گستاف... دریائے روزوزی کا عفریت

عبدالریحان  جمعرات 4 جنوری 2018
60سال کے دوران اسے پکڑنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے

60سال کے دوران اسے پکڑنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے

برونڈی کے گھنے جنگلات میں سے گزرنے والے دریائے روزوزی میں اس عفریت کا ٹھکانہ ہے جو افسانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ساٹھ برسوں سے دہشت کا نشان بنے اس عفریت کو پکڑنے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ چھے عشروں کے دوران یہ خون آشام بلا 300 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ مقامی لوگوں نے اسے گستاف کا نام دے رکھا ہے۔ 300 انسانوں کی قاتل یہ خون آشام بلا دراصل ایک مگرمچھ ہے۔

متعدد کوششوں کے باوجود اس افسانوی مگرمچھ کو پکڑا نہیں جاسکا اس لیے اس کی درست لمبائی نامعلوم ہے البتہ محققین اور کچھ عینی شاہدین کے مطابق گستاف اٹھارہ سے پچیس فٹ تک طویل ہے۔ طوالت اور جسامت کے پیش نظر اس کے وزن کا اندازہ کم ازکم نو سو کلو گرام لگایا گیا ہے۔ یہ افریقا میں دیکھا جانے والا سب سے بڑا مگرمچھ ہے۔ جسامت کی وجہ سے گستاف کی عمر کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ 100 کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ تاہم بعدازاں ہونے والے مشاہدات میں انکشاف ہوا تھا کہ اس کے دانت پورے ہیں۔

چنانچہ پھر اس کی عمر کا تخمینہ 100 سے کم لگایا گیا تھا۔ ایک ماہر حیاتیات کے مطابق اس کی عمر 70 برس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ گستاف کو دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی موٹی کھال پر گولیاں لگنے کے متعدد نشانات ہیں۔ اس کے دائیں شانے پر زخم کا بڑا نشان بھی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق گستاف کو پکڑنے کی مہمات کے دوران اسے کلاشنکوف سمیت دوسری رائفلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے جسم پر موجود نشانات انھی مہمات کا نتیجہ ہیں۔ تاہم ہر بار یہ عفریت مہم جوؤں کی گرفت میں آنے سے محفوظ رہا۔ گستاف کو پکڑنے کی مہمات پر مبنی کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ ایسی ہی ایک دستاویزی فلم کی عکس بندی کے دوران مقامی افراد نے نیشنل جیوگرافک کی ٹیم کو بتایا کہ گستاف دراصل مگرمچھ کے روپ میں کوئی اور ہی مخلوق ہے اسی لیے رائفلوں کی گولیاں بھی اس پر اثر نہیں کرتیں۔ تاہم گستاف پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ غیر معمولی جسامت کی وجہ سے اس کی کھال دبیز اور انتہائی مضبوط ہے جس پر آتشیں اسلحہ بھی اثر نہیں کرتا۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ غیر معمولی جسامت اور وزن کا حامل ہونے کی وجہ سے یہ چھوٹے جانوروں مثلاً بڑی مچھلیوں، ہرن یا زیبرا وغیرہ کا شکار نہیں کرتا بلکہ دریائے گھوڑے، جنگلی بھینسوں اور بعض اوقات انسانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ مقامی آبادیوں میں یہ بات مشہور ہے کہ گستاف انسانوں کو کھاتا نہیں ہے بلکہ پانی میں لے جاکر انھیں چبا کر مار ڈالتا ہے اور پھر لاش کو چھوڑ دیتا ہے جو اَن کھائی ہوئی حالت میں کنارے پر آجاتی ہے۔ گذشتہ ساٹھ سال کے دوران دریا کے کنارے مختلف مقامات سے 300 کے لگ بھگ لاشیں مل چکی ہیں۔ دو سال کی تحقیق کے بعد پیٹرائس فائے اور ان کے دیگر سائنس داں ساتھیوں نے مل کر گستاف کو پکڑنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی مہم کی انھوں نے فلم بندی بھی کی جسے بعدازاں Capturing the Willed Croc کے نام سے ریلیز کیا تھا۔ پیٹرائس اور ان کی ٹیم دو ماہ تک گستاف کا شکار کرنے کی سعی کرتی رہی۔ مگر تین ٹن وزنی پنجرے اور دوسرے آلات سے کام لینے کے باوجود یہ عفریت ان کے ہاتھ نہیں آیا۔ گستاف آخری بار جون 2015 میں نظر آیا تھا جب ایک شخص نے اسے کنارے سے ایک بھینس کو کھینچ کر دریا میں لے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔