7 جنوری 2018 تک مہلت

تنویر قیصر شاہد  پير 1 جنوری 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کسی تذبذب اور تامل کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بہترین منتظم بھی ہیں، مقرر بھی اور مصنف بھی۔ ادارہ منہاج القرآن کا قیام، پھیلاؤ اور اس کے تحت چلتے بہت سے اسکول، کالج اور یونیورسٹی اُن کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تقریر تو اُن کی بہتے دریا کی مانند ہوتی ہے جو سُننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔

تصنیف و تالیف کی دنیا میں ساڑھے چار سو سے زائد کتابیں لکھ کر اپنا سکّہ بٹھا چکے ہیں۔ مفسرِ قرآن بھی ہیں اور مترجمِ قرآن بھی ۔ سیرتِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم لکھنے کی عظیم سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ مشرق و مغرب میں اُن کی تحریر وتقریر کا شہرہ ہے۔ اُردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں لکھی گئی اُن کی کتابوں نے حرفِ مطبوعہ کی دنیا میں انھیں ممتاز مقام عطا کررکھا ہے۔ تقریباً چھ سال قبل انھوں نے خود کش حملوں اور دہشت گردی کے خلاف چھ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل انگریزی زبان میں کتاب لکھ اور فتویٰ دے کر کینیڈا، امریکا اور مغربی ممالک میں بڑا نام کمایا۔

ہماری جو بعض مذہبی شخصیات، جن میں بریلوی مکتبہ فکر کے علما حضرات بھی شامل ہیں، شیخ الاسلام جناب طاہرالقادری کی مخالفت کرتی دکھائی اور سنائی دیتی ہیں، اس کی ایک نہیں کئی وجوہ ہیں۔ سیاست کی دنیا میں ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ کی اساس رکھ کر ڈاکٹر صاحب ایک مشہور سیاسی شخصیت کے مقام پر بھی فائز ہو گئے۔تبلیغِ اسلام کے میدان میں بھی اُن کی خدمات کادائرہ خاصا وسیع ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے، اور بجا کہنا ہے، کہ یہ ووٹر نہیں بلکہ سسٹم ہے جو انھیں اور اُن کی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں سے دُور رکھے ہُوئے ہے؛ چنانچہ وہ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی خامیوں کو دُور کرنے کی تگ ودَو کررہے ہیں۔ ہمیں امید ہے، انشاء اللہ وہ اپنے مستحسن مقاصد اور اہداف میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جب تک وہ سسٹم کے خدوخال کو اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرلیتے، تب تک ووٹر اُن کا صبر سے انتظار کرسکتے ہیں کہ یہ مہم اتنی بھی ناممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب مدظلہ العالی چونکہ ہمارے مقتدر سیاستدانوں اور معروف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے دلوں اور آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً ان لوگوں سے اُن کا شخصی اور جماعتی ٹکراؤ رہتا ہے۔ ساری دنیا حیران ہے کہ اِس ٹکراؤ میں اُن کے مریدین، جانثار اور عشاق جی جان سے اُن کے ہمرکاب رہتے ہیں۔

سردی ہو یا گرمی ، بارش ہو یا جان لیوا حبس، وہ کبھی ڈاکٹر صاحب کے دیے گئے پیغام سے دستکش ہُوئے ہیں نہ انھیں بیچ منجدھار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دین کی بلندی، ملک کی بہتری، ووٹروں کی عزت میں اضافے اور سسٹم کی خالصیت کے لیے چند سال پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور اُن کے رفقاء کو اُن کی شرائط تسلیم کرنا پڑیں اور وہ فاتح کی حیثیت میں اسلام آباد سے روانہ ہوگئے۔ ان شرائط پر بعد ازاں کتنا عمل ہُوا، یہ علیحدہ بحث ہے۔

نواز شریف کی تیسری حکومت آئی تو وہ اس سے بھی ، بلند قومی مقاصد کے حصول کے لیے دھرنے کی شکل میں، متصادم ہو گئے۔ اسلام آباد پھر میدانِ کارزار بنا۔ اس بار انھیں اپنے ’’کزن‘‘ جناب عمران خان اور اُن کی ’’پی ٹی آئی‘‘ کا ساتھ بھی میسر تھا۔ جنرل راحیل شریف سے اُن کی مشہور ملاقات کے پس منظر میں کہاگیا تھا کہ وہ اپنے طے کردہ اہداف میں کامیاب ٹھہریں گے لیکن اِس بار بھی متعینہ کامیابی اُن کا مقدر نہ بن سکی۔ آصف علی زرداری اور اُن کی جماعت اگر جناب نواز شریف کاساتھ نہ دیتی تو کامیابی ڈاکٹر صاحب کے سامنے تھی۔ اُن کے اخلاص اور کوششوں پر مگر انگلی نہیںاُٹھائی جاسکتی۔

بعض نقادوں کا بہرحال یہ کہنا ہے کہ اُن کے یہ اقدامات جمہوریت کے پاؤں اکھیڑنے کے مترادف تھے۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ وطنِ عزیز میں مروجہ جمہوریت کو مانتے ہی نہیں ہیں، اس لیے یہ تنقید و تنقیص اُن کے لیے بے معنی ہے۔ واقعہ مگر یہ بھی ہے کہ ایک مدت سے شریف برادران اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان سرد جنگ چلی آرہی ہے۔ بظاہر اِس کی کوئی بنیادی وجہ بھی نہیں ہے۔ شریف برادران نے تو ہمیشہ اُن سے محبت و ارادت ہی کا اظہار کیا ہے۔

ایک دنیا اس کی شاہد ہے۔شریف فیملی نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی اپنا سیاسی اور سماجی حریف بھی نہیں سمجھا مگر بوجوہ رفتہ رفتہ اس سرد جنگ نے ’’گرم جنگ‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کا نہائت افسوسناک سانحہ، جس میں پولیس کے ہاتھوں چودہ انسان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سو سے زائد مجروح ہُوئے، مذکورہ جنگ کا نقطہ عروج کہا جاسکتا ہے۔ اگر یہ خونریز سانحہ جنم نہ ہی لیتا اور فریقین صبر اور اعراض سے کام لیتے تو بہتر ہوتا۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ ممکن ہے یہ سانحہ نواز شریف وشہباز شریف کی حکومتوں کو کھا جائے گا اور جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی۔

ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سانحہ معمولی تھا ۔خونریزی کے پس منظر میں بننے والی ’’جے آئی ٹی‘‘ کا نتیجہ بھی نکلا تو وہ اسقدر مبہم تھا کہ کسی ایک شخص یا اشخاص کو واضح طور پر ذمے ار قرار نہ دیا جاسکا۔ محترم جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے ترجمے تو بہت ہو رہے ہیں لیکن نتیجہ خیزی برآمد نہیں ہوسکی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا طیش بجا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ مقتولین کو جوابدہ ہیں۔ انصاف کے حصول اور سانحہ کے ذمے داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے اُن کی ہر سعی بجا۔ دو دن قبل انھوں نے لاہور میں، بیشمار ملاقاتوں کے بعد، مبینہ طور پر 40جماعتوں کی اے پی سی کے متفقہ اجلاس میں ایک بار پھر یہی کوشش کی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو انجام تک پہنچایا جائے۔

مذکورہ اے پی سی میں پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور قاف لیگ کے سربراہان تو شریک نہیں ہُوئے ہیں لیکن اُن کی بھرپور نمایندگی ایسی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی گلہ نہیں ہُوا ہوگا۔ متذکرہ ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کا مشترکہ اعلامیہ،حسبِ توقع، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے خلاف آیا ہے۔ دس نکات میں اور بھی مطالبات شامل ہیں ۔ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر دونوں مذکورہ صاحبان نے 7جنوری 2018ء تک استعفے نہ دیے تو اسٹیئرنگ کمیٹی اُسی روز اگلے لائحہ عمل کے بارے سوچے گی ۔

اِسی اثنا میں رانا ثناء اللہ نے ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے خون بہا کے لیے دس کروڑ روپے کی رقم کا ذکر کرکے ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ ایک نئی حکومتی سٹریٹجی ہی ہو۔ جناب طاہر القادری صاحب مگر جو بھی اقدام کررہے ہیں، یہ اُن کا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے۔ کوئی صاحبِ ضمیر اس سے انکاری نہیں ہے۔ تشویش مگر یہ ہے کہ اُن کے اُٹھائے گئے کسی قدم سے خدانخواستہ جمہوریت کو گزند نہ پہنچ جائے۔

ملک کی جو صورتحال ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سیال شریف کے پیر صاحب کے مطالبات بھی سامنے آچکے ہیں۔ شہباز شریف پر مختلف النوع دباؤ کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کی بقا و استحکام اور ملکی سلامتی کے فوری تقاضے یہی ہیں کہ ہماری سیاست کے متحارب و متصادم فریقین ایک جگہ بیٹھ کر نجات کا راستہ تلاش کرنے کی کوئی متفقہ کوشش کر لیں۔ ورنہ……؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔