مزدور اور مزدور تنظیمیں

شکیل فاروقی  منگل 2 جنوری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

پیداواری عمل میں لیبرکو بنیادی اہمیت حاصل ہے مگر افسوس کہ اس کی حالت ہمیشہ قابل رحم رہی ہے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے۔ اقبالؔ نے کہا ہے۔

اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر

بلاشبہ اگر مزدور اپنا خون پسینہ ایک نہ کرے تو پیداواری عمل اپنے پایہ تکمیل کو کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھرکی صنعتوں کا پہیہ مزدوروں ہی کی قوت سے گھوم رہا ہے، اگر یہ قوت کار فرما نہ ہو تو تمام صنعتی کاروبار آنِ واحد میں ٹھپ ہوجائے۔ گویا صنعتی ترقی اور بقا کا تمام تر دار و مدار محنت کشوں کی مشقت اور کاوشوں پر ہے۔ بہ الفاظِ دیگر پیداوار کا اصل سہرا مزدور کے سر ہے۔ اس لیے تو شاعر نے کہاہے:

مزدور کے ماتھے پر

محنت کا پسینہ ہے

چنانچہ مزدوروں کی اہمیت و عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ہمارا دین اسلام یہ درس دیتا ہے کہ مزدورکی محنت اور مشقت کا معاوضہ اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا جائے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشی اور معاشرتی نظام میں سب سے زیادہ استحصال کا شکار بے چارہ مزدور ہی ہے۔ وہ دن رات اپنا خون پسینہ ایک کردیتا ہے لیکن ظالم آجر اس کی زندگی اجیرن کرنے پر تلا رہتا ہے۔ مزدور کا تعلق چاہے صنعت کے شعبے سے ہو یا زراعت کے شعبے سے اس کے ساتھ استحصال کا طریقۂ واردات کم و بیش ایک ہی جیسا ہے تب ہی تو مجبور ہوکر اقبالؔ کو یہ کہنا پڑا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو

سرمایہ دار اور محنت کش کی باہمی کشمکش کی کہانی صدیوں پرانی ہے اور اس کی جڑیں بڑی گہری ہیں ۔ آجر اور اجیر کے آپس کے تعلق کو پیداواری عمل میں کلیدی اہمیت حاصل ہے اگر یہ تعلقات اچھے ہوںگے تو سارا کام آسانی اور دوانی سے ہوگا اور اگر یہ تعلقات ناخوشگوار ہوںگے تو پیداواری عمل سست روی، تعطل اور بالآخر جمود کا شکار ہوجائے گا۔

احتجاج، مظاہرے، ہڑتالیں، دھرنے اور تالا بندیاں ناخوشگوار تعلقات کا فطری اور منطقی نتیجہ ہیں جن سے پیداواری عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور انجام کار آجر اور اجیر دونوں ہی کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں ایک انگریزی ادیب اور ڈرامہ نگار جان گالز وردی کا مختصر مگر بڑا ہی خوبصورت ڈرامہ ’’اسٹرائف‘‘ یاد آرہا ہے جس میں صنعت کار اور مزدوروں کی شدید باہمی کشمکش اور اس کے انتہائی المناک انجام کی نہایت کامیاب اور سبق آموز عکاسی کی گئی ہے اس تناظر میں ہمیں انگلینڈ کے صنعتی انقلاب کے دور کا مثالی صنعت کار رابرٹ اووین بھی یاد آرہا ہے جسے پروڈکشن کے عمل میں مزدور کی اہمیت کا اس حد تک احساس تھا کہ اس نے بذاتِ خود اپنے کار خانہ میں مزدور یونین کی بنیاد رکھ دی تھی تاکہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے۔

اس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ اگر مالک کو اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کا احساس ہوگا تو کارکن بھی اپنا کام دل لگاکر کریںگے اور اپنے مالک کے ساتھ مخلص اور وفادار ہوںگے جس کے نتیجے میں ماحول خوشگوار ہوگا اور پیداواری عمل میں روانی آئے گی۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جاپان کی مثالی ترقی کا اصل راز بھی یہی ہے کہ وہاں آجر اور اجیر کے باہمی تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ یہ راز ہمیں ایک بہت بڑی کمپنی کے ایک عام کارکن سے معلوم ہوا جس کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ کمپنی کا چیئرمین، کمپنی کا خاتمہ کردے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ کمپنی کے کارکنوں کے اہل خانہ کے ساتھ اپنی بے تکلف اس ماہانہ نشست کا ناغہ کردے جس کا بنیادی مقصد ان کی خیر خیریت دریافت کرنا ہے۔

ٹریڈ یونینوں یا مزدور تنظیموں کا معرضِ وجود میں آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک کیا جارہاہے اور ان کے جائز حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ کیونکہ ’’اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا‘‘ والی کہاوت کے مصداق فردِ واحد کی صورت میں مزدور کی قوت، آجر کے مقابلے میں صفر کے برابر ہوتی ہے لہٰذا اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے اسے مزدور تنظیم یا ٹریڈ یونین کا سہارا لینے پر ہی مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بقول اقبالؔ

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

مزدور تنظیمیں استحصال سے بچاؤ کے لیے ڈھال کا کام انجام دیتی ہیں اور زیادتی اور ظلم و ستم کے خلاف اجتماعی قوت فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تنظیمیں مزدوروں کے حالات سُدھارنے میں بھی بہت اہم اور بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ کیونکہ اتحاد ہی طاقت کی اصل سرچشمہ ہوتا ہے، برطانیہ، امریکا، فرانس اور جرمنی میں ٹریڈ یونینوں کا آغاز بے شمار مشکلات کا شکار ہوا تھا کیونکہ 18 ویں صدی میں انھیں غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندیاں عاید کردی گئی تھیں، عدالتوں نے ٹریڈ یونین ممبران اور ہڑتالی مزدوروں کو سزائیں سنا سناکر جیلوں میں بھی قید کیا اور ان پر جرمانے بھی کیے۔

برطانیہ میں 1799 اور 1800 میں Combination Acts کی منظوری کے ذریعے مزدور تنظیموں کے قیام پر طرح طرح کی پابندیاں عاید کی گئیں اور ورکرز کو انجمن سازی سے روکا گیا۔ دنیا کے تمام ممالک میں ٹریڈ یونینوں کو ابتدا میں جبر، محود قبولیت اور عدم برداشت کے بے حد کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑا، آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مزدور تنظیمیں اپنے ارتقا کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں لیکن پاکستان کی مزدور تنظیمیں ابھی دوسرے مرحلے سے ہی بمشکل گزر رہی ہیں۔ 1980 کی دہائی تک پاکستان کی بیشتر مزدور تنظیمیں نظریاتی اعتبار سے مارکسی نظریے کی حامل رہیں اور اسی کے زیر سایہ پروان چڑھیں۔

برصغیر میں صنعتوں کے قیام کے سلسلے کا آغاز 19 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ہوا جب چند بڑے سرمایہ کاروں نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا سب سے پہلے کاٹن مل 1851 میں کلکتہ میں قائم ہوئی جو اب کول کتہ کہلاتا ہے تاہم صنعت کاری کی رفتار شروع شروع میں کافی سست رہی۔ ان ابتدائی مراحل میں مل مزدور مکمل طور پر آجر کے رحم و کرم پر رہا کیونکہ اس وقت ٹریڈ یونین کا وجود تو درکنار اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔

نتیجتاً بے چارے مزدور کی کوئی آواز ہی نہیں تھی اور وہ عملاً اپنے آجر کا زر خرید غلام تھا ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ کے مصداق 1919 میں بین الاقومی ادارہ محنت اور اس کے بعد 1920 میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے قیام کے بعد ٹریڈ یونین تحریک نے زور پکڑنا شروع کردیا اس کے ساتھ ہی ساتھ تمام اہم صنعتی شعبوں میں مزدور تنظیموں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوگیا جس میں ریلوے، ڈاکس، ٹیکسٹائل، انجینئرنگ اور کان کنی کے صنعتی شعبے شامل تھے۔

شروع شروع میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس 64 مزدور تنظیموں پر مشتمل تھی جس کے کل مزدوروں کی تعداد 140,854 تھی۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں گنتی کی چند صنعتیں قائم تھیں لیکن تب بھی ریلوے اور پورٹ کی ٹریڈ یونین کافی حد تک فعال تھیں۔ اس وقت پنجاب کے ایم اے خان نامی اسٹیشن ماسٹر ریلوے کے ورکرز کی یونائیٹڈ یونین کے روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ خان صاحب کی ریلوے ورکرز یونین کا الحاق آل انڈیا ریلویز فیڈریشن کے ساتھ تھا۔

دوسری قابل ذکر مزدور تنظیم کراچی پورٹ ٹرسٹ لیبر یونین تھی جس کا قیام 1928 میں عمل میں آیا تھا۔ 1934 تک یہ یونین اس قدر مضبوط ہوچکی تھی کہ انتظامیہ کے ساتھ مسائل حل کرانے کے لیے اس کے باقاعدہ ماہانہ اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد کراچی کی بندرگاہ پر مال اتارنے اور چڑھانے والے مزدوروں کی تنظیم کا قیام کراچی پورٹ ورکرز یونین کے نام سے عمل میں آیا جس کے بانی ایم اے خطیب تھے جو ایک منجھے ہوئے ٹریڈ یونین لیڈر تھے۔

1950 میں آل پاکستان کنفیڈریشن آف لیبر قائم ہوئی جس کا صدر ایم اے خطیب کو منتخب کیا گیا۔ پاکستان ریلوے ورکرز یونین کی قیادت 1982 تک تقریباً 30 سالہ طویل عرصے کے دوران مرزا ابراہیم نے نہایت کامیابی کے ساتھ سنبھالے رکھی جنھیں آج بھی بڑے احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اس کے علاوہ مزدوروں کی حمایت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے جناب شفیع ملک ایس پی لودھی، محمد شریف، نبی  احمد، محترمہ کنیز فاطمہ اور منظور رضی کی خدمات بھی انتہائی قابل ذکر اور ناقابل فراموش ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔