سپریم کورٹ کے فیصلے اور کراچی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 30 دسمبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

سیاسی جماعتوں کے حوالے سے پاکستان میں بڑی عدالتوں کے فیصلوں کو جہاں تسلیم کیا جاتا رہا ہے، وہیں ان پر اعتراضات بھی کیے جاتے رہے ہیں، جس کی ایک سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ جس جماعت کے حق میں فیصلہ نہ آئے، وہ فیصلے کو غلط ہی قرار دیتی ہے، تاہم اگر سیاسی معاملات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں عدلیہ کے ایسے فیصلے بھی نظر آتے ہیں جو ججز نے نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ کیے، یعنی ایسے فیصلے جوکہ خاصے مشکل ہوتے ہیں، نیز جن سے بڑی بڑی طاقتوں کو یقیناً غصہ بھی آتا ہوگا اور وہ اپنا اثر ورسوخ بھی استعمال کرتی ہوں گی۔

ایسے ہی کچھ فیصلے سندھ خصوصاً کراچی شہر کے معاملات کے متعلق حال ہی میں اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے کیے گئے اور ان فیصلوں نے کراچی کے باشعور شہریوں کے دل جیت لیے اور ججز کو میرے جیسے عام شہریوں نے دعائیں بھی دیں۔

عدلیہ کا ایک اہم کردار پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق ہے، جس کے لیے سماعت چل رہی ہے اور عدلیہ کے ججز کی کوشش ہے کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی گھر پر ہی فراہم کیا جائے۔ اسی لیے عدلیہ نے نہ صرف اس پر اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی کیوں نہیں فراہم کیا جارہا اور اس میں انتہائی غلاظت کیوں شامل ہے؟ بلکہ اس پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے کہ جو پانی شہریوں کو گھر میں پائپ لائنوں کے ذریعے ملنا چاہیے اس کے لیے شہریوں کو ٹینکر کیوں خریدنے پڑرہے ہیں۔

عدلیہ کا اس طرف توجہ دینا قابل تعریف ہے، ورنہ تو اب عوامی ادارے بالکل ہی بے لگام ہوتے جارہے ہیں کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے کوئی انھیں پوچھنے والا ہی نہیں، یہ ادارے اب عوام کو بے وقوف سمجھنے لگے ہیں۔

اسی طرح سے ایک فیصلہ کراچی شہر میں تیزی کے ساتھ بلند وبالا عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی کا تھا، یہ ایک نہایت بروقت اور دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ راقم نے اس فیصلے پر ایک کالم بھی تحریر کیا تھا جس میں اس فیصلے کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ یہ فیصلہ اس شہر کے لیے کس قدر ضروری اور اہم ہے۔ حالانکہ یہ کام ہمارے بلدیاتی اداروں کو کرنا چاہیے تھا اور ان کی غفلت پر ہمارے منتخب نمایندوں کو ایکشن لینا چاہیے تھا، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور یہ ذمے داری ججز کو اٹھانا پڑی۔

اعلیٰ عدالت کا ایک اور اہم ترین اقدام کراچی شہر میں زمینوں کی کرپشن اور بندر بانٹ کی غیر قانونی کارروائیوں پر ایکشن لینا ہے۔ ذرایع ابلاغ کے توسط سے لوگوں کو پتہ چلا کہ عدالت کے اس ایکشن پر کے ڈی اے کی جانب سے جو تفصیلات پیش کیں گئیں اس کے مطابق لگ بھگ سو ارب روپے مالیت کی اسی ہزار ایکڑ زمین ناجائز قبضے میں جاچکی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک مخصوص مدت میں یہ زمینیں خالی کرانے کے احکامات جاری ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی شہر کے بعض علاقوں میں تجاوزات کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

ان کارروائیوں پر بھی سپریم کورٹ کو نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ بعض اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ یہ کارروائیاں صرف شادی ہالوں تک محدود ہیں یا یہ کہ چائنا کٹنگ کے پلاٹس تو کراچی کے تقریباً ہر ضلع اور علاقے میں واقع ہیں، مگر ان کے خلاف کارروائی صرف سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی وغیرہ میں ہورہی ہے، یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی زیادہ تر ان علاقوں میں ہورہی ہے جہاں اردو اسپیکنگ آباد ہیں، گویا اس پر لسانی سیاست کرنے کے بھی خدشات ہیں۔

کراچی شہر میں زمینوں پر ناجائز قبضے کے حوالے سے ایک پرانا مسئلہ بھی حل ہونا چاہیے اور اعلیٰ عدالت کو اس مسئلہ کو بھی ’سو موٹو‘ ایکشن کے تحت حل کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ کراچی میں قائم مختلف سوسائٹیوں کی زمین پر ناجائز قبضوں کا ہے۔ ان سوسائیٹز میں اسکیم نمبر  33 کی سوسائیٹز کثرت سے شامل ہیں، مثلاً ان میں سے ایک بجنور ہاؤسنگ سوسائٹی، سہراب گوٹھ (الآصف اسکوئر) سے حیدرآباد جاتے ہوئے محض پانچ منٹ کی مسافت پر الٹے ہاتھ پر واقع ہے۔

یہ سوسائٹی پینتیس سال پرانی ہے مگر اس کے الاٹیز کو آج تک پلاٹ پر قبضہ نہیں ملا، حالانکہ وہ اس کی قیمت برسوں پہلے ادا کرچکے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے افغانیوں نے یہاں پر قبضہ جمایا ہوا ہے، پہلے انھوں نے جھونپڑیاں قائم کی تھیں اور اب پکے مکانات تعمیر کرچکے ہیں۔ اس سوسائٹی کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تمام دروازے کھٹکھٹا لیے مگر کوئی ان قابضین سے جان نہیں چھڑاتا۔ یہ اور اس جیسی نہ جانے کتنی سوسائیٹز کے لوگ اپنا پلاٹ ہوتے ہوئے بھی کرائے کے مکانات میں گزر بسر کررہے ہیں اور انصاف کے منتظر ہیں کہ کب ان قابضین سے جان چھوٹے گی اور کب انھیں اپنا پلاٹ ملے گا؟

ان معاملات کے حوالے سے نہ صرف عدلیہ، بلکہ رینجرز کا بھی کراچی میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ اگر عدلیہ اور رینجرز ان سوسائیٹز کے مسئلے پر بھی سماج دشمن اور قبضہ مافیا کی خبر لے کر کراچی کے بے بس شہریوں کے پلاٹس واگزار کراسکیں تو اس سے شہریوں کے دل میں ان دونوں کے لیے اور بھی احترام بڑھے گا اور وہ انھیں دعائیں بھی دیں گے۔

بہرکیف عدلیہ کے مذکورہ بالا اقدامات بہت اہم اور قابل ستائش ہیں، گو اس میں انھیں پس پردہ سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہوگا اور دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا، مثلاً ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ چائنا کٹنگ والے مکانات گرائے گئے تو اس سے تقریباً دس لاکھ افراد بے گھر ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں شہر میں کرائے کے مکانات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا اور پھر لازماً شہر میں مکانات کے کرائے بھی بڑھ جائیں گے۔

یہ خدشات بھی ہیں کہ جو شادی ہال مسمار کیے جارہے ہیں وہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد دوبارہ تعمیر کردیے جائیں گے یا خالی پلاٹوں پر پھر کوئی اور مافیا اپنا قبضہ جما لے گی، وغیرہ وغیرہ۔ راقم کا خیال ہے کہ جو بڑے پلاٹ خالی ہو رہے ہیں ان پر تفریحی پارک بنا دیے جائیں اور جو فلاحی پلاٹس ہیں، ان پر اسپتال وغیرہ کی بنیاد رکھ دی جائے، کیونکہ قبضہ مافیا نے اس شہر سے پارکس اور خالی میدان سرے سے ہی ختم کردیے ہیں اور بچوں کے کھیلنے کے لیے اب یہاں پارکس اور میدانوں کی شدید قلت ہے۔

اسی طرح جن لوگوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کرکے مکانات خریدے ہیں، ان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی حل نکالا جائے اور سزا اصل مجرمان کو پکڑ کر دی جائے، جو اس میں ملوث رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت اور گروہ سے ہو اور ان سے ہی نقصان پورا کیا جائے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دس پندرہ سال میں جتنے بھی افسران اور ذمے دار بلدیاتی اداروں سے منسلک رہے ہیں ان کی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی تفصیل طلب کرکے ملوث افراد کو سخت ترین سزا دی جائے۔

ان کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس بھی چیک کیے جائیں۔ یہ ایک مشکل ترین کام ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک ان ذمے داران کا کھوج لگا کر انھیں سزائیں نہیں دی جائیں گی، اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور کچھ ہی عرصے بعد سے یہ دھندا پھر شروع ہوجائے گا۔ اس ملک اور خصوصاً کراچی کے جو حالات رہے ہیں ان کو دیکھ کر باآسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا مسائل کو اگر کوئی قوت حل کرسکتی ہے اور عام شہریوں کو انصاف مہیا کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف عدلیہ اور رینجرز ہیں، جو ایک دوسرے کے تعاون سے برائی کو جڑ سے ختم کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔