مائی لارڈ متوجہ ہوں!

میاں عمران احمد  منگل 2 جنوری 2018
تاریخ کے ہر دور میں وقت کے قاضی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
تصویر: انٹرنیٹ

تاریخ کے ہر دور میں وقت کے قاضی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ تصویر: انٹرنیٹ

محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے فرمایا ہے کہ ”عدلیہ کی دیانت داری پر شل کرنا بند کیا جائے۔ ججز کسی منصوبے یا سازش کا حصہ نہیں ہیں” .میں اقرار کرتا ہوں کہ چیف جسٹس صاحب یقینا درست فرما رہے ہوں گے۔ میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ عدلیہ کی عزت برقرار رکھے بغیر متوازن معاشرے کا قیام ناممکن ہے، تاریخ کے ہر دور میں وقت کے قاضی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے اور پاکستانی عدلیہ کی عزت اور تعظیم کرنا ہر پاکستانی پر فرض بھی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب محترم ثاقب نثار صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ عدلیہ کی دیانت داری پر شک کرنا بند کیا جائے۔ انہیں میڈیا کے سامنے آکر عدلیہ کی دیانت داری اور ایمانداری کی قسمیں کیوں کھانا پڑ رہی ہیں؟ انہیں عوام کو عدلیہ کے غیر جانب دار ہونے کا یقین کیوں دلانا پڑ رہاہے؟ ان وجوہات کو جاننے کےلیے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

آئیے سب سے پہلے ججز کے احتساب کے نظام پر نظر ڈالتے ہیں۔ عدلیہ میں کرپشن ختم کرنے اور ججز کے احتساب کو یقینی بنانے کےلیے سپریم جوڈیشل کونسل قائم کی گئی ہے۔ اگر ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن یا کسی بھی طرح کے کیس میں انکوائری ہو رہی ہو اور جج صاحب کو سروس کرتے پانچ سال گزر چکے ہوں اور دوران انکوائری اگر وہ استعفی دے دیں تو ان کے خلاف کرپشن اور دیگر تمام انکوائریاں فورا ختم ہو جاتی ہیں اورانہیں پنشن سمیت دیگر تمام مراعات بھی مل جاتی ہیں۔ مائی لارڈ کیا یہ قانون مظلوم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا یہ قانون عدلیہ میں ججز کو کرپشن کرنے کےلیے راستہ فراہم نہیں کر رہا؟ کیا اس قانون سے پوری دنیا میں پاکستانی عدلیہ کی جگ ہسائی نہیں ہو رہی؟ کیا اس قانون سے عام آدمی کے دل میں ججز کے خلاف شکوک و شبہات جنم نہیں لے رہے؟ کیا ججز پر تنقید کرنے کےلیے صرف یہ ایک قانون ہی کافی نہیں ہے؟

آئیے اب ایک نظر اورنج لائین ٹرین کے فیصلے پر ڈالتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپریل 2017 میں اورنج لائین ٹرین پر فیصلہ محفوظ کیا اور دسمبر 2017 میں آٹھ ماہ بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا۔ ان آٹھ ماہ میں اورنج ٹرین کے مختلف مقامات پر کام بند رہا۔ عوام اضطراب میں مبتلا رہے کہ کب یہ پروجیکٹ مکمل ہو گا اور کب ان کی روز مرہ کی زندگی معمول پر آئے گی۔ اس پروجیکٹ کی مالیت دو سو ارب روپے سے زیادہ ہے۔ مائی لارڈ جب انکوائری مکمل ہو گئی ہو، تمام فریقین سے تفتیش مکمل کرلی گئی ہو اور عدالت کسی فیصلے پر پہنچ چکی ہو تو اسے سنانے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا؟ اس بے جا تاخیر نے عوام کی زبانوں پر سوال پیدا کر دیا ہے کہ کہیں فیصلے ثبوتوں کی بجائے مصلحت کی بنیاد پر تو نہیں کیے جا رہے کیونکہ فیصلہ اگر ثبوتوں کی بنیاد پر آتا تو یہ آٹھ ماہ قبل ہی آ چکا ہوتا۔

آئیے ایک نظر حدیبیہ پیپر کیس پر بھی ڈالتے ہیں۔ معزز عدالت کے قابل عزت پانچ ججز نے نیب کے چیرمین کو بیسیوں مرتبہ عدالت طلب کیا اور دن رات قمر زمان چوہدری کو یہ کہ کر ذلیل کرتے رہے کہ آپ حدیبیہ کیس کیوں نہیں کھولتے۔ جس کیس کو کھلوانے کےلیے پانچ محترم جج صاحبان نے سر دھڑ کی بازی لگا دی اس کیس کے بارے میں اسی محترم سپریم کورٹ کے تین ججوں نے فیصلہ دیا ہے کہ حدیبیہ کا کیس نہیں کھولا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کیس کھولا نہیں جا سکتا تھا تو پھر قوم کا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کیا گیا ہے۔ قوم کو ہیجان کی کیفیت میں رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ یا تو پانامہ بنچ کے وہ پانچ ججز ذمہ دار ہیں یا حدیبیہ کیس کے تین ججز ذمہ دار ہیں۔ قوم کا پیسہ اور وقت ضائع کرنے کی ذمہ داری تو آخر کسی نہ کسی پر ڈالنی ہو گی۔ کیونکہ عوام کا خیا ل ہے کہ قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے ذمہ دار صرف سیاستدان اور بیروکریٹس نہیں ہیں ان کے ساتھ ساتھ نظام عدل میں موجود خامیوں سے ہونے والے پیسے اور وقت کے ضیا ع کا تخمینہ لگانا بھی بہت ضروری ہے۔

مائی لا رڈ آپ کسی دن فرصت کے لمحات میں ان حقائق کو سامنے رکھیں اور جائزہ لیں کہ عوام آپ پر تنقید کیوں کر رہی ہے؟مجھے یقین ہے کہ آپ جلد ہی اس فیصلے پر پہنچ جائیں گے کہ عوام میں عدلیہ کی عزت کروانے کےلیے آپ کو انہیں اپنے فیصلوں کے ذریعے یہ یقین دلانا ہو گا کہ ہمارے ملک میں نہ تو عدالتیں بکتی ہیں اور نہ ہی جج رشوت لیتے ہیں، نہ ہی جج کے ریڈر جج کے نام پرکرپشن کرتے ہیں اور نہ ہی وکیل ججوں کا ریٹ لگاتے ہیں۔ نہ ہی کیس کی تاریخ لینے کےلیے بھاری بھرکم رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اورنہ ہی عدالتوں میں اپنا کیس پہلے لگوانے کےلیے کوئی پیسہ دیناپڑتاہے۔ نہ ہی جج کا کلرک فیصلے کی کاپی دینے کےلیے خرچہ پانی کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ ہی نائب قاصد عدالتی کمرے کے اندر داخل ہونے کےلیے مٹھائی مانگتے ہیں۔ نہ ہی کسی جج کے پرسنل سیکرٹری کے اکاونٹ سے کڑوڑوں روپے نکلتے ہیں اور نہ ہی کرپشن ثابت ہونے سے ایک ماہ پہلے جج استعفی دے دیتے ہیں۔ آپ کو انہیں یہ بھی یقین دلانا ہو گا کہ ہماری عدالتوں نے کرپشن کرنے والوں کو ایسی کڑی سے کڑی سزائیں دی ہیں کہ عدالتوں کے ڈر سے تمام کرپشن کرنے والوں کی رات کی نیندیں اور دن کا چین برباد ہو گیا ہے اور ان کی ٹانگیں بھی عدلیہ کا نام پر کانپنے لگی ہیں۔

آپ کو انہیں یہ حلف بھی دینا ہو گا کہ آئندہ اس ملک میں کسی چیف جسٹس پاکستان کا بیٹا باپ کے نام پر ناجائز عیاشیاں نہیں کریگا اور نہ ہی چیف جسٹس کی پوری فیملی ملک ریاض کے اکاونٹ سے پیرس اور یورپ گھومیں گے۔ آپ کو انہیں یقین دلانا ہو گا کہ ہمارے جج امانت دیانت،استقامت، شجاعت، رواداری، حسن سلوک، بردباری، برابری، پاک دامنی اور سب سے بڑھ کرانصاف پسندی کی بہترین مثال ہیں اور پوری دنیا کو ان پر فخر ہے اوراگر آپ عوام کو اپنے فیصلوں سے نظام عدل کی شفافیت کا یقین نہ دلا سکے تو آپ گھر گھر جا کر بھی عوام کو عدالت کی عزت کرنے کا درس دیں گے تو وہ آپ کی بات پر ایمان نہیں لائیں گے اور کوئی مائی کا لال انہیں عدلیہ کی عزت کرنے پر مجبور بھی نہیں کر سکے گا۔ مائی لارڈ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔