میرے ساتھ یہ ہوا کیوں؟

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 3 جنوری 2018

1882ء میں ہیگ میں سپائی نوزا کے مجسمے کی نقاب کشائی کی تقریب میں ارنسٹ رینان نے اپنی تقریر ان الفاظ کے ساتھ ختم کی تھی کہ ’’خدا کی سچی ترین جھلک شاید یہاں دیکھی گئی تھی‘‘ سپائی نوزا کہتا تھا کہ اپنے آپ سے محبت کرنے کی خاطر آپ کو لازمی طور پر دوسروں سے محبت کرنی پڑے گی۔ محبتیں، لطف وکرم اور مسرتیں یہ روح کے وہ خزانے ہیں کہ صرف اس وقت مزہ دیتے ہیں جب ان کو کھلے عام لٹایا جائے سب میں بانٹا جائے اور سب کو ان میں شریک کیاجائے یہ وہ خزانے نہیں کہ جن پر لوہے کے تالے لگا کر کالے ناگ کی طرح ان پر پہرہ دیا جائے تو کام آئیں۔

نہیں، یہ لٹانے سے کام آتے ہیں دانا آدمی کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرکے ہی اپنی مدد کر سکتا ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ انفرادی مسرت اصل میں باہمی مسرت ہے و ہ حسد سے بچتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حسد سے خو شی نہیں ملتی بلکہ رنج ملتا ہے وہ نفرت سے دور بھاگتا ہے کیونکہ اس کو علم ہے کہ نفرت سے صرف نفرت ہی جنم لیتی ہے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے خود کو نقصان سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا جو کوئی تلوار اٹھاتا ہے وہ تلوار ہی سے مارا جاتا ہے وہ فتح حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ’’ہماری عظیم الشان فتوحات‘‘ ہتھیاروں کے ذریعے حاصل نہیں ہوتیں وہ روح کی عظمت کے بل بوتے پر حاصل ہوتی ہے۔

خود آرام و سکون سے رہنے کی ترکیب صرف یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی کو بھی پر مسرت بنایا جائے۔ اسی ترکیب سے ہی آپ محفوظ ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ تمام ترکیبیں آپ کو غیر محفوظ کرتی ہیں یہ ناممکن ہے کہ آپ کھا رہے ہوں اور بھوکے آپ پر حملہ نہ کریں ۔ آپ خوش ہوں اور ناخوش آپ کی خوشیوں کو نہ لوٹیں، جتنے زیادہ بھوکے اور ناخوش ہونگے وہ اتنی ہی زیادہ شدت سے حملہ آور ہوں گے ۔ یہ بات امریکا ، یورپ ، برطانیہ نے فرانس اور روس کے بھوکوں اور ناخوش لوگوں سے صدیوں پہلے سیکھ لی تھی ، اس لیے اب ان ممالک میں سر عام ڈھونڈنے سے بھوکے اور ناخوش لوگ نہیں ملتے ہیں۔

آپ زیادہ دور نہ جائیں صرف اپنے ملک میں 70 سال پہلے چلے جائیں۔اس وقت بھوکے اور ناخوش لوگوں کی تعداد انتہائی کم ترین سطح پر ہوا کرتی تھی،اس لیے سب محفوظ ہوا کرتے تھے کسی کوکسی سے خطرہ نہ تھا اور صرف ستر سال بعد آج سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔

ہمارے ملک میں اس قسم کے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ ہونے میں بھی خطرہ ہے اور نہ ہونے میں بھی خطرہ ہے انسانوں اور جانوروں میں بس اتنا سا ہی فرق ہے کہ انسان عقل والا جانور ہے عقل صرف اس وقت تک کام کرتی رہتی ہے جب تک وہ مطمئن اور محفوظ ہوتا ہے جہاں وہ غیر محفوظ اور غیر مطمئن ہونا شروع ہوتا ہے ویسے ویسے وہ بے عقل کا جانور بنتا چلاجاتا ہے وہ جتنا زیادہ غیرمطمئن اور غیرمحفوظ ہوتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ بڑا جانور بنتا چلا جاتا ہے یہ بالکل سیدھی سادی سی بات ہے جو تھالیس آف ملیطس ، لاوزی ، فیثا غورث ، گوتم ،کنفیوشس ، پارمی نائیڈس ، پروٹا غورث سے لے کر سولن ، سقراط ، اور پھر سینٹ آگسٹائن، رومی، تھامس ایکنیاس، نکولس وان کیوس ، فرانسس بیکن، ڈیکارٹ، تھامس ہابس، جان لاک ،جارج برکلے، ہیوم، والٹیئر، کارل مارکس، ڈیوی، سارتر، رسل، فرانز فینن سب کے سب پہلے ہی بتاچکے ہیں لیکن ہم اتنے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کہ ہم نے یہ ہی بات سیکھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔

قدیم ہندوستانی فلسفی پتنجلی نے کہا تھا ’’جو لوگ آتما اوردانائی کی شدید خو اہش رکھتے ہیں وہ ان کے قریب ہی منتظر بیٹھی ہوئی ہوتی ہے‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے طاقتور، بااختیار اور اقتدار کے مسند پر براجمان دنیا بھر کے تمام فلسفیوں، نفسیات دانوں اور دانشوروں کی تمام تعلیمات کے بالکل برعکس، برخلاف اپنے ذاتی فلسفے ذاتی نفسیات اور ذاتی دانش کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ ان کے فلسفے اور دانش کے مطابق انسان کو صرف اورصرف اپنے آپ اور اپنے گھر والوں سے محبت کرنی چاہیے اور باقی سب سے نفرت کرنی چاہیے۔

ساری محبتیں، لطف وکرم اور مسرتوں پر صرف اور صرف ہمارا اور ہمارے گھر والوں کا حق ہونا چاہیے اور یہ خزانے کسی صورت میں بھی لٹانے نہیں چاہیں اور ان پر کالے ناگ کی طرح پہرہ دینا چاہیے۔ ملک کی ساری دولت، سارے خزانوں، سارے وسائل پر صرف ہمارا قبضہ ہونا چاہیے۔ جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لینا چاہیے باقی سب کو بری طرح سے کنگال کردینا چاہیے۔

اپنے آپ کو سب سے زیادہ دولت مند بنانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ سب سے زیادہ مطمئن، خوش اور محفوظ نظر آتے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ ہی سب سے زیادہ غیرمطمیئن، ناخوش اور غیر محفوظ نظر آتے ہیں سب سے زیادہ پریشان اور فکر مند دکھائی دیتے ہیں دفاتر ، محلوں اور ایوانوں سے باہر آتے ہیں تو سخت سیکیورٹی کے حصار میں آتے ہیں انھیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے جتنا نارمل نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا اور خو ف کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اصل میں انسان بہت کمزور واقع ہوا ہے وہ ہمیشہ چیزوں کے کھو جانے یا چھین لیے جانے کے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور جب آپ خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو آپ نفسیاتی مسائل سے دو چار ہونا شروع ہوجاتے ہیں پھر اس کے بعد آپ ڈرنا شروع کر دیتے ہیں آپ سب کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں لیکن اصل میں آپ کا کوئی دشمن نہیں ہوتا ہے آپ اپنے آپ کے دشمن بن چکے ہوتے ہیں یہ کیفیت آپ کو کمزور ترین سطح پر لے آتی ہے اس کے بعد آپ سب کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں لیکن اصل میں آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہوتے ہیں آپ صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں اور آخر میں سب کچھ گنوانے کے بعد یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔