یادگار عالمی اردو کانفرنس

زاہدہ حنا  اتوار 31 دسمبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

شہر اپنی علمی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ کراچی بیسویں صدی کی ابتدا سے خوش باش اور خوش خیال لوگوں کا شہر تھا۔ اردو سندھی مشاعرے ہوتے، گجراتی ادیبوں کی منڈلی جمتی، کتابیں شائع ہوتیں، ادبی رسالے اپنی جھلک دکھاتے۔ پارسی تھیٹریکل کمپنیاں جنہوں نے ہندوستان بھر میں اپنے ڈراموں سے دھوم مچا رکھی تھی، وہ کراچی بھی آتیں اور خلقت انھیں دیکھنے کے لیے ٹوٹی پڑتی۔

پارسی اس شہر کے سماجی اور کاروباری حلقوں کی جان تھے۔ گوا اور ہندوستان بھر سے آنے والے کرسچن شہر کی ثقافتی اور تہذیبی زندگی میں ایک نیا رنگ بھرتے۔ ان کے کئی شاندار اور باوقار گرجا گھر تھے۔ ہندوؤں کے مندر اور سکھوں کے گوردوارے تھے۔

کراچی ایک کثیر المشرب اور مختلف رنگوں سے بنا ہوا میورل تھا جس پر سب ہی اتراتے تھے۔ انگریز جنہوں نے انیسویں صدی میں اس پر قبضہ کیا تھا، وہ بھی اس شہر کے سحر میں گرفتار ہوئے۔ انھوں نے اس پر کتابیں لکھیں اور اسے ’ملکہ مشرق‘ کہہ کر پکارا۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ تقسیم کے صرف پچیس تیس برس بعد اس پر آسیب کا سایہ ہوگا۔ ایسا آسیب جس نے اس شہر کی رواداری اور کثیرالمشربی کو جاں بہ لب کردیا۔

ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے ان اداروں اور افراد کا جنہوں نے شہر کے تن مردہ میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے نئی جان ڈالی۔ شہر والے جو گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے زرد پڑ جاتے تھے، اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کوئی اندھی گولی ان کے پیاروں یا ان کے بدن کو چاٹ نہ جائے، وہ کراچی لٹریچر فیسٹول اور آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس کی محفلوں میں شرکت کرنے نکلے اور اب یہ دونوں محفلیں سال بہ سال ہوتی ہیں۔ لوگوں کو ان کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ کئی ایسے بھی ہیں جو ان میں شرکت کے لیے یورپ کے مختلف ملکوں سے، امریکا اور کینیڈا سے آتے ہیں۔ روح کو سیراب کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ ہمیں امینہ سید اور محمد احمد شاہ کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اپنے اداروں کے وسیلے سے کراچی کی ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو ازسرِ نو زندہ کردیا ہے۔

2017ء کے آخری دنوں میں کراچی آرٹس کونسل نے دسویں عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر سے ادیب، دانشور اور شاعر آئے۔ کوئی ایسی محفل نہ تھی جو صبح 10 بجے سے شروع ہو کر رات 10 بجے اور کبھی 12 بجے تک جمی نہ رہی ہو اور بیشتر پروگرام ایسے ہوں کہ آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہو۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیڑھیوں پر بیٹھے ہوں، دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے رہیں اور ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو داد دیتے نہ تھکتے ہوں۔ یہ منظر آنکھوں کو کس طرح ٹھنڈک پہنچاتے ہیں، یہ کوئی ہم کراچی والوں سے پوچھے، جنہوں نے 25، 30 برس تک صرف لاشیں اٹھائی ہوں، جن کا شہر ایک اشارے پر بند ہوجاتا ہو، جس شہر کی ماؤں کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ صبح دم اپنے جن بیٹوں اور بیٹیوں کو دعا کے حصار میں تلاش رزق حلال میں بھیج رہی ہیں، وہ شام کو زندہ آئیں گے یا نہیں۔

ایک ایسے شہر میں یہ معجزہ تھا کہ دس برس تک ایک ادارہ ادبی اور تہذیبی محفلیں کرتا رہا اور یہ جو دسواں برس تھا، اس میں ہونے والی کانفرنس گزشتہ تمام کانفرنسوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ ایک ایسے زمانے میں جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بار پھر تناتنی ہے، سفارتی جھڑپیں چل رہی ہیں، ایسے میں شمیم حنفی، قاضی افضال حسین، ڈاکٹر علی احمد فاطمی اور انیس اشفاق ایسے اہم ہندوستانی ادیبوں کی شرکت نہایت دل خوش کن بات تھی۔ وہ جو نہ آسکے، ان کی غیر موجودگی کا ملال رہا اور جو آئے وہ سر آنکھوں پر بٹھائے گئے۔

مشتاق احمد یوسفی ذی فراش ہیں لیکن ان کی شرکت ضیا محی الدین کی پڑھت سے ہوئی۔ ایاز فرید اور ابو محمد نے آہنگ خسروی کا جادو جگایا۔ اس مرتبہ کانفرنس میں حمد و نعت کے تخلیقی اور فکری پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ اردو شاعری، افسانے اور تنقید میں خواتین کا جو حصہ ہے اس بارے میں مہتاب اکبر راشدی، یاسمین حمید، ڈاکٹرفاطمہ حسن، نجیبہ عارف نے بات کی، خاکسار نے یہ کہا کہ اردو فکشن میں جب ہم نسائی شعور کی بات کرتے ہیں تو ہمیں عظیم بیگ چغتائی اور بعض دوسرے مرد ادیبوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اجلاس کی صدارت کشور ناہید، یاسمین طاہر اور امینہ سید نے کی جب کہ نظامت ناصرہ زبیری کررہی تھیں۔

ایک اجلاس اردو شاعری کے لیے مخصوص تھا جس میں جدید شعری اسلوب پر کلاسیکی غزل کے اثرات کے بارے میں نعمان الحق نے باتیں کیں اور محفل لوٹ کرلے گئے۔ تنویر انجم نے نثری نظم کے تخلیقی تجربات پر بات کی اور جاوید حسن نے رثائی ادب کے ستر برس کو دس منٹ میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ رؤف پاریکھ اور ضیاء الحسن اس میں شریک تھے۔ نظامت فراست رضوی نے کی۔ اس مرتبہ مصوری، موسیقی اور رقص کے لیے بھی سیشن مخصوص کیے گئے تھے۔ مصوری پر گفتگو کرنے کے لیے شہزاد شرجیل اسلام آباد سے آئے تھے، اپنی کھری گفتگو سے انھوں نے بہت داد وصولی۔ مہر افروز ایک معروف مصور ہیں، ان کی باتیں بھی چشم کشا تھیں۔ شیما کرمانی، نگہت چوہدری اور مانی چاؤ نے رقص کے جوہر دکھائے۔

ہمارے یہاں تعلیم کی طرف سے جس قدر بے اعتنائی برتی گئی، اس بارے میں ہمارے ماہرین تعلیم نے کھل کر گفتگو کی۔ اس میں نوجوانوں نے خصوصی طور پر دلچسپی لی۔ ہمارے سماج میں پاکستانی زبانوں کے باہمی تعلق اور قومی ہم آہنگی میں پاکستانی زبانوں کے کردار پر صغرا صدف نے بھرپور گفتگو کی۔

ٹی وی ڈراما 60ء کی دہائی سے اب تک جن مراحل سے گزرا اور اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے، اس پر گفتگو میں حسینہ معین اور امجد اسلام امجد بہ طور خاص پیش پیش رہے۔ بشریٰ انصاری سے طویل مکالمہ بھی ہوا جو حاضرین کے لیے بہت دلچسپ تھا۔ اردو فکشن، اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس دوران نیلم احمد بشیر اپنے پہلے ناول کی داد سمیٹتی نظر آئیں۔ اسد محمد خان، پیر زادہ قاسم، مسعود اشعر، حسن منظر، رضاعلی عابدی، افتخار عارف، ڈاکٹر انوار احمد، انعام الحق جاوید اور ڈاکٹر آصف فرخی ان محفلوں کی جان رہے۔ ایک دلچسپ گفتگو تھیٹر والوں کے درمیان رہی جس میں نعیم طاہر، سیما طاہر، ثمینہ احمد، اور قوی خان نے لوگوں کو بھولے بسرے زمانے یاد دلادیے۔

مشاعرہ ہوا اور محفل موسیقی سجی، یارک شائر ادبی فورم کی غزل انصاری نے اس سال بھی اپنی انجمن کی طرف سے ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس مرتبہ یہ ایوارڈ مظہر جاوید حسن اور خاکسار کو دیا گیا۔

کئی کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی اور کئی دوسری ادبی محفلیں ہوئیں جن میں سے کسی کی نظامت اقبال خورشید کررہے تھے، کسی کی رخسانہ صبا اور کسی کی صبا اکرام۔ اس کانفرنس کا سب سے خیال افروز اور ہنگامہ خیز سیشن آخری دن ہوا جس کا عنوان تھا ’قائداعظم کا پاکستان‘ ڈاکٹر ہما بقائی کی نظامت میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، جاوید جبار، غازی صلاح الدین، جعفر احمد اور حارث خلیق نے اپنا اپنا نکتۂ نظر پیش کیا۔ یہ سیشن تفصیل کا طالب ہے اس لیے اس پر اگلے کسی کالم میں لکھوں گی۔

انور مقصود کی ذو معنی باتوں میں یہ کانفرنس پانچویں رات اختتام کو پہنچی۔ آخر میں محمد احمد شاہ نے قراردادیں پیش کیں جن میں کہا گیا تھا کہ: آج امن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ہم اہل قلم اس امر پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ امن انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ پُرامن فضا میں زندگی گزارنا انسان کا پیدائشی حق ہے جسکے بغیر انسان کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما نہیں ہوسکتی۔ اسلیے ہر ممکن صورت میں امن کی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔

یہ بھی کہا گیا کہ جنگیں، ان کی تیاریاں اور اسلحے کی دوڑ، یہ سب انسانی ترقی کی راہ میں مزاحم ہیں انھوں نے معاشروں میں بگاڑ اور عدم استحکام پیدا کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ محض جنگ کا نہ ہونا، امن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ہی نہیں بلکہ تشدد کی ہر شکل امن کی ضد ہے۔ سو ہم قیامِ امن کی بات کرتے وقت اس کے وسیع تر مفہوم کو یعنی تشدد سے پاک صورتحال کو اپنا مقصد تصور کرتے ہیں خاص طور سے خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر تشدد کا خاتمہ کیے بغیر ہم امن کا تصور نہیں کرسکتے۔

اردو اور دوسری قومی زبانوں کے مابین روابط کے فروغ اور استحکام کے لیے صوبائی سطح پر ادیبوں اور فن کاروں کے وفود کے تبادلے ہوں اور دیگر قومی اور غیر ملکی زبانوں سے ادب، فلسفہ، فنون، اقتصادیات اور سائنس سمیت دوسرے شعبوں کی کتابوں کے اردو میں تراجم کا اہتمام کیا جائے۔ جنوبی ایشیا کے بین الملکی مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے سوا اور کوئی صورت ممکن نہیں ہے اسلیے بات چیت کے عمل کو فوری اور مؤثر سطح پر شروع کیا جائے۔

اس قرار داد کے اور بھی کئی نکات تھے جن کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔ پاکستان اور بہ طور خاص ہمارا شہر جس آزار میں مبتلا رہا ہے، اس سے نجات کے لیے کراچی کی آرٹس کونسل نے گزشتہ دس برسوں میں بہت کیا اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ان کوششوں کو حاسدوں کی نظر نہ لگے اور اس کی رونقیں کچھ اور عروج پائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔