18 سال

رئیس فاطمہ  اتوار 31 دسمبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

میرا پہلا کالم یکم جنوری 2000ء میں شایع ہوا تھا، یعنی پورے اٹھارہ سال پہلے۔ اس وقت ایکسپریس کے ایڈیٹر نیر علوی ہوا کرتے تھے، اور ادارتی صفحے کے انچارج شمیم نوید اور اطیب تھے۔ پہلا کالم ’’نمبر 2 کا آدمی‘‘ تھا، جسے قارئین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی تھی۔ پھر ادارتی صفحے کے انچارج صاحبان نے ہفتے میں دو اور تین کالموں کی فرمائش کردی، لیکن چند ہفتوں بعد میں نے خود ہفتے میں دو کالموں کی حامی بھرلی تاکہ معیار قائم رہے۔ اس وقت ایکسپریس صرف کراچی سے نکلا کرتا تھا اور اس نومولود نے بہت جلد سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ جہاں دیکھو وہاں لوگوں کے ہاتھوں میں ایکسپریس۔

کالم نویسی کے دوران بڑے بڑے تلخ اور اچھے تجربات ہوئے۔ بہت سے لوگ دوست بنے، قارئین فون پر بات کرتے تو پہلا جملہ یہی ہوتا کہ ’’ہمیں توقع نہیں تھی کہ آپ فون ریسیو کریں گی‘‘۔ پتہ نہیں لوگوں کی اکثریت لکھنے والوں کو مغرور کیوں سمجھتی ہے جب کہ میں نہیں سمجھتی کہ کوئی بھی کالم نگار یا لکھاری اتنا بدتہذیب ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کے فون یا ای میل کا جواب نہ دے۔ البتہ ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے جو کالم کی ایک سطر اگر ان کے مزاج کے خلاف ہو تو وہ دھمکیاں دینے اور مغلظات بکنے پر اتر آتے ہیں۔

اس حوالے سے میرا ذاتی تجربہ مذہبی جماعتوں سے متعلق کبھی اچھا نہیں رہا۔ ہم نے ہر غلط بات پہ قلم اٹھایا، سب سے زیادہ سخت کالم جنھیں میں باقاعدہ تنقید کہوں گی، پرویز مشرف کے زمانے میں لکھے اور صرف ایک بار مرحوم عباس اطہر نے کراچی کے ایڈیٹر صاحب کی معرفت پیغام بھجوایا تھا کہ ’’ہاتھ ہلکا رکھیں، حکومت کے خلاف دو تین کالم بہت سخت تھے، محتاط رویہ اختیار کریں‘‘۔ لیکن براہ راست مجھے حکومتی اہلکاروں کی جانب سے کبھی دھمکی آمیز فون کال نہیں آئی کہ ایسی باتوں کا ٹھیکہ کلی طور پر ہماری مذہبی جماعتوں نے اٹھا رکھا ہے۔

طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا تھا کہ پہلے مذہبی جماعت کے انچارج کالم پڑھ کر تعریف کرتے، جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کو فون نمبر کہاں سے ملا؟‘‘ تو بے نیازی سے بولے، ہمارے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں، ہمارے پاس تمام لکھنے والوں کے فون نمبر ہیں۔ جب لگاتار تعریفی فون آنے لگے تو کچھ کھٹکا سا لگا کہ معاملہ کچھ دگر لگتا ہے۔ وہی ہوا جس کا شبہ تھا، ایک کالم میں عمران خان کی تعریف کی گئی تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران کے مذہبی، سیاسی جماعت سے کچھ اختلافات سامنے آرہے تھے۔ بس چند جملے لکھنا غضب ہوگیا، ایسی ایسی فون کالز اور SMS آتے رہے کہ جن کی اطلاع میں نے ایکسپریس کی انتظامیہ کو بھی دی۔ پھر جماعت کے سرگرم عہدیدار کو بھی دی۔ موصوف سے طویل گفتگو ہوئی۔ پھر انھوں نے معذرت بھی کی، لیکن اس کے باوجود کوئی بات اگر ان کے نکتہ نظر کے خلاف ہو تو فون آنا اور شکایت کرنا لازمی تھا۔

یہ بات میرے علم میں تھی کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں کالم نگاروں کی تحریر کا پوسٹ مارٹم بخوبی کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے علیحدہ شعبہ ہوتا ہے جو کالم کی سطروں کو سرخ نشان لگا کر اپنے بڑوں کی خدمت میں پیش کرتا ہے اور انھی کے حکم پر کالم نویسوں کو ملاحیاں سنائی جاتی تھیں اور دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔ ایک بار 2001ء میں ایک کالم چھپا جس کا عنوان تھا ’’سب ترے سوا کافر‘‘ یہ یاس یگانہ چنگیزی کے شعر کا مصرعہ تھا، شعر کچھ یوں ہے:

سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا؟

سر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا؟

بس کالم کا چھپنا تھا کہ گویا قیامت آگئی۔ پہلے ایکسپریس فون کرکے دل کی بھڑاس نکالی گئی، پھر خدا جانے کہاں سے میرا PTCL نمبر حاصل کرکے قصیدہ خوانی کی گئی۔ موصوف خود کو کسی مذہبی ادارے کا مہتمم بتاتے تھے اور برہم اس بات پر تھے کہ مولویوں کے خلاف کالم کیوں لکھا؟ جب کہ وہ کالم مولوی حضرات کے خلاف نہیں تھا بلکہ ان دو نمبر کے مذہبی لوگوں کے خلاف تھا جو کسی کی بھی زمین پر قبضہ کرکے مسجدیں بنالیتے ہیں اور ان میں دکانیں کھول کر کرائے پر دے کر مال بناتے ہیں۔

نہ جانے کتنے مدرسے اور یتیم خانے بھی دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں۔ پورے ملک میں اس کا جال بچھا ہے۔ حکومت خود بھی واقف ہے لیکن وہ اتنی مجبور ہے کہ چائنا کٹنگ کے نام پر تو بے شمار عمارتیں اور شادی ہال گرا رہے ہیں، لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ ان مسجدوں کی بھی خبر لے جو کسی کی زمین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہیں۔ ان رویوں سے میں دل برداشتہ نہیں ہوئی بلکہ میرے شوق کو مزید مہمیز لگتی تھی۔ ان چند سرپھرے لوگوں کے مقابلے میں ان قارئین کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو میرا کالم پڑھ کر فون کرتے تھے، خطوط لکھتے تھے جو ایکسپریس کی معرفت آتے تھے اور مجھ تک پہنچ جاتے تھے۔

اب ای میل کی سہولت موجود ہے، سو قارئین اپنی بات براہ راست کہہ دیتے ہیں۔ اختلاف ہوتا ہے تو اختلاف بھی کرتے ہیں، کھل کر تنقید بھی کرتے ہیں اور تعریف بھی۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ سکون اور شانتی ان کالموں سے ملی جن میں کسی ضرورت مند کی مدد کی اپیل کی گئی اور لوگوں نے دل کھول کر مدد کی۔ امداد کے لیے پہلا کالم 2001ء میں لکھا گیا، اس کے بعد بہت سے لوگوں کی مشکلات ایکسپریس کے ذریعے دور ہوئیں۔

کچھ جعلی لوگوں سے بھی واسطہ پڑا۔ لیکن امدادی کالموں کے لیے چھان پھٹک میں نے خود کی۔ بلکہ بعض دفعہ صورتحال کی سنگینی دیکھ کر ازخود نوٹس لیا اور کالم لکھے۔ اور کسی بھی کالم کے جواب میں مایوسی نہیں ہوئی۔ شاید اس لیے کہ لوگوں نے اس تحریر میں چھپی سچائی، ہمدردی اور بے کسی کو محسوس کرلیا تھا۔ یہ صدقہ جاریہ تھا۔

آج میں ان تمام قارئین کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے میرا کالم پڑھ کے اس پر یقین کیا اور ضرورت مندوں کی مدد کی۔ کیونکہ یہی انسانیت ہے۔ ورنہ آدمی تو سب ہی ہیں۔ لیکن آدمی کو انسان یہی جذبہ بناتا ہے کہ ’’دوسروں کے واسطے زندہ رہو۔‘‘ کل یہی ہمارا کل اثاثہ ہوگا ضرورت مندوں اور سفید پوشوں کی مدد کرنا ہی افضل ترین رویہ ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ ایک بار عمرہ اور ایک بار حج کرنے کے بعد اگر آپ اپنے مال میں سے کسی کے گھر راشن ڈلوادیں تو بار بار کے عمروں سے زیادہ ثواب ملے گا۔ غور کیجیے گا میری بات پر!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔