فن بڑا یا فنکار

رفیع اللہ میاں  اتوار 31 دسمبر 2017

فن و ثقافت ہو یاسیاسی، سماجی، مذہبی صورت حال، ہمارے معاشرے میں شخصیت پرستی سے جان چھڑانے کے متعلق سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ کسی نہ کسی صورت میں یا کسی نہ کسی سطح پر ہم افراد کے گرد دائرہ بناکر انھیں مخصوص تمغائے علویت عطا کردیتے ہیں۔ اس رخ پر سوچنے کا آغاز اس سوال سے ہوسکتا ہے کہ شخصیت پرستی سے جان چھڑانا کیوں ضروری ہے؟

یہ ایک نہایت منطقی نکتہ ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے گروہ یا سماج سے بڑا نہیں ہے، چنانچہ اسے بڑا سمجھ لینا دراصل ہر طرح سے خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کسی فرد/ شخصیت کی طرف ’بڑائی‘ کی خصوصیت منسوب کیے جانے کا معاملہ خالصتاً دوسرے کی خواہش پر مبنی ہے، کسی حقیقی صورت حال پر نہیں۔ کیونکہ معاشرے کے اندر ہر فرد تاریخی تسلسل میں تمام خصوصیات کا حصول کرتا ہے۔ ہر شخص کی ’انفرادیت‘ اتنی بھی منفرد نہیں ہوتی جتنی کہ سمجھی جاتی ہے۔ ’بڑائی‘ کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد فرد اپنے سماجی تعامل سے خود کو کاٹ لیتا ہے اور ایسے حتمی فیصلے صادر کرتا ہے جو علمی، سماجی یا فلسفیانہ سطح پر درست نہیں ہوتے۔

اس کا یہ حتمی فیصلے صادر کرنے کا عمل بتاتا ہے کہ اس نے خود کو سماجی تعامل سے کاٹ لیا ہے۔ اب وہ خود کو معنی کا ماخذ سمجھ لیتا ہے اور ہر چیز کو اپنی پسند کے معنی دے کر دوسروں پر اسے مسلط کردیتا ہے اور یہیں سے معاشرے کے اندر انتشار کی صورت حال پیدا ہونے لگ جاتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتا ہوں، جس کا تعلق فن اور فنکار کے مابین بڑے اور چھوٹے کے تصور کے ساتھ ہے۔

ہمیں اکثر اس دعوے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ فنکار اپنے فن سے بڑا ہوتا ہے۔ اس دعوے کی بنیاد فنکار کی اخلاقی طور پر استوار کی جاتی ہے، یعنی چونکہ وہ تخلیق کار ہے اور فن کو پیدا کرتا ہے، اس لیے وہ بڑا ہوا۔ فلسفیانہ سطح پر اس دعوے کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ باطل ثابت ہوتا ہے، نہ صرف فکری سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی۔

فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے مغربی تناظر میں علویت (چھوٹے بڑے) کے مسئلے کو بخوبی اجاگر کرکے کسی بھی معاملے میں (جیسا کہ اچھا اور برا، فلسفی اور فلسفہ، شاعر اور شاعری وغیرہ) ایک دوسرے پر فوقیت رکھنے والے عناصر کے سلسلے کو ڈی کنسٹرکٹ کیا، یعنی باطل ثابت کیا ہے۔ میں نے اسے دو مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک تھوڑی سی مشکل اور دوسری قدرے آسان۔

پہلی تھوڑی سی مشکل مثال: اگر ہم مان لیں کہ فلسفی فلسفے سے بڑا ہے تو (دریدا کے ڈسکورس کے مفہوم میں) فلسفی ہی حتمی ماخذ ہے فلسفے کا۔ حتمی ماخذ ہونے کا ایک آسان مطلب یہ ہے کہ جہاں سے نکلنے والی چیز اپنے تمام اجزا میں کسی دوسرے وجود کی محتاج نہ ہو۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ اس دعوے کو دریدا ڈی کنسٹرکٹ کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ کہ فلسفہ زبان کے اندر وجود رکھتا ہے، اور زبان کا یہ معاملہ ہے کہ (مابعد ساختیات کے حوالے سے) اس میں حتمی یا معنی کے حتمی تعین کا لمحہ نہیں آتا، لہٰذا کوئی فلسفہ حتمی فلسفہ نہیں ہے۔

جب کوئی حتمی فلسفہ نہیں ہے تو کوئی حتمی فلسفی بھی وجود نہیں رکھتا۔ یعنی غیر حتمی فلسفہ مماثل ہے غیر حتمی فلسفی کے، اس میں برتری کا سوال کہیں نہیں اٹھتا۔ یہاں حتمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فلسفی ایک ایسے معنی/ فلسفے کو وجود میں لائے جو اپنی برتری کے معنی میں حتمی ہو اور اس میں کوئی تبدیلی یا تخفیف ممکن نہ ہو اور جس کے اجزا ماقبل فلسفے سے مستعار نہ ہوں۔ ایک مفروضہ حتمی فلسفہ ہی ایک مفروضہ حتمی فلسفی کے لیے دلیل بن سکتا ہے۔ ایسے فلسفی کے لیے ہم یہ خصوصیت منسوب کرسکتے ہیں کہ وہ پہلے سے موجود ہے، یعنی بالذات موجودی یعنی مکمل اپنے بل بوتے پر۔

اس کو کسی قدر آسان پیرائے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم فلسفی کو پہلے سے موجود تصور کرلیں تو پھر ایک نہیں بلکہ بہت سارے فلسفیوں کو تصور کرنا پڑے گا، اور خود ان پر یہ بار آن پڑے گا کہ ثابت کریں کہ ان کے پاس جو فلسفہ ہے وہ کلیتاً انھی کی پیداوار ہے اور انھوں نے کسی اور سے کوئی بھی چیز (مقولہ) مستعار نہیں لی۔ ہر فلسفی پچھلے فلسفیانہ مقولات (Concepts) پر اپنا مخصوص مقولاتی دائرہ کھینچتا ہے جو اپنے پیش رو مقولات کے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتا۔

یہ فلسفی اور فلسفے کی مثال تھی لیکن یہی معاملہ شاعر اور شاعری کے حوالے سے بھی صادق آتا ہے۔ شاعر اگر شاعری سے بڑا ہے تو اسے ثابت کرنا پڑے گا کہ اس کے تمام مضامین پیش روؤں سے مستعار نہیں ہیں۔ شاعر کا اپنے شعر سے بڑا ہونے کا مطلب لامحالہ یہی نکلتا ہے کہ وہ شاعری سے بڑا ہے، کیونکہ اس کا شعر ایک لسانیاتی تشکیل ہے اور اپنے تمام تر قواعد کے ساتھ لسان کسی شاعر کی تخلیق نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک شعر کے حوالے سے بھی ایسا دعویٰ پوری شاعری کے حوالے سے دعوے کے مترادف ہے۔ مختصر یہ کہ شاعر شاعری کو پیدا نہیں کرتا بلکہ زمانی طور پر پہلے سے موجود شاعری شاعر کو پیدا کرتی ہے۔

دوسری کسی قدر آسان مثال (موچی کی): بڑا اور برتر ہونے کا ایک لازمی مطلب یہ ہوتا ہے کہ فنکار یا نام نہاد تخلیق کار اپنے فن یا اپنی صنعت پر اتنی دسترس رکھتا ہے کہ وہ ہر لمحے اس میں بہتری اور علویت لانے پر قادر ہے۔ یعنی وہ ہر لمحے اپنے فن یا اپنی صنعت کو اعلیٰ تر بناتا رہتا ہے۔ اب حقیقی سطح پر دیکھیں تو ایک موچی اپنی زندگی میں کتنے ڈیزائن کے جوتے بناتا یا بنا سکتا ہے؟

اگر ہم اس اہم ترین اور نہایت چبھتے سوال کو نظر انداز کردیں کہ موچی کے پاس چمڑا اور دیگر سامان کہاں سے آیا، تب بھی، اگرچہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے فن پر پوری طرح قادر نہیں ہے، کیونکہ وہ چمڑا نہیں بنا سکتا، اپنے فن کے آگے اس کی بے بسی اسی بات سے ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی پیداواری زندگی میں چودہ پندرہ (زیادہ بھی ہوسکتے ہیں) ڈیزائن سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔

تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ موچی دراصل جوتے کا نہیں بلکہ جوتے کے ایک مخصوص ڈیزائن کا خالق ہے۔ اب ’مخصوص ڈیزائن‘ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ڈیزائن مارکیٹ میں دستیاب پیٹرنز کا زائدہ ہوتا ہے۔ ان پیٹرنز میں ردوبدل کرکے ایک ایسی شکل دی جاتی ہے جس پر ’نئے‘ اور ’منفرد‘ ہونے کا محض التباس ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’فنکار‘ ’خالق‘ ’فلسفی‘ ’شاعر‘ کا اپنے فن، تخلیق، فلسفے اور شاعری سے بڑا ہونے کا معاملہ ایک التباس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔