نگراں وزیراعظم کے لیے واشنگٹن کی محتاجی

نصرت جاوید  منگل 19 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پیپلز پارٹی کی کچھ باتوں پر واقعی بلّے بلّے کرنے کو دل مچل جاتا ہے۔ ذرا یاد کیجیے کہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے چند ہفتے پہلے انھوں نے دو بڑے بنیادی فیصلے کر ڈالے۔ گوادر کو چین کے سپرد کرنے کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ یہ دونوں فیصلے کر لینے کے بعد میرے بہت سارے پیپلز پارٹی کے دوستوں نے مجھے بہت فون کیے اور اس بات پر گلہ کہ میرے جیسے خود کو ’’سرخا‘‘ کہلوانے والے صحافیوں کو مندرجہ بالا اقدامات کے بعد بالآخر دریافت کر ہی لینا چاہیے تھا کہ ان کی جماعت اور قیادت امریکا کے تھلے ہر گز نہیں لگی ہوئی۔

اس نے تو جاتے جاتے ایسے فیصلے کر لیے ہیں جو امریکی سامراج کے دل میں آیندہ برسوں کے دوران کانٹے کی طرح کھٹکتے رہیں گے۔ حکومت سے فارغ ہوتے لوگوں کے ساتھ میں ضرورت سے زیادہ مہذب ہو جایا کرتا ہوں۔ بڑی عاجزی سے ان کے طعنے سنتا رہا۔ میرے ہاتھ جوابی وار کرنے کا سنہری موقعہ اس وقت ہاتھ آیا جب چین کو گوادر دینے اور ایران سے گیس خریدنے پر ڈٹی انقلابی جماعت نے قائم مقام وزیر اعظم کے لیے اپنے نام دیے۔ مروت مگر پھر آڑے آگئی۔

پہلا نام تو ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کا تھا جن کا اس ضمن میں ذکر اس کالم میں تقریباََ ایک سال سے تواتر کے ساتھ ہورہا تھا اور دوسرا نام ڈاکٹر عشرت حسین کا۔ یہ دونوں حضرات بوسٹن یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں اور مختلف حیثیتوں میں کئی برس ورلڈ بینک کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ میں ان دونوں حضرات کو ذاتی طور پر ہرگز نہیں جانتا۔ یقیناً بڑے قابل اور ایماندار ہوں گے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ جب شوکت ترین نے وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دیا تو ہمیں قرضے اور امداد دینے والے اداروں نے وزارتِ خزانہ کے لیے ڈاکٹر حفیظ شیخ اور حفیظ پاشا کے نام تجویز کیے۔

میرے اس انکشاف سے ہر گز حیران نہ ہویئے گا کہ یہ دونوں نام براہِ راست صدر زرداری یا اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نہیں دیے گئے تھے۔ ذکر ان دونوں کا ان حلقوں میں پھیلایا گیا جو 2010 میں واشنگٹن کو اپنی نام نہاد وار آن ٹیرر کے حوالے سے بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ صدر زرداری تک یہ دو نام پہنچے تو انھوں نے پاشا کا نام فی الفور مسترد کر دیا۔ محترمہ کی حکومت کے دنوں میں زرداری صاحب کو ان سے اکثر واسطہ رہا تھا اور ان واسطوں نے کوئی خوش گوار تاثر نہیں چھوڑا تھا۔

حفیظ شیخ صاحب نے اپنے امکانات کو مزید روشن کرنے کے لیے صدر زرداری کو مختلف دوستوں کے ذریعے یاد دلوانا شروع کر دیا کہ وہ جیکب آباد کے ایک پرانے سندھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خورشید شاہ نے مزید اطلاع یہ پہنچائی کہ ان کے والد کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہاتھوں پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ جیکب آباد کا سیکریٹری جنرل بنایا تھا اور ان کا کام ہو گیا۔ شیخ صاحب کو لانے والے  ہاتھ  RGST لگوانا چاہتے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر خزانہ بن جانے کے چند ہفتوں بعد تک شیخ صاحب سینہ پھلا پھلا کر یہ ٹیکس لگانے کے وعدے کیا کرتے تھے۔

ان کے ارادوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرحومہ فوزیہ وہاب نے قومی اسمبلی کی وزارت خزانہ سے متعلق کمیٹی میں اس ٹیکس کی حمایت میں تن من دھن سے ایک مہم چلا دی۔ ان بے چاری کو اس ٹیکس کے مخالفین نے کمیٹی کے اجلاسوں اور میڈیا میں زچ کر کے رکھ دیا۔ شیخ صاحب ان کے واقف نہ بنے اور سر جھکا کر اسی تنخواہ میں گزارہ کرنا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ انھوں نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنا بھی قطعی طور پر چھوڑ دیا۔ اجلاس تو دور کی بات ہے حفیظ صاحب قومی اسمبلی کے اراکین سے ہاتھ ملانا یا ان کے فون سننا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔

بارہا پیپلز پارٹی کی نشستوں سے کھڑے ہو کر بڑے بڑے تگڑے قومی اسمبلی کے اراکین ان کے رویے پر ماتم کرتے رہے۔ مگر شیخ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر سلالہ ہوا۔ ہم نے پاکستانی راستوں سے نیٹو کی افواج کے لیے جانے والی رسد سات ماہ بند رکھی۔ ہمارے ایک بڑے ہی ثقہ بند انقلابی دوست جناب رضا ربانی کی قیادت میں پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اسحاق ڈار، مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیر پائو، پروفیسر خورشید احمد اور افراسیاب خٹک جیسے قد آور سیاسی رہ نمائوں کے ساتھ بیٹھ کر بڑی عرق ریزی سے امریکا کے ساتھ تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی ’’گائیڈ لائن‘‘ تیار کی۔ مگر وہ کسی کام نہ آئی۔

بالآخر حفیظ شیخ صاحب سے رجوع کرنا پڑا جنہوں نے تن تنہا واشنگٹن میں بیٹھے لوگوں سے معاملات طے کر کے افغانستان جانے والی سپلائی لائن بحال کروا دی اور یہ ہی وہ وقت تھا کہ مجھے پاکستان کے ایک بڑے ہی طاقتور اور باخبر ترین لوگوں میں سے ایک شخص نے خبردار کیا کہ حفیظ شیخ عبوری وزیر اعظم ہوں گے۔ میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

نواز شریف کے لوگوں تک بھی شاید یہ بات پہنچی ہو گی۔ انھوں نے اپنے طور پر طے کر لیا کہ حفیظ شیخ جس حکومت کے سربراہ بنے وہ فوری انتخابات نہیں کم از کم دو سالوں کے لیے ’’کچھ اور‘‘ کرے گی۔ ان کا راستہ روکنے پر ڈٹ گئے۔ انھوں نے جب ارادہ مصمم کر لیا تو میرے ایک صحافی دوست نے مجھے فون کر کے بتایا کہ انھیں واشنگٹن کے ایک اہم دفتر میں بیٹھے شخص نے ای میل کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ نواز شریف حفیظ شیخ کے نام پر راضی نہ ہوئے تو متبادل کے طور پر عشرت حسین کا نام آئے گا۔ میں نے اِدھر اُدھر رابطے کیے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں متعین ایک سابق امریکی سفیر چارلس منٹر کراچی آئے ہوئے ہیں۔

ان کے آنے کا بظاہر مقصد تو کراچی کے ایک ادبی میلے میں شرکت کرنا تھی مگر اپنے قیام کے دوران تفصیلی ملاقاتیں ان کی حفیظ شیخ اور عشرت حسین کے ساتھ ہوئیں اور پھر دونوں کے نام گوادر چین کے حوالے کرنے کے بعد ایرانی گیس خریدنے کو تیار ’’انقلابی‘‘ جماعت نے باقاعدہ پیش کر دیے۔ مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی جب ایک تازہ دم انقلابی جماعت۔ تحریک انصاف۔ نے بھی عشرت حسین کے نام پر صاد کر دیا۔ پنجاب کے ایک بڑے بینکر اور صنعت کار آخری خبریں آنے تک نواز شریف کو اسی نام پر رضا مند کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ کیسی جمہوریت اور خود مختاری ہے؟ ہم 20 کروڑ کے اس ملک سے ایک بندہ عبوری وزیر اعظم چننے کے معاملے میں بھی ’’آزاد‘‘ نہیں واشنگٹن کے محتاج ہیں۔ ’’دفاعِ پاکستان کونسل‘‘ میں بیٹھے ’’مجاہد‘‘ بھی اس معاملے پر بولنے کی جرأت نہیں کر پائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔