نوازشریف کا آدھا نان؛ عمران خان کی سیدھی ٹانگ

حافظ خرم رشید  منگل 16 جنوری 2018
پاکستانی میڈیا میں صحافت کے نام پر یہ ’’سانحات‘‘ حالیہ برسوں میں بڑے تواتر سے ہوتے آرہے ہیں۔
تصویر: انٹرنیٹ

پاکستانی میڈیا میں صحافت کے نام پر یہ ’’سانحات‘‘ حالیہ برسوں میں بڑے تواتر سے ہوتے آرہے ہیں۔ تصویر: انٹرنیٹ

’’نوازشریف نے ناشتے میں آدھا نان کھایا اور تھوڑے سے چنے اور پائے کا سالن بھی نوش کیا؛ جب کہ چائے کی پوری پیالی پی لی۔‘‘

’’عمران خان کرسی پر بیٹھے ہیں اور ان کی سیدھی ٹانگ الٹی ٹانگ پر رکھی ہے، جب کہ ایک ہاتھ اپنے مخصوص انداز سے چہرے پر ٹکا رکھا ہے۔ لگتا ہے وہ سخت پریشان ہیں کیوں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

’’وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا بوٹ بیسن پر صحافیوں کے ساتھ ناشتہ۔ ناشتے میں حلوہ پوری، عربی اور آلو کے پراٹھوں سے تواضع، ناشتے میں چائے اور چنے بھی پیش۔‘‘

یہ اور اس طرح کے ان گنت جملے یقیناً قارئین کی نظروں سے گزرتے رہتے ہوں گے اور انہیں ناگوار بھی گزرتے ہوں گے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سابق وزیراعظم منصب سے ہاتھ دھو کر اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھے تو راستے میں ان کے کھانے پینے کے حوالے سے خبریں اسی انداز سے ٹی وی چینلوں کی زینت بن رہی تھیں۔

جی ہاں! عمران خان کے حوالے سے بھی یہ ٹکرز (tickers) اس وقت ہمارے ٹی وی چینلوں پر چلے جب عمران خان الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور معافی مانگ کر گھر واپس آگئے۔

رہ گئے وزیراعلیٰ سندھ، تو سائیں قائم علی شاہ نہیں بلکہ ہردل عزیز نوجوان رہنما مراد علی شاہ، جن کے حوالے سے گزشتہ برس کی آخری صبح یعنی 31 دسمبر کو جب وہ ناشتہ کرنے کے بعد کراچی کے تفریحی مقامات کو عوام کےلیے کھلے رکھنے کا اعلان کرکے نجانے کہاں چلے گئے۔

لیکن یہ بات صرف آج کی نہیں، پاکستانی میڈیا میں صحافت کے نام پر یہ ’’سانحات‘‘ حالیہ برسوں میں بڑے تواتر سے ہوتے آرہے ہیں۔

مثلاً عام انتخابات 2013  کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھیں، ہر طرف سیاسی اکھاڑے سجائے جارہے تھے، انتخابی گہما گہمی نے دنیا بھر کی نظریں پاکستان کی جانب مبذول کرادی تھیں۔ ایک جمہوری حکومت نے تاریخ میں پہلی بار اپنی آئینی مدت کے 5 سال مکمل کیے اور آئینی و پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی عمل میں آرہی تھی۔ تب میں فیلڈ رپورٹنگ سے وابستہ ہوا تھا اور پہلی بار میرے ایک محسن نے مجھے مائیک تھما کر ہمت افزائی کی۔ میں ان کا آج بھی شکرگزار اور معترف ہوں لیکن ان کا نام بہ امرِ مجبوری نہیں لے سکتا۔

انتخابی حلقوں میں گلی گلی جاکر عوامی رائے جاننے کےلیے عوام سے سوالات کئے جاتے، تقریباً ہر مخاطب فرد سے میں 3 سوالات ضرور پوچھتا: آپ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ گزشتہ حکومت کے حوالے سے کیا تاثر پایا جاتا ہے؟ اور تیسرا یہ کہ آنے والی حکومت سے کیا امیدیں وابستہ ہیں؟ میرے ان سوالات میں سے ایک سوال کو (گزشتہ حکومت کے حوالے سے کیا تاثرات ہیں) میرے محسن نے ’’تعصب‘‘ سمجھ کر ایک شخص سے سوال کردیا کہ گزشتہ حکومت کے حوالے سے عوام میں کیا ’’تعصب‘‘ پایا جاتا ہے؟ مجھے یہ سن کر بہت عجیب سا لگا لیکن عوام کا جواب سن کر میں نے بھی چپ سادھنے ہی میں عافیت جانی۔

پھر یہ سلسلہ میرے ایک محسن تک محدود نہ رہا بلکہ اس طرح کے مشاہدے درجنوں بار ہوتے رہے اور میں دل ہی دل میں ہنس کر یا کڑھ کر چپ ہوجاتا تھا۔ حال ہی میں مجھے جس ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے (یقیناً میرے دیگر ساتھی بھی میری تائید کریں گے کہ) اس کے ساتھ ہمیں تجربے اور علمی لحاظ سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع تو ملتا ہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ماحول بھی دوستانہ اور مزاح سے بھرپور ہوتا ہے، ہر ایک کو دل کی بھڑاس نکالنے کی مکمل اجازت ہے۔ اس لیے  میں اور میرے دیگر ساتھی گاہے گاہے میڈیا پر چلنے والی خبروں اور ان میں شامل چاپلوسی و بے معنی جملوں پر بحث بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ چونکہ طویل ہے اس لیے مجھے ایک ساتھی کے حکم اوردلچسپی کے باعث چند جملوں کی اجازت ملی ہے جنہیں میں نے قارئین کے گوش گزار کردیا۔

میں ذاتی طور پر عمران خان کی سیاسی بصیرت کا معترف نہیں، وقت کے وزیراعظم کےلیے چوہے اور کٹھ پتلی جیسے الفاظ استعمال کرنے والے عمران خان ہرگز میرے آئیڈل نہیں ہوسکتے کیوں کہ اس طرح کے بیانات اور الفاظ عالمی میڈیا میں ہمارے رہنماؤں کی منفی تصویر کشی کا موجب بنتے ہیں، اور پھر اس طرح کے بیانات کے بعد جو ردِعمل سیاسی حریفوں کی جانب سے آتے ہیں، اس میں نہ صرف عمران خان کے حال اور مستقبل پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ ان کے ماضی کے زخموں کو بھی کریدا جاتا ہے۔

دوسری شادی ہو یا نویں شادی یا پھر مئی 2003 میں ہونے والی ایک پراسرار شادی، یہ ایک فریضہ ہے جو ادا کرنے کےلئے کسی سیاسی مخالف کی اجازت نہیں بلکہ صرف میاں بیوی کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے واقعات پر تبصرے کرنے سے کسی کا سیاسی قد نہیں بڑھتا، اگر ماضی میں میڈیا ہر خاص و عام کی دسترس میں ہوتا تو شاید کئی سیاستدان ایک ہی (اور باعزت) شادی پر اکتفا کرتے۔ اگر آج ملکی سیاسی گھرانوں کی شادیوں کی تاریخ کو ٹٹولا جائے تو پھر نامور سیاستدان اپنے دفاع کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اس لیے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ذاتی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے نظریاتی اختلافات رکھنے چاہئیں۔

حال ہی میں عمران خان کی ممکنہ تیسری شادی کی اطلاع بھی میڈیا کی شہ سرخی بنی رہی اور پھر جو عمران خان کی ممکنہ بیوی کے ماضی، حال اور مستقبل پر جو بیانات و تفصیلات سامنے آئے وہ نہ صرف قابلِ افسوس بلکہ قابلِ مذمت بھی ہیں۔ کیونکہ مجھ سمیت پوری قوم کی ’’چٹ پٹی خبروں‘‘ کی متلاشی اور رسیا نظر آتی ہے، اس لئے میڈیا نے بھی کٗھل کر ایسی شادی کی تشہیر کی جس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے؛ اور اگر بالفرض شادی ہو بھی جاتی ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی ممکنہ بیوی، ان کے بچوں اور شوہر کے بارے میں اتنا کیوں بتایا جارہا ہے، ان سے انٹریوز کیوں لیے جارہے ہیں؟

عوام الناس کو چٹ پٹی خبروں کا ایسا چسکا لگا دیا گیا ہے کہ اب وہ نان، پراٹھے اور چنوں کو بھی صحافت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ صحافی پر بہت سی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ پاکستان میں موجودہ وقت میں  ہر خبر کو اہمیت اور حقیقت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام میڈیا کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں کہ آپ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی دوڑ میں صحافتی اصولوں سے مبرا ہوکر اپنے پیشہ ورانہ فرائض ہی بھول جائیں۔ میڈیا کو بھی کچھ حدود و قیود کا احترام کرنا چاہیے۔

میڈیا کے موجودہ چلن کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ماضی میں کبھی ذرائع ابلاغ نے عوامی شعور بیدار کرنے اور تحریکِ پاکستان کو کامیاب بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہوگا۔ لگتا ہے یہ سب باتیں اب کتابوں میں دفن ہو کر رہ گئی ہیں… دوسری بہت سی اچھی اخلاقی اقدار کی طرح۔

اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزای نہیں، آزادی اظہارِ رائے ہر پاکستانی کا حق ہے اور اس آزادی  سے ہر شخص مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی اطلاعات کا صحافتی پیشے سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ پاکستان میں قائم جامعات میں ابلاغ عامہ کے شعبے سے منسلک اساتذہ اپنے طلبا کی اخلاقی تربیت اور ان کی فنی صلاحیتوں کو نکھارنے سمیت انہیں ایک باشعور، باکردار، اخلاقی اقدار سے آشنا ذمہ دار شہری بنانے کی بھی کوشش کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔