اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟

شاہد سردار  اتوار 31 دسمبر 2017

ہمیں ہر سال 12 مہینے، 365 دن، 52 ہفتے یا پھر 8760 گھنٹے میسر آتے ہیں، لیکن ہر سال کے اختتام پر یہی کہا جاتا ہے کہ ’’سال گزرگیا پتا ہی نہیں چلا۔‘‘ اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے، زمانے کی رفتار بہت تیز تر ہوگئی ہے اور ہم یا تو اس رفتار کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا پھر اس کے چیلنجز کو اب تک سمجھ نہیں سکے۔

ایک سال میں محض 365 دن ہی نہیں ان گنت خوابوں اور خواہشوں کے سفیر ہوتے ہیں، خوش رنگ تتلیاں بھی جنھیں ہم امید کی روپہلی روشنی میں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب نیا سال نئی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ دستک دے تو پھر ہم یہ سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ان بیتے لمحوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ بے شک خود احتسابی اچھا عمل ہے لیکن جو کھودیا اس پر آنسو بہانے کے بجائے اگر اس سے کوئی اچھا سبق حاصل کرلیا جائے تو زندگی آسان ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے قیام کو 70 سال ہوچکے کہنے کو یہ ایک انسان کی تقریباً پوری زندگی ہے لیکن ان طویل برسوں میں کبھی ہم اس منزل تک نہیں پہنچ سکے جس کے وعدے کرکے اور جس کی چاہ میں 1947 میں ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج جہاں ایک جانب ملک کو بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے، عوام پر امن و پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ترس رہے ہیں تو دوسری طرف حکومتی سطح پر بدانتظامی، کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست نے عام پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔

خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں وطن عزیز میں زیادہ خراب حالات کے بارے میں یہ عذر تراشا جاتا ہے کہ یہاں جمہوری طاقتوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار جمہوریت پر شب خون مار کر مطلق العنانیت کی راہ ہموار کی گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موقع فراہم کس نے کیا؟ اگر جمہوریت کے پاسبان جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے تو پھر اس مداخلت کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟

وطن عزیز کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مستقبل کے معماروں کی صحت کے لیے گھروں سے نکلنے والی (پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین ورکر) آئے دن دہشت گردی کی لہر میں خون بن کر بہہ جاتی ہیں اور جس ملک میں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو مارا جاتا ہو اس کے معاشرے کو اپاہج زدہ بنانے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ ویسے بھی ہمارے دشمن یہ بات کیسے پسند کرسکتے ہیں جو ملک کے محافظوں کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، معیشت کی طرح عوام کو بھی معذور بنادینا چاہتے ہیں اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ جہاں تعلیمی درس گاہوں کو نذرآتش کیا جا رہا ہو، چن چن کر اساتذہ کو گولی ماری جا رہی ہو، ڈاکٹر اور انجینئرز کو موت کی نیند سلایا جا رہا ہو، عبادت گاہوں میں لوگوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہو تاکہ لوگ اور بالخصوص اہل دانش خوفزدہ ہوکر ملک چھوڑ جائیں اور بہت بڑی تعداد ایسا کر بھی چکی ہے یا ارادہ باندھے ہوئے ہے۔

اسٹیل مل، پی آئی اے، محکمہ ڈاک تباہی کے دہانے کے قریب ہیں محکمہ بجلی، آب و گیس بھی اسی قطار میں کھڑے ہونے کی تیاری میں ہیں۔ پبلک سیکٹر کی طرح پرائیویٹ سیکٹرز کو گھیرے میں لایا جا رہا ہے، کارخانوں میں آگ لگ رہی ہے، لوڈ شیڈنگ سے مزدوروں کے گھر روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کسی کے پاس جواب ہے؟ نہیں ہے ناں کیونکہ واقعات، حادثات سے پہلے ہم اس کے سدباب کی کوشش نہیں کرتے۔

افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں صحیح غلط اور غلط صحیح ہے۔ اس معاشرے کے سارے وسائل اور ساری طاقت اشرافیہ کے پاس ہے بے نوا، لاچار غریب عوام برسہا برس سے یہاں صرف بے چاری ہے اور کچھ نہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہو جانا ہمارے ہاں آئے دن کا معمول ہے اور اس کی وجہ کسی مربوط نظام کی عدم دستیابی ہے چنانچہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور عوام کو اشیائے خور و نوش کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہمارے ملک میں مہنگائی کا سیلاب پھر سے آگیا ہے اور مرغی، انڈہ، نمک، مرچ، چاول، چائے، چینی، آٹا، ایل پی جی سلنڈر سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی ہیں۔

ہر نیا سال ہمیں یہ امید دلاتا ہے کہ شاید اب کے ہمارے چمن میں بہار اترے گی اور خزاں کا دور ختم ہوگا لیکن یہ انتظار ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ 2017 کل 2018 میں تبدیل ہوجائے گا لیکن یہ سال خود ثابت کردے گا کہ وطن عزیز کی خزاں کو بہار ملی یا نہیں۔ تاہم ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم ایک زوال پذیر معاشرے کے فرد ہیں ایک ایسے معاشرے کے فرد جس کی اقدار روز بروز کمزور ہو رہی ہیں۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں اور اکابرین کو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے وقت کے ساتھ چلنے کا عزم کرنا چاہیے ورنہ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جو قومیں وقت کے ہمرکاب نہیں ہوتیں وہ گرد راہ ہوجاتی ہیں۔ ہم بھی بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ وقت کی قدر کرو جو اس کی قدر نہیں کرتا وقت بھی اس کی قدر نہیں کرتا اور وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی وقت کی قدر کریں اور اسے فضول کاموں میں ضایع نہ کریں تاکہ مستقبل میں کچھ بہتر کرنے کی راہ نکل سکے کیونکہ وقت کا پہیہ کبھی تھمتا نہیں گھومتا ہی چلا جاتا ہے۔

ملکی تاریخ بارہا یہ ثابت کرتی چلی آئی ہے کہ نہ ہم نے نہ ہمارے ارباب اختیار نے اپنی خو بو بدلنے پر کبھی آمادہ دکھائی نہیں دیے سال نو کسی سن کا ہو یا سال گزشتہ ماضی کے گئے دنوں کا گوشوارہ رہا ہو انھوں نے اپنے آپ کو کبھی تبدیل نہیں کیا۔ کوئی مثبت کوئی تعمیری سوچ ان کے ذہن کا حصہ نہ بن سکی، نتیجے میں ہم برسہا برس سے ترقی نہیں ترقی معکوس کے مراحل میں پڑے ہوئے ہیں۔

ہمارے اکابرین لمحے بھر کو اپنے قریبی قبرستان کو اپنے ذہن میں لائیں وہ لمحے میں جان لیں گے کہ قبرستان کی مٹی کے نیچے کوئی نہ کوئی جسد بے جان محو خواب ہے۔ گور غریباں سے لبالب بھرے قبرستان جہاں چاروں طرف شکست وریخت کا راج ہے۔ اکثر قبریں کھوکھلی اور پھٹی ہوئی۔ اتنی ویرانی اور کسمپرسی دیکھ کر پھر بھی اگر ہم فانی انسانوں کو عبرت حاصل نہ ہو اور فنا کا یقین نہ ہو تو اسے آپ کیا کہیں گے؟

بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق امید واثق ہے کہ نیا سال ہمارے آپ سبھی کے لیے علم، کتاب اور مطالعے کے ساتھ عزم اور جہد مسلسل کا سال ثابت ہوگا۔ بے روزگاری، بدامنی اور دہشت گردی سے نجات اور قومی سوچ، یکجہتی، یگانگت کے ساتھ بامقصد طرز زندگی کا سال ہوگا۔ جھوٹ مکر و فریب، غیبت، بے صبری، خودنمائی، ظلم و زیادتی اور بدعہدی کے بجائے محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، بردباری، احساس ذمے داری اور امن پسندی جیسی صفات کو اپنانے کا سال ہوگا وگرنہ ہر سال کی طرح کیلنڈر بدل جائیں گے لیکن ہماری نوجوان نسل بلکہ ہم سب کا مستقبل نہیں بدلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔