ایم ایم عالم کی قابل فخر یاد

اسد اللہ غالب  منگل 19 مارچ 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

میں نے صبح سویرے جدید ٹیکنالوجی کے ماہر اپنے نو سالہ پوتے عمر نعیم سے کہا کہ وہ مجھے یو ٹیوب کھول دے۔گستاخانہ لٹریچر اور فلموں کی وجہ سے اسے پاکستان اور کئی اسلامی ملکوں میں بند کیا جا چکا ہے مگر اس پابندی کا توڑ بھی نکال لیا گیا ہے، میں تو نہیں جانتا، مجھے اس سے دلچسپی کوئی نہیں ہے مگر نئی نسل اور اس سے بھی اگلی نسل ان معرکوں سے پوری طرح شناسا ہے۔

یوٹیوب میں میری آج خصوصی دل چسپی ایم ایم عالم کی وفات کی وجہ سے تھی۔پانچ سال قبل میں ایکسپریس نیوز کے ساتھ چند ماہ کے لیے وابستہ ہوا تو اس دوران چھ ستمبر کا یوم دفاع آ گیا ۔ اس موقعے پر میں نے ایم ایم عالم کے دلیرانہ کارنامے پر ساٹھ سیکنڈ کی ایک فلم کا اسکرپٹ لکھااور اسے اپنی نگرانی میں تیار کروایا۔ یہ وڈیو کلپ کئی لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر رکھا ہے۔وڈیو کا ٹائٹل ہے:ـ سرگودھا کے اوپر ساٹھ سیکنڈ۔6o Seconds Over Sargodha ۔یہ ساٹھ سیکنڈ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے فیصلہ کن تھے۔

بھارت کی افواج چھ ستمبر کو پاکستان کی طویل تریں سرحد پر جارحانہ یلغار کر چکی تھیں، لاہور میں بھارت کے ایڈوانس ٹروپز بی آر بی عبور کر گئے تھے۔ بھارتی میجر جنرل نرجن پرشاد کی جیپ پاکستان نے قبضے میں لے لی تھی۔سیالکوٹ، ظفر وال اور شکر گڑھ کے کھیتوں میں دنیا کی ٹینکوں کی سب سے خوفناک جنگ جاری تھی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ جی ٹی روڈ کو آگے بڑھ کر کاٹ دے۔سات ستمبر کو بھارت نے فضائی حملے تیز تر کر دیے اور یہ پاکستان کے لیے چونکا دینے والی بات تھی کہ بھارتی طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے سرگودھا کی فضائوں میں پہنچنے میںکامیاب ہو گئے تھے۔

سرگودھا پاکستان کی دفاعی جنگ میں ایک حساس اعصابی مرکز تھا۔اس اعصابی مرکز کی حفاظت کے لیے عین اس وقت اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم معمول کی گشتی پرواز کر رہے تھے، ان کی نظرسیکڑوں فٹ نیچے بھارت کے پانچ ہنٹر طیاروں پر پڑی۔بھارتی ہنٹر طیارے درختوں کی بلندی پر تھے۔اور پھر وہ معرکہ برپا ہوا جس میں فضائی تاریخ کا ناقابل شکست ریکارڈ بنا۔ پہلے تیس سیکنڈ میں ایم ایم عالم نے انتہائی پھرتی سے دشمن کے چار طیارے مار گرائے، آخری طیارہ دم دبا کر بھاگ اٹھا تو اسے نشانے پر لینے میں ایم ایم عالم کو مزید تیس سیکنڈ لگ گئے۔

فضائی جنگ کی تاریخ میں اتنے کم وقت میں پانچ جہازوں کا مارگراناب تک کسی کے لیے ممکن نہیںہوا تھا۔ ایم ایم عالم نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔پوری دنیا کی نظریں اس کی بے مثال جرات پر مرکوز ہو گئیں۔وہ ترقی پا کر ایئر کموڈور کے منصب پر پہنچے اور پھر ریٹائر ہو گئے، اس دوران پاکستان دو لخت ہو گیا مگر ایم ایم عالم نے پاکستان میں رہائش کو ترجیح دی۔قوم نے ان کو وہ عزت نہ دی جس کے وہ مستحق تھے۔زندگی کے آخری ایام انھوں نے گمنامی میں بسر کیے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے وار ویٹرنز کی قدر نہیں کرتے۔

گلبرگ میں ان کے نام پر ایم ایم عالم روڈ ضرور بنی ہوئی ہے اور اس کی چمک دمک دیکھنے کے لائق ہے مگر جب گاڑیاں اس سڑک پر فراٹے بھرتی ہیں یا اس علاقے میں ہوٹلوں کی میزوں پر کانٹے اور چھریاںکھنکتی ہیں تو کسی کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ ایم ایم عالم کون تھا۔ کاش! اس عظیم ہیرو کی وفات پر کم از کم ایک ہفتے کے لیے ایم ایم عالم روڈ کی بتیاں گل کر دی جائیں۔اگرچہ عالم بنگالی نہیں تھا ، وہ بہاری تھا مگر اس کی پیدائش تو بنگال میں ہی ہوئی تھی، اس لحاظ سے ہم نے اسے ہمیشہ بنگالی سمجھا اور اس کی وفاداری پر اعتماد نہیں کیا۔ بھارت نے ایم ایم عالم کی تحقیر کے لیے کئی کہانیاں گھڑیں ۔

ایک کہانی یہ تھی کہ ایم ایم عالم نے جس بھارتی پائلٹ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا ، اسے بھارتی فضائیہ میں دوسرے سینیئر تریں منصب پر ترقی دی گئی۔ بھارت نے تو سرفراز رفیقی کو شہید کرنے والے پائلٹ کو اپنی فضائیہ کا سربراہ بھی بنایا۔ابھی حال ہی میں پی اے ایف کے ایک اور ہیرو اسکوڈارن لیڈر سیسل چوہدری وفات پا گئے، اس سے پہلے ایئر مارشل نور خاں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے، ان کے نام پر چک لالہ ایئر پورٹ کو منسوب کیا گیا مگر میں نے کسی اخبار یا ٹی وی کو چک لالہ کی جگہ نورخاں ایئر پورٹ کا نام لیتے نہیں دیکھایا سنا۔

سیسل چوہدری کے والد ایف ای چوہدری کی وفات پر میڈیا نے ان پر بہت کچھ لکھا مگر سیسل چوہدری کو ہم نے فراموش کر دیا جس نے اپنا آج ہمارے کل کی خوشحالی اور سلامتی کے لیے قربان کر دیا تھا۔میں نے پی اے ایف سے احتجاج کیا تھا کہ اس کی ویب سائٹ پر سیسل چوہدری کی وفات کی خبر بھی نہ تھی، اب ایم ایم عالم کی وفات پر پی اے ایف کی ویب سائٹ خاموش ہے تاہم آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر جنرل کیانی کی طرف سے تعزیت کا اظہارموجود ہے۔پی اے ایف کے سربراہ نے ایم ایم عالم کے جنازے میں شرکت ضرور کی ہے اور مرحوم کو پورے فضائی اعزاز کے ساتھ کراچی میںدفن کیا گیا ہے۔صدر، وزیر اعظم اور گورنرسندھ نے بھی تعزیتی پیغامات جاری کیے ہیں۔

تدفین کے موقعے پر ایئر چیف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایم عالم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم امہ کے ہیرو تھے۔شام نے ان کی خدمات سے پانچ برس تک فائدہ اٹھایا اور ان کی رہنمائی میں اپنی ایئر فورس کھڑی کی۔ایم ایم عالم نے طویل عمر پائی ۔وہ 1935 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ڈھاکہ سے مکمل کی۔ 1952 میںپی اے ایف میں شامل ہوئے، اگلے برس انھیں کمیشن مل گیا۔زندگی کی اٹھہتر بہاریں دیکھنے کے بعد وہ گزشتہ دسمبر سے سخت علیل تھے اور شفا اسپتال کراچی میں زیر علاج رہے۔دنیا میں وہ واحد ہوا باز ہیں جنہوں نے ایک ہی ہلے میں پانچ جہاز گرائے ہوں۔

اسی جنگ میں انھوں نے دشمن کی سرزمین پر دو اور جہاز گرائے اور تین کو نقصان پہنچایا ، پینسٹھ کی جنگ میں انھوں نے کل نو جہاز تباہ کیے جس پر انھیں دو مرتبہ ستارہ جرات کا اعزاز عطا کیا گیا۔ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ انھیں زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔ دنیا کو کوئی ہال آف فیم ان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ ان کے بھائی ڈاکٹر محمد زبیر عالم نے ایکسپریس ٹریبیون کے نامہ نگار کو بتایا ہے کہ مرحوم کو پچپن ہی سے ہوا باز بننے کا شوق تھا اور وہ لکڑی کے جہاز بنا کر اپنے اس شوق کو مہمیز دیتے رہے۔

خدا نے اس کے شوق کی تکمیل کا راستہ نکالا اور وہ اٹھائیس برس تک پاکستان ایئر فورس سے وابستہ رہا، اس نے برطانیہ سے وہ کورس مکمل کیا جس کے بعد اس کی ترقی ضروری ہو گئی تھی مگر پاکستانی قوم نے اپنے ہیروز سے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا،12اپریل 1982 کو اس کا وہ انٹرویو ہوا جس کے بعد اسے ریٹائر کر دیا گیا۔کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ایم ایم عالم کی موت کا  اصل دن یہی تھا، باقی زندگی میں وہ اپنے ہی ہم پیشہ افراد کی تحقیر کا نشانہ بنتا رہا مگر ہیرو کبھی نہیں مرتا، اس کی شہرت کو کوئی داغدار نہیں کر سکتا، 18اپریل 2013 کے ابتدائی لمحات میں شفا اسپتال کی طرف سے جاری ہونے والے ڈیتھ سرٹیفکیٹ سے بھی ہیرو کی موت واقع نہیں ہوئی، ہیرو ہماری یادوں میں زندہ رہے گا ، ہمارے شاہناموں میں جگمگاتا رہے گا۔وہ ابدالا ٓباد سے بھی دشمن پر ہیبت طاری رکھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔