گڈ بائے 2017

فرح ناز  بدھ 3 جنوری 2018
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

قانون اور انصاف جس دن اپنی جگہ بنالے گا، اسی دن سے ہم سب ترقی کے راستے پر چل نکلیں گے، لیکن جب تک قانون اور انصاف مصلحتوں کی نذر رہے گا یا اثر و رسوخ کا بوجھ اٹھاتا رہے گا اس وقت تک کچھ بھی اچھا نہیں ہوسکتا ہے۔ کچلنے والے پیر بھی موجود رہیں گے اور پیروں تلے کچلنے والے جسم بھی۔ عروج و زوال تو زندگی کا حصہ ہے۔ اﷲ پاک تو سب کا رب ہے، کسی پر اضافی بوجھ نہیں ڈالتا ہاں کبھی دے کے آزماتا ہے اور کبھی لے کر۔ بس یہی آزمائش ہی ہمارے لیے ہماری جزا و سزا بن سکتی ہے۔

بہرحال سمجھنے اور سوچنے کے لیے تو اﷲ پاک کا کلام ہی کافی ہے، اگر انسان سوچنا اور سمجھنا چاہے تو۔ ظالم ترین انسان بھی کسی بھی پل انسانیت کی مثال قائم کرسکتا ہے، اگر اﷲ پاک توفیق دے تو۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بہترین بزنس مین، بے انتہا دولت مند، بے انتہا خوبصورت مرد، تمام طاقت ہونے کے باوجود انسانیت کی بہترین مثال بھی، اپنے خزانوں کے خزانے انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے۔

ہمارے پاس حساب الٹا، عوام کے فلاح و بہبود کے خزانے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے لوٹے جاتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک کرتا بھی بنایا تو عوام کو سوال کا اختیار، راتوں میں رعایا کے لیے رونے والا حاکم جو سوچتا تھا کہ اگر اس کی رعایا میں کتا بھی بھوکا مرجائے تو عمر جواب دہ ہوگا۔ ہمارے پاس الٹا حساب، راتوں کو سازش بنانے والے حاکم کہ رعایا کو کیسے لوٹا جائے اور کیسے بے وقوف بنایا جائے۔ ہم سب کو صرف اپنے اپنے حصے کے کام کرنے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہم پر ہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو فرعون بنائیں یا اعتدال کا راستہ چنیں، پھل وہی ہم کھائیںگے جو بیج اگائیں گے۔

ویسے تو ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، زراعت، کھیتی باڑی ہمیں خوب خوب آتی ہے اور ہم سب اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ بیج کیا ہے اور درخت کیا ہوگا، پھل کیسا آئے گا۔ بس ذرا بھٹک گئے ہیں اور رہبر بھی گم ہوگئے ہیں کہ قائداعظم کے بعد سے کوئی ان کے پایہ کا رہبر اس قوم کی نصیب نہیں ہوا۔ بدنصیبی کہیں یا سازش کہ جو ملے بھی انھیں سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ تمام اسلامی ممالک کے لیے پاکستان آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ اتنی سازشوں اور اتنے پریشرز کے باوجود جو اس ملک کو بنانے والے ہیں وہ شب و روز جدوجہد میں مصروف ہیں، دشمن چالاک اور طاقتور سہی، خوش نصیبی کا یہ پہلو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کہ اﷲ پاک کی مدد حاصل ہے۔

علم و ہنر کے دروازے سب کے لیے کھولنے پڑیں گے، سیاست وہی اعلیٰ جس میں ملک و قوم ترقی یافتہ ہیں، جس میں بندہ، بندہ بنے، جس میں چھوٹے سے لے کر بڑے تک کے لیے قانون برابر ہو، سیاست دان بھی وہ زندہ رہے گا جس کا انداز فکر اور چال چلن قائداعظم والا ہو، کہ ایک چائے کے کپ کا بوجھ بھی خزانے پر نہ پڑے۔ قائداعظم کو پڑھیں اور ان کے طور طریقے اپنائیں کہ شاید راستہ سیدھا اور آسان ہوجائے۔

ہم مسلمان تو وہ امت ہیں جس کا رسولؐ اعلیٰ کردار کی مثال تا قیامت تک کے لیے ہے۔ صادق و امین، سادہ زندگی، اﷲ پر توکل اور اﷲ کے حکم کو حکم آخر ماننے والا، ہمیں تو صرف اس عالیشان رسول کو Follow کرنا ہے، خزانوں کو غرق ہونے میں تو صرف چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں اور ہم نسل در نسل ان خزانوں کو بھرنے میں لگے رہتے ہیں، آخر وہی کفن اور وہی قبر عام لوگوں جیسی۔

دل کو بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے، 2018ء سے بہت سی امیدیں لگی ہیں، بحیثیت ایک قوم ہم چاہتے ہیں کہ بس بہت ہوگیا اب ہر دن یا مہینہ یا سال پاکستان کا سال ہو، تھر سے لے کر بلوچستان تک سکون اور زندگی شاد و آباد ہو، ہر شہری کا فخر پاکستان ہو، شہر ہو یا دیہی علاقے اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ہر اس طالب علم کی پہنچ میں ہو جو لگن، شوق اور اعانت رکھتا ہو، والدین شریعت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے فکرمند نہ ہوں، ریاست مضبوط ریاست ہو جہاں کھانسی سے لے کر کینسر کا علاج عام و خاص سب کی پہنچ میں ہو۔

یہ سب بنیادی ضروریات کوئی خواب نہیں، کوئی بھی مشکل منزل نہیں، بس کچھ سو لوگ ایسے آگے آجائیں جو اپنی ذات سے نکل کر ہیرو بنیں۔ بے انتہا مشکل مقصدCause ہے اس کرپشن کو ختم کرنا جو چھوٹے اداروں سے بڑوں اداروں تک اپنی جڑیں رکھتی ہو، مگر جب چائنا یہ کرپشن ختم کرکے ایک بھرپور طاقت بن سکتا ہو تو کیا ہمارے لیے ناممکن ہے، بس ضرورت ہے ان سوئے ہوئے جذبوں اور مضبوط ارادوں کی جو کہیں زمانے کے موسموں کی نذر ہوگئے ہیں، جو مخالف سمت کی ہواؤں کی نذر ہوگئے ہیں، جو جھوٹ و فریب کو حقیقت جاننے لگے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بہترین ذہن بھی ہمارے سیاست دانوں میں موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکر و فریب بھی موجود ہے، دور سے نظر آنے والی چمک ضرور ہے مگر ناممکن کچھ بھی نہیں، مخالفت اتنی ہی اچھی جو ملک و قوم کے لیے نقصان دہ نہ ہو، اگر ایسا نہیں تو پھر یہ دشمنی بن جاتی ہے اور مشکوک بنادیتی ہے۔

جعفر و صادق کا کردار آج تک تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے، ٹیپو سلطان ہو یا قاسم، صلاح الدین ایوبی ہو یا قائداعظم، ان سب کے کردار، فعل و عمل ہی ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر کرچکا ہے۔ بہترین کردار، مضبوط کردار ہی ہمیشہ ہواؤں کا رخ موڑ دیتے ہیں، سچے جذبے، سچے خواب اور روشن پاکستان۔

2017ء کا اختتام اور 2018ء کی شروعات، وسوسے، ڈر و خوف، امیدیں، روشنی، ترقی، نام اور بہترین حکمت عملی گویا پھر سے کمر کس لیں اور پھر سے 12 مہینوں کے لیے بہترین حکمت عملی، کہ آنے والا ہر دن انشا اﷲ ہم سب کے لیے خیر و عافیت ہی ہو۔ 70 سال سے دہائیاں دینے والی قوم کو اب ایسی مضبوط قوم کے لیے جتن کرنے پڑیں گے کہ بہت سی خواہشات کو قربان کرنا پڑے گا۔ بہت سی کرسیوں کو قربان کرنا پڑے گا، بڑے بڑے عہدے ہی مضبوط تر نہیں ہوتے بلکہ مضبوط کردار ہونا ضروری ہے۔

ہماری پہچان یہ ملک ہے، یہ ملک قائم و آباد رہے گا تو پنجابی ہو یا پختون سب پھلے پھولیں گے، تھر سے لے کر بلوچستان تک ضروریات زندگی سب کے لیے برابر ہو، بڑے اداروں سے لے کر چھوٹے اداروں تک ذمے داریاں اور فرض و حق سب کا برابر ہو، فوج ہو یا سپریم کورٹ، اسمبلیاں ہوں یا اسٹاک ایکسچینج، تاجر برادری ہو، ڈاکٹر و انجینئر یا عام شہری بہترین ضروریات زندگی سب کے لیے برابر ہو۔ 2018ء تم کو خوش آمدید، امیدوں کے ساتھ، خوابوں کے تعبیر کے ساتھ ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔