امریکا کی نئی دنیا اور پاکستان

عبدالقادر حسن  بدھ 3 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کمزور مسلم امہ کے سینوں سے ابھی ماضی کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ امریکا نے افغانستان میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد عرب دنیا میں نئے محاذ کھول لیے اور ان میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی۔ طاقتور تو بدلہ لے کر اپنے زخموں کو مندمل کر لیتے ہیں مگر کمزور مسلم امہ غیر مسلم بڑی طاقتوں سے زخموں پر زخم کھاتی چلی آ رہی ہے اور آج امریکا جس دہشتگردی کا ذکر کرتا ہے وہ دراصل انھی زخموں سے رستہ ہوا خون ہے جو ایک کمزور قوم کا آخری ہتھیار ہے کہ اور کچھ نہیں تو جان تو اپنی ہی ہے اسے ہی قربان کر دو۔

امریکا کی نئی دنیا میں آج کے مسلمان اسے قبول نہیں اور نہ ہی مسلمان امریکا کی نئی دنیا کو قبول کرنے کو تیار ہیں کمزور اور پسماندہ مسلمان اب بہت بدل چکے ہیں مادی لحاظ سے وہ کمزور ہیں مگر ذہنی لحاظ سے وہ کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر سائنس کے شعبوںمیں ایسے ذہن  تیار کیے ہیں جو امریکا اور یورپ میں اپنے کمالات دکھا رہے ہیں اور انھی ذہنوں نے ایٹم بم بھی تیار کر لیا ہے۔ ہمہ پہلو کمزوری کے باوجود طاقت کے یہ چھوٹے جزیرے عجیب لگتے ہیں مگر امریکا بھی اپنی دھن میں مگن ہے اور دنیا کو اپنی  مرضی کے مطابق بدل دینا چاہتا ہے۔

جس بر بریت اور دہشتگردی کا مظاہرہ امریکا نے افغانستان کے انچ انچ پر بارود برسا کر کیا ہے آج کی ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کی علم بردار دنیا میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے لیکن اس بربریت کے باوجود جری اور بہادر افغانوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کر دیے اور مزاحمتی جنگ کی ایک انوکھی مثال پیش کر دی اور وقت کی سپر پاور کا اقتدار کابل کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود کر دیا گیا۔ پاکستان کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار ٹرمپ کی جانب سے کیاجارہا ہے اس کو ہماری حکومت نے نہایت سنجیدگی سے لیا ہے اور اس پر سفارتی طور پر باقاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔

جب سے پاکستان نے نومور کا واضح اعلان کیا ہے اس کے بعد سے امریکا کے صدر نے حسب روایت اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کر دیا ہے اور وہ پہلے مرحلے میں دھمکیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا انحصار فی الحال دھمکیوں پر ہی ہے شاید وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کو ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکالا جائے۔ پاکستان کے پا س نہ تو تیل کی دولت ہے کہ امریکا عربوں کی طرح اسے تختہ مشق بنائے نہ ہی کوئی اور ایسے قدرتی وسائل ہیں جن کی امریکا کو ضرورت ہے اس سب کے باوجود امریکا کا پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ پاکستان کا محل وقوع امریکا کے معاشی حریفوں کے قابل استعمال نہ رہے اور وہ اس سے کسی قسم کا فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔

موجودہ زمانے کے بدلتے تقاضوں اور ضرورتوں نے ایسی قوموں کو بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے جو کہ ایک دوسرے کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ مفادات کے یہ سلسلے نہ جانے کہاں جا کر رکیں گے اس کے بارے میں کوئی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان اور چین ہمیشہ سے ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں اور یہ دوستی دونوں جانب سے خوب نبھائی گئی ہے جس کا مزہ ماضی میں بھارت بھی چکھ چکا ہے۔ چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع کیا جس کی اقتصادی نکتہ نگاہ سے اہمیت بہت زیادہ ہے جس کا ادراک پاکستان کے دوستو ں کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کو بھی ہے اور ان دشمنوں نے واضح اعلان کر رکھا ہے کہ یہ منصوبہ ان کو کسی صورت قبول نہیں۔ بھارت جیسے دشمن کی جانب سے پاکستان کی ترقی کے ہر منصوبے کی مخالفت ایک قدرتی امر ہے لیکن بات تب بگڑتی ہے جب ہمارا ’’دوست‘‘ امریکا اس کی پشت پناہی کر رہا ہوتا ہے۔

امریکا کو ہمارے خطے میں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہاں بسنے والے پر کون حکومت کر رہا ہے اس کی دلچسپی صرف اسی بات تک محدود رہتی ہے کہ اس خطے کی حکومتیں اس کی وفادار ہوں وہ خواہ جمہوری ہوں یا نہ ہوں۔ امریکا کی پاکستان کے لیے دھمکیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس دھمکی آمیز رویہ کے پس پردہ پاکستان کی دشمن طاقت بھارت کے وہ عزائم ہیں جو پاکستان کی کسی بھی قسم کی ترقی میں رکاوٹ کے لیے ہر وقت ہتھیاروں سے لیس رہتے ہیں اور بھارت کوئی ایساموقعہ نہیں جانے دیتا جس سے پاکستان کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچتی ہو جب کہ امریکا بھارت کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرناچاہتا ہے اور بھارت کو ایک علاقائی بدمعاش بنانے کے لیے اس کے سہولت کار کا کردار دا کر رہا ہے۔

چین جو کہ خود امریکی معیشت کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے پاکستان اور چین کے اقتصادی راہداری منصوبے نے چین کے لیے نئی منڈیوں کی راہیں مزید آسان کر دی ہیں اس لیے امریکا بھی پاکستان میں شورش پیدا کر کے کسی بھی صورت میں زمینی طور پر اس طویل ترین منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر کے اس کی افادیت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایک بات تو بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر تو ہوسکتی ہے لیکن اس کے خاتمے کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس کی افادیت تو پاکستان اور چین کے علاوہ اس خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی ہے۔

پاکستان پہلے ہی روس اور اب افغانستان کو اس راہداری منصوبے کا حصہ بننے کے لیے پیشکش کر چکا ہے۔ روس اور افغانستان اس منصوبے سے دنیا کی بہترین گرم پانیوں کی بندگاہ کے ذریعے تجارت کر سکتے ہیں اور روس کاگرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے کئی دہائیاں پہلے دیکھا گیا خواب پورا ہونے کا وقت آگیا ہے جس کے لیے متحدہ سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا۔ امریکا اس اقتصادی اتحاد سے خائف ہے اور اس میں روڑے اٹکانے کے لیے مختلف حیلے بہانے تلاش کر رہا ہے تا کہ کسی بھی قیمت پر اس پرو جیکٹ کو ختم کیا جا ئے اور اپنی تھانیداری کو قائم رکھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔