دہشت گرد حملے؛ وحشت خون پیتی رہی ؛ گزرے سال دہشت گردی کی قیامت کہاں کہاں ٹوٹی

سید بابر علی  اتوار 31 دسمبر 2017
وہی سیاسی و عسکری قیادت کے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے۔ فوٹو : فائل

وہی سیاسی و عسکری قیادت کے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے۔ فوٹو : فائل

ہر سال کا ایک ہی المیہ، سال کے غروب ہوتے سورج کی الوداعی کرنوں کے ساتھ ساتھ دم توڑتی، سسکتی بلکتی انسانیت کا نوحہ، خاک و خون میں لتھڑی لاشوں پر بین کرتی مائیں، جواں لاشے اٹھاتے بوڑھے کاندھے، چند لمحوں میں سہاگن سے بیوہ ہوتی خواتین، زندگی سے ناتا توڑتی بے رحم موت۔ گذشتہ سالوں کی طرح سالِ گذشتہ نے بھی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وطن عزیز کو سوائے لاشوں اور دہشت گردی کے کچھ نہ دیا۔

وہی خون آلود لاشے، وہی آگ اگلتی بندوقیں، وہی موت بانٹتے خودکش بم بار، وہی سیاسی و عسکری قیادت کے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے، وہی ٹوٹی کمر والے دہشت گردوں کے حملے، سب کچھ وہی بس صرف ایک عدد بدلا۔ لیکن صرف ایک عدد کے بدلنے سے قسمت کبھی نہیں بدلتی، بدلتے ہیں تو صرف دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے اعداد و شمار۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر رہا۔ ان سانحات کی تفصیل تاریخ وار یوں ہے:
21جنوری
نئے سال کے پہلے مہینے کا افسوس ناک اختتام کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں بم دھماکے سے ہوا۔ پاراچنار کے پُرہجوم بازار میں ٹائم ڈیوائس کی مدد سے ہونے والے اس دھماکے میں بارہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں 25افراد جاں بحق اور 87سے زاید افراد شدید زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔
13فروری
پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے میں خود کش حملے کے نتیجے میں ڈی آئی ٹریفک اور ایس ایس پی سمیت 13افراد جاں بحق اور 83 زخمی ہوگئے۔ خودکش حملہ آور نے ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز زاہد گوندل کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ مال روڈ پر کیمسٹ ایسوسی ایشن کے مظاہرین سے مذاکرات کر رہے تھے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے مطابق خودکش حملہ آور کا ہدف اعلیٰ پولیس افسران تھے اور اس نے ان کے قریب ترین پہنچ کر خود کے دھماکے سے اُڑایا۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں پولیس اہل کاروں اور خاتون سمیت تیرہ افراد لقمۂ اجل بنے جب کہ تین صحافی بھی زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی۔
15فروری
پشاور، مہمند ایجنسی اور شبقدر میں یکے بعد دیگرے ہونے والے چار خودکش حملوں میں قانون نافذ کرنے والے چار اہل کاروں سمیت سات افراد جاں بحق ہوگئے۔ پہلے حملے میں خودکش حملہ آور نے بارودی مواد سے بھری سائیکل پشاور کے علاقے حیات آباد میں سول ججوں کولے جانے والی گاڑی سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق جب کہ گاڑی میں سوار ججز آصف جدون، رابعہ عباسی، آمنہ اور سیدہ تحریمہ صباحت شدید زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں پندرہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دوسرے حملے میں مہمند ایجنسی کے ہیڈکوارٹر غلنئی میں پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ دفتر کے مرکزی دروازے پر دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو اُڑا لیا جس کے نتیجے میں تین خاصے دار تاج عالم خان، زرسید اور یاسر خان سمیت نزدیک سے گزرنے والے دو شہری گل اور طاہر خان جا ں بحق ہوگئے۔ چوتھا خودکش حملہ مہمند ایجنسی میں سرچ آپریشن کے دوران ہوا جس کے نتیجے میں سوات اسکائوٹس کا لانس نائیک خیال حسین جاں بحق ہوا۔
16فروری
سندھ کے شہر سیہون شریف میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہفتہ وار تقریب جاری تھی۔ کوئی اپنی منت پوری کرنے آیا تھا تو کسی نے اولاد کے لیے درگاہ پر حاضری دی تھی، کسی نے بیماری سے صحت یابی کے لیے درگاہ کا رُخ کیا تھا تو کسی نے غسل صحت یابی سے پہلے مزار پر سلامی دینا ضروری سمجھا تھا۔ درگاہ کے ماحول پر ہر جمعرات کی طرح ایک جذب کی سی کیفیت طاری تھی، مجاورں کے دھمال، قوالی کی آواز سن کر مزار پر موجود ہر شخص پر وجد طاری تھا۔ دھمال شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 88 افراد جاں بحق اور ساڑھے تین سو سے زاید افراد زخمی ہوگئے۔ درگاہ لعل شہباز قلندر پر حملے کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی۔
21فروری
خیبر پختونخوا کی تحصیل تنگی کے سیشن کورٹ میں معمول کے مطابق کام جاری تھا کہ خودکش جیکٹس پہنے تین دہشت گردوں نے عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں کی جانب سے گیٹ پر فائرنگ اور دستی بموں سے حملہ کیا گیا تاہم سیکیوریٹی فورسز کی فوری کارروائی کے نتیجے میں دو دہشت گرد خود کو اڑانے سے قبل ہلاک ہوگئے، جب کہ ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچے سمیت سات افراد جاں بحق ہوگئے۔ حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی۔
31مارچ
فاٹا کے علاقے پارا چنار میں امام بارگاہ کے باہر کار بم دھماکے میں ایک خاتون اور دو بچوں سمیت 24 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ دہشت گردوں کا ہدف نور بازار میں واقع امام بارگاہ تھی۔ تاہم لیویز اہل کاروں کی کارروائی کے بعد انہوں نے امام بارگاہ سے کچھ فاصلے پر موجود بارودی مواد سے بھری گاڑی کو اڑا دیا۔ دہشت گردی کی اس بزدلانہ کارروائی کی ذمے داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد مقامی افراد نے شدید احتجاج کرتے ہوئے پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر دھرنا دینے کی کوشش کی جسے روکنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں مزید تین افراد جاں بحق ہوئے۔
5اپریل
دہشت گردوں کی جانب سے طویل تعطل کے بعد شروع ہونے والی مردم شماری کو بھی ناکام بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر مردم شماری ٹیم کی گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 5 فوجیوں سمیت سات افراد جاں بحق جب کہ 17زخمی ہوگئے۔ یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب مردم شماری ٹیم مانا والہ میں اپنے فرائض سر انجام دینے کے لیے منزل کی جانب جارہی تھی۔ گاڑی میں کچھ خرابی ہونے کی وجہ سے اسے ایک ورک شاپ پر روکا گیا اور اسی وقت موٹرسائیکل پر سوار خودکش بم بار نے موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکرا کر خود کو اُڑادیا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں دو کلو گرام بارودی مواد اور بال بیرنگ استعمال کیے گئے جس کی وجہ سے جانی نُقصان زیادہ ہوا۔ محکمۂ انسداد دہشت گردی کے مطابق حملہ آور کا سر جائے وقوعہ سے ساٹھ میٹر دور ایک گھر کی چھت سے ملا، جو کہ شکل سے اُزبک لگتا ہے۔
12مئی
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری مدرسے سے فارغ التحصیل طالبات کے لیے منعقد کی گئی شال پوشی کانفرنس سے خطاب کے بعد واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ موٹر سائیکل سوار ایک خود کش بم بار نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماردی، جس کے نتیجے میں جے یو آئی کوئٹہ کے نائب امیر حافظ قدرت اللہ لہڑی، مولانا عبدالغفور کے اسٹاف آفیسر اور ڈرائیور سمیت 30 افراد جاں بحق اور عبدالغفور حیدری سمیت 37افراد زخمی ہوگئے، جنہیں فوری طبی امداد کے لیے نزدیکی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر مستونگ غضنفر علی شاہ کے مطابق دھماکے میں دس سے بارہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکے کے وقت مدرسے کے اندر اور باہر طالبات اور دیگر افراد کی بڑی تعداد جمع تھی۔ دھماکے کی ذمے داری کسی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
13مئی
دہشت گردی کی اس سفاک واردات میں ان معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرنے کے لیے رزق حلال کمانے نکلے تھے۔ انسان کے بھیس میں موجود سفاک بھیڑیوں نے ضلع گوادر کے علاقوں پشکان اور گنت میں سڑک کی تعمیر میں مصروف مزدوروں پر اندھادھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں دس مزدور جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمے داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔
23جون
23 جون کو ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں پولیس اہل کاروں سمیت56افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ دہشت گردی کی پہلی کارروائی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہوئی ، جس میں آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر ہونے والے خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں 7 پولیس اہل کاروں سمیت 13افراد جاں بحق اور21 زخمی ہوگئے۔ کالعدم تنظیم جماعت الاحرار اور داعش نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی۔

صوبائی حکام کے مطابق دہشت گردوں کا ہدف آئی جی آفس یا قریب موجود فوجی چھائونی تھی تاہم پولیس کی فوری کارروائی کی وجہ سے وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ دھماکے میں 75 کلوگرام سے زاید دھماکاخیز مواد، نٹ بولٹ اور وال بیرنگز کا استعمال کیا گیا۔ دوسرا خودکش حملہ پاراچنار کے پُرہجوم طوری بازار میں اس وقت ہوا جب لوگوں کی بڑی تعداد عید کی خریداری میں مصروف تھی۔

پہلے دھماکے کے بعد لوگ موقع پر امدادی کارروائی میں مصروف تھے کہ اسی دوران دوسرا دھماکا ہوگیا۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں 45افراد جاں بحق اور سو سے زاید زخمی ہوگئے۔ 23جون کا سورج غروب ہوتے ہوتے چار زندگیوں کے چراغ گُل کر گیا۔ دن کی آخری دہشت گرد کارروائی میں شہرقائد میں افطاری کے لیے ہوٹل پر بیٹھے سائٹ پولیس اسٹیشن کے چار اہل کاروں کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے اہل کاروں کے سروں کو نشانہ بنایا اور کالعدم تنظیم انصارالشریعہ پاکستان کے پمفلٹ پھینک کر فرار ہوگئے۔


24جولائی
لاہور میں موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑالیا جس کے نتیجے میں 9 پولیس اہل کاروں سمیت 26 افراد جاں بحق اور 60 افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکا اس وقت کیا گیا جب ضلعی انتظامیہ فیروزپور روڈ پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کر رہی تھی۔ دھماکے سے متعدد گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس خودکش حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے مطابق حملہ آور نے پرانی سبز ی منڈی کوٹ لکھپت میں اس چوکی کو نشانہ بنایا جو تجاوزات کے خلاف آپریشن کے لیے بنائی گئی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق دیسی ساختہ بم میں دس سے بارہ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
12اگست
کوئٹہ میں دہشت گردوں نے جشن آزادی سے محض دو دن قبل معصوم شہریوں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ جشن آزادی کی خوشی میں لگنے والے میلے میں شریک تھے۔ دہشت گردی کی واردات میں خودکش حملہ آور نے جشن آزادی میلے کی سیکیوریٹی پر مامور اہل کاروں کی گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا یا جس کے نتیجے میں 8 سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت15افراد جاں بحق اور 25 سے زاید افراد زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں نے جشن آزادی کی خوشیوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاک فوج کے ٹرک کو نشانہ بنایا۔ وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکا موٹر سائیکل سوار خودکش حملہ آور نے کیا، دھماکے میں20 سے 25کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کی ذمے داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔
14اگست
دہشت گردوں نے یوم آزادی پر ایک بار پھر کوئٹہ کو لہولہان کردیا۔ پہلے واقعے میں ضلع ہرنائی کے علاقے خوست میں دہشت گردوں نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کی گاڑی کو اس وقت ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے نشانہ بنایا جب وہ جشن آزادی کی تقریبات میں شرکت کے بعد اپنے کیمپ کی جانب رواں دواں تھے۔ دھماکے کے نتیجے میں 6 ایف سی اہل کار جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے، جب کہ دوسری کارروائی میں دہشت گردوں نے پنجگور میں معمول کی گشت پر مامور اہل کاروں کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس ایک اہل کار جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔
5اکتوبر
بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں درگاہ پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں دو پولیس اہل کاروں سمیت25 افراد جاں بحق اور 50 سے زاید زائرین شد ید زخمی ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق درگاہ فتح پور میں پندرہویں محرم کے سلسلے میں ہونے والی محفل شبینہ میں زائرین کی بڑی تعداد شریک تھی کہ اچانک ایک خودکش بم بار نے درگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ مرکزی دروازے پر تعینات پولیس اہل کاروں نے اسے روکنے کی کوشش کی جس پر اس نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ بارہ سال قبل 19مارچ 2015کو بھی اس درگاہ پر خود کش حملے کیا گیا تھا جس میں 50 سے زاید زائرین موت سے ہم کنار ہوئے تھے۔
18اکتوبر
بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی دو مختلف کارروائیوں میں پولیس اور سیکیوریٹی فورسز کے 10اہل کاروں سمیت 11افراد جاں بحق اور 25 سے زاید زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ کے علاقے نیو سریاب میں خودکش بم بار نے ایلیٹ فورس کے ٹرک سے بارودی مواد سے بھری گاڑی ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں 7اہل کار اور ایک شہری جاں بحق ہوا۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی، جب کہ شمالی وزیر ستا ن کی تحصیل میرعلی میں کھجوری چیک پوسٹ کے قریب فرنٹیئر کانسٹیبلری کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں دو سیکیوریٹی اہل کار جاں بحق ہوگئے۔
15 نومبر
سولہ نومبر کا سورج وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان کے ساتھ طلوع ہوا۔ یہ داستان انسانی اسمگلروں کی زرپرستی اور کالعدم علیحدگی پسند جماعت بلوچستان لبریشن فرنٹ کے انتہاپسندوں کے اشتراک سے رقم ہوئی۔ بلوچستان کے ضلع تربت میں بیرون ملک جانے کے خواہش مند پندرہ نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان نوجوانوں کو انسانی اسمگلروں نے ایران کے راستے خلیجی ممالک اور یورپ جانے کے خواب دکھا ئے تھے۔ ان نوجوانوں کا قتل عام اس وقت ہوا جب دو گاڑیوں میں سوار ان افراد کو دہشت گردوں نے ایرانی سرحد کے قریب گاڑی سے اتار کر ان پر فائرنگ کردی۔ کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ان افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مارے جانے والے افراد فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ اسی لیے انہیں قتل کیا گیا۔ دوسری جانب کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک اور کارروائی میں ایس پی انویسٹی گیشن محمد الیاس کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محافظ کالونی جارہے تھے۔ اس واقعے میں محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹا اور ان کی اہلیہ‘ بیٹے اور 5سالہ پوتا موقع پر ہی جاں بحق اور چار سالہ پوتی شدید زخمی ہوگئی۔
18 نومبر
سانحہ بلوچستان کے تین دن بعد ہی تربت کے ہی علاقے تجابان سے گولیوں سے چھلنی مزید پانچ نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ یہ نوجوان بھی چند روز قبل قتل ہونے والے بدقسمت نوجوانوں میں شامل تھے۔ ان کے قتل کی ذمے داری بھی کالعدم جماعت بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔
24نومبر
پشاور کے علاقے حیات آباد میں سیکیوریٹی فورسز کی گاڑی کے قریب خودکش حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایڈیشنل آئی جی پولیس ہیڈکوارٹر، پشاور اشرف نور سمیت 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ سی سی پی او پشاور کے مطابق دھماکا موٹر سائیکل سوار خودکش بم بار نے کیا۔
یکم دسمبر
بارہ ربیع اول کو تین برقعہ پوش دہشت گردوں نے پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 9 افراد جاں بحق اور 30 سے زاید زخمی ہوگئے۔ سیکیوریٹی فورسز نے بروقت کارروائی کر کے تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق رکشے میں آنے والے برقعہ پوش تین حملہ آوروں نے جامعہ میں داخل ہوکر ہاسٹل اور دفاتر پر دستی بموں سے حملہ اور فائرنگ شروع کردی، تاہم عام تعطیل ہونے کی وجہ سے جانی نُقصان کم ہوا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے تین خود کش جیکٹس، دو آئی ای ڈیز (امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس) اور بیس سے زاید دستی بم برآمد کر کے انہیں ناکارہ بنا دیا۔ حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔
17دسمبر
کوئٹہ میں مسیحی برادری کو ایک بار پھر بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع بیتھل میموریل میتھوڈسٹ چرچ میں ہونے والے خود کش حملے میں دو بچوں سمیت نو افراد جاں بحق اور 57زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں نے چرچ پر اس وقت حملہ کیا جب وہاں دعائیہ تقریب جاری تھی، خودکش بمباروں نے چرچ کے اندر جانے کی کوشش کی تاہم مرکزی دروازے پر تعینات اہلکار نے فائرنگ کر کے ایک بمبار کو مار گرایا جب کہ دوسرا خودکش حملہ آور چرچ کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
فائرنگ کے بعد پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی، جس کے بعد سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا،اس دوران زخمی ہونے والے دوسرے خود کش بمبار نے خود کو چر چ کے احاطے میں ہی اڑا لیا۔اس واقع کی ذمے داری کالعدم شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔