مارچ2018ء کوہونے والی ہے)گویا ابھی اگلے تین مہینوں تک تو اِس خانہ خراب کو پھندے میں نہیں لٹکایا جاسکے گا۔ یہ پاکستان کا مگر بڑا پَن اور عظمت ہے کہ ہمارے حکام نے انسانیت سے ہمدردی کی بنیاد پر مجرم کلبھوشن یادیو کو اپنی والدہ( آونتیکا) اور اہلیہ (چیتنا کول یادیو)سے ملنے کی اجازت دے دی ہے۔ کلبھوشن کی بلوچستان سے گرفتاری کے 21مہینوں بعد یہ ملاقات اسلام آباد کی وزارتِ خارجہ کے مرکزی دفاتر میں یوں ہُوئی ہے کہ مجرم اور اُس کی دونوں قریبی عزیزوں کے درمیان مبینہ طور پر ساؤنڈ پروف شیشے کی ایک کھڑکی حائل تھی۔

ملاقات تقریباً چالیس منٹ کی تھی۔ تینوں کے درمیان جو بھی مکالمہ ہُوا، شنید ہے کہ انٹر کام کے توسط سے ہُوا ۔ یہ مہذب طریقہ دنیا بھر میں مجرم اور اُس کے لواحقین کے درمیان ، ملاقات کے لیے، مستعمل ہے۔پاکستان نے اگر اس پر عمل کیا ہے تو کسی قانونی اور اخلاقی بنیاد کو منہدم نہیں کیا۔ بھارتی اخبار’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی شوبھا جیت رائے کا کہنا ہے :’’دورانِ ملاقات دونوں خواتین آنسو بہاتی رہیں۔ کلبھوشن نے اپنی والدہ سے کہا ، اچھا ہوتا والد بھی آجاتے۔ ‘‘ اخبار مذکور لکھتا ہے کہ ’’بھارتی حکام اُس جرمن ڈاکٹر ( اووی یوحنا نیلسن)کی تلاش میں ہیں جس نے 22دسمبر کو کلبھوشن کا اسلام آباد میں طبّی معائنہ کیا تھا۔‘‘ توکیا بھارت ڈاکٹر مذکور کو ڈھونڈ کر کوئی ’’راز‘‘حاصل کرنے کا متمنی ہے جسے ICJمیں پاکستان کے خلاف بطورِ ہتھیار بروئے کار لایا جاسکے؟

پاکستان نے اپنے عوام کی خواہشات کے برعکس کلبھوشن یادیو ایسے خطرناک بھارتی جاسوس کی  خاندان سے ملاقات کروائی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے بھارتی حکام کے اشاروں پر ،اِس ملاقات کے حوالے سے، پاکستان کے خلاف نہائت منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ ممبئی میں کلبھوشن کے ایک قریبی دوست، تُلسی داس پوار، کا پاکستان مخالف بیان سارے بھارتی میڈیا نے نشر اور شایع کرتے ہُوئے کہاکہ’’یہ کسقدر ظلم کی بات ہے کہ پاکستانی حکام نے ملاقات کے دوران کلبھوشن کی والدہ کو بیٹے سے گلے بھی نہ ملنے دیا۔‘‘ ایک دوسرے بھارتی اخبار نے اِس ملاقات کو ’’پاکستان کا ڈرامہ‘‘ قرار دیا۔ پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کے الفاظ یہ تھے:This carefully choreographed meeting was sham.کیا یہ الفاظ شرمناک نہیں کہیں جائیں گے؟یہ صلہ ملا ہے پاکستان کو انسانی ہمدردی پر عمل کرنے کا؟بھارتی میڈیا نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ سربجیت سنگھ (بھارتی جاسوس جو 2013ء میں لاہور جیل میں مرگیا تھا)کی بہن (دلبیر کور) کے پاکستان مخالف بیان کو بار بار نشر کیا گیا۔

تقریباًسبھی بھارتی اخبارات نے بھی اُس کے الفاظ شایع کیے۔ دلبیر کور کے الفاظ یہ تھے:’’یہ ملاقات ایک ظالمانہ مذاق اور ڈرامہ تھا جس میں دنیا کو احمق بنانے کی کوشش کی گئی۔ درمیان میں شیشے کی دیوار حائل کی جائے گی تو ملاقات خاک ہوگی۔ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں کوئی انسانیت نہیں ہے۔‘‘بھارتی راجیہ سبھا(سینیٹ) میں بی جے پی کے رکن سبرامینین سوامی نے تو حد ہی کر دی ۔ اُس نے کہا:’’ پاکستان نے کلبھوشن کی والدہ اور بیوی سے جو نامناسب سلوک کیا ہے، اِس کا تقاضا ہے کہ بھارت آج ہی سے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرے تاکہ پاکستان کے جَلد چار ٹکڑے کیے جاسکیں۔‘‘اس معاملے میں کانگریس بھی بی جے پی کے ساتھ مل گئی۔

کانگریسی لیڈر منیش تیواڑی نے تو بہت غلیظ زبان استعمال کی ہے۔ اِن دل آزار الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اُسی وقت پاکستان سے خوش ہوگا جب وہ کلبھوشن کی سزا معاف کرتے ہُوئے اُس کے گلے میں گلابوں کے ہار ڈال کر نہائت اہتمام کے ساتھ واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کردے گا۔ ایسا کرنا شائد ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے وزیر خارجہ ، خواجہ آصف ، نے اِس سلسلے میں ایک بین السطور بیان بھی دیا ہے:’’ کلبھوشن کی رحم اپیل کے بارے میں فیصلہ ملکی حالات کے پیشِ نظر کیا جائے گا۔‘‘ممکن ہے بھارتیوں نے اِس بیان سے کچھ اُمیدیں بھی باندھ لی ہوں۔ مگر بھارت نے پاکستان کی اِس انسانی ہمدردی کا جواب خونریزی سے دیا ہے۔

جس وقت کلبھوشن کی والدہ اور بیوی ملاقات کے بعد جہاز کے ذریعے واپس اپنے وطن میں قدم رکھ رہی تھیں، عین اُسی وقت ایل او سی پر بھارتی فوجیں گولے برسا کر ہمارے فوجی جوانوں کا خون بہا رہی تھیں۔ 25دسمبر 2017ء کی شام بھارتی فوج نے ہمارے تین فوجی جوان شہید کر کے بتا دیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی کلبھوشن سے انسانی ہمدردی کو کس نظر سے دیکھا ہے۔ ساتھ ہی بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے ’’پاکستان کے خلاف ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کیا ہے۔‘‘ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اگر کلبھوشن یادیو کی جگہ پاکستان کا کوئی فرد بھارت کے ہتھے چڑھا ہوتا تو بھارتی حکام ،عدالتیں اور سیکیورٹیاں ایجنسیاں انسانی ہمدردی دکھانے کے بجائے اُسے پھانسی دے کر تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر چکی ہوتیں۔ خواجہ آصف صاحب نے اِسی بھارتی ذہنیت کی نشاندہی کرتے ہُوئے بجا کہا ہے کہ’’ اگر بھارت کی جگہ پاکستان ہوتا تو و ہ پاکستان کو کبھی ایسی رعایت نہ دیتا۔‘‘پھر معلوم نہیں کہ سب کچھ جانتے پہچانتے ہُوئے بھی پاکستان بار بار کیوں اور کن مقاصد کے تحت کلبھوشن کو رعائتیں دیتا چلا جا رہا ہے؟ کیا کوئی اتمامِ حجت کی جارہی ہے؟ خصوصی طور پر یہ کہہ کر کہ ’’کلبھوشن سے کروائی جانے والی یہ ملاقات آخری نہیں تھی۔‘‘اِس کے باوجود پاکستان مخالف بھارتی الزامات میں کمی نہیں آئی ہے۔

جب 25دسمبر کی سہ پہر اسلام آباد میں 47سالہ کلبھوشن یادیو ایسے مہلک بھارتی جاسوس کی اپنی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات ہورہی تھی، کشمیریوں کے زخم ہرے ہو رہے تھے۔انھیں مقبول بٹ اور افضل گرو کی شہادتیں اور بھارتی حکام کی زیادتیاں یاد آرہی تھیں۔ مقبول بٹ اور افضل گرو ایسے کشمیری حریت پسندوں کو پھانسی دینے سے قبل بھارتی حکمرانوں نے انتہائی شقاوتِ قلبی اور سنگدلی کا ثبوت دیتے ہُوئے ،دونوں کشمیری رہنماؤں کو اپنے والدین اور بیوی بچوں سے ملنے نہیںدیا تھا۔

دونوں کو پھانسی دے کر دہلی کی تہاڑ جیل میں دفن کر دیاگیا تھا۔ اُن کی میتیں آج تک وارثوں کے حوالے نہیں کی گئی ہیں۔ یہ ہے بھارتی حکمرانوں کی انسانی ہمدردی۔ ایسے میں راولپنڈی میں مقیم مشعال ملک کی کرلاتی ہُوئی آواز سامنے آئی ہے لیکن بھارتی حکام کے کانوں پر پھر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ مشعال ملک صاحبہ ممتاز کشمیری حریت پسند رہنما جناب یاسین ملک صاحب کی اہلیہ محترمہ ہیں۔

انھوں نے بلکتے ہُوئے کہا ہے :’’ تین سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن بھارتی حکام نے مجھے اپنے شوہر اور میری معصوم بیٹی کو اپنے والد سے ملنے کی اجازت نہیں دی ہے۔‘‘بھارت نے اس کا جواب پھر جھوٹ میں دیا ہے۔ممکن ہے پاکستان نے کسی نادیدہ دباؤ کے تحت کلبھوشن یادیو کی ملاقات کا اہتمام کردیا ہو لیکن بھارت تو کسی دباؤ کو ماننے اور قبول کرنے پرتیار نظر نہیں آتا۔ وہ مشعال ملک کی درخواستوں کو بھی بار بار مسترد کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں خون کی ندیاں بہانے سے بھی باز نہیں آرہا۔بھارت اپنے شہریوں کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ عالمی عدالتِ انصاف میں کلبھوشن کا مقدمہ جیت جائے گا اور اپنے جاسوس کو فخر سے رہا کروا کر پاکستان سے بھارت لے جائے گا۔ خدا نخواستہ ایسا ہُوا تو پاکستانی عوام یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔