یہ جو دوسرے میاں صاحب ہیں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 6 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میاں شہباز شریف کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ دل کی بات چھپا نہیں سکتے اور اسے زبان پر لے آتے ہیں اور پھر جوش خطابت میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جس طبقے کے خلاف وہ بات کر رہے ہیں خود ان کا تعلق اس طبقے سے ہی ہے، جس نے غریب طبقے کے حقوق پر ڈاکا ڈالا ہوا ہے اور ان کے حقوق غصب کیے بیٹھا ہے۔ شہباز شریف جب کسی عوامی فلاح کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہیں تو اس کامیابی پر اتنے مسرور بلکہ مغرور ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مخصوص انقلابی انداز میں اپنے اشرافی طبقے کو خوب لتاڑتے ہیں۔

عوام کی بات کرتے ہیں حالانکہ آج کل عوام کی بات کرنا تو درکنار عوام کی بات سننے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر عوام کو حق نہ دیا گیا تو خونیں انقلاب آئے گا، ہمیں امیر اور غریب کا فرق مٹانا ہے اور یہی سوچ ہمیں آگے لے کر جائے گی۔ وہ اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں اپنے کینسر کے علاج کے لیے بیرون ملک خطیر رقم خرچ کرنا پڑی اور جو سہولیات وہ اب پنجاب میں فراہم کر رہے ہیں اب ان کو اپنے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میاں شہباز کی انتظامی صلاحیتوں کے بارے اگر یہ کہا جائے کہ ایک جہان ان کا معترف ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

انھوں نے ایک سخت گیر منتظم کے طور پر اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور وہ عوامی منصوبوں کے بارے میں خطرناک حد تک پرجوش ہیں۔ کچھ ہی روز پہلے جب اعلیٰ عدالت کی جانب سے لاہور میں ٹرین کے بارے میں حتمی فیصلہ آیا تو وہ اس سے اگلے روز صبح سویرے ٹرین کی لائن کے مختلف اسٹیشنوں کے معائنہ کے لیے موجود تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے مشہور ہیں اور کئی ایک منصوبے ایسے ہیں جو انھوں نے ریکارڈ مدت میں مکمل کرائے ہیں وہ ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے منصوبوں میں کرپشن ثابت ہو جائے تو اگر وہ مر بھی گئے ہوں تو قبر سے نکال کر ان کی لاش لٹکا دی جائے۔

لیکن ان کے سیاسی مخالفین شہباز شریف کی ان باتوں کو نہیں مانتے اور ان کے منصوبوں میں کرپشن کی داستانیں سناتے ہیں لیکن وہ ان دستانوں کی حقیقت کو ابھی ثابت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتیں بڑے پکے کام کرتی ہیں اور باتیں تب کھلتی ہیں جب حکومت چلی جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری حکومت آجاتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے منصوبوں میں کتنی شفافیت تھی۔ شہباز شریف کے بڑ ے بھائی تو اپنی سیاست سے بے دخلی کے بعد نظریاتی ہوئے ہیں لیکن شہباز شریف شروع سے ہی نظریاتی انقلابی ہے۔

ان کے نظریات انقلاب کے قریب تر ہیں لیکن وہ بد قسمتی سے اس طبقہ کا حصہ ہیں جس کا انقلاب سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ جس طبقہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اسی کے اعمال اور عمل انقلاب لانے کا سبب بنتے ہیں۔ عام آدمی تو محرومیوں اور خاص طور پر ناانصافیوں کی لپیٹ میں جکڑا ہوا ہے جب معاشر ے میں ظلم تمام حدود پار کر جائے تو پھر انقلاب کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اور شہباز شریف کے بقول عوام کو ان کے حق سے محروم رکھنا خونیں انقلاب کا باعث بن جاتا ہے، انقلاب ابھی دور کی بات نظر آتی ہے۔ گو کہ معاشرے میں ناانصافی اور ظلم بڑھ رہا ہے لیکن یہ ابھی اس حد تک نہیں پہنچ پایا کہ انقلاب کا نقطہ آغاز بن جائے۔

ابھی اس ملک میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو خوف خدا رکھتے ہیں ان کے قول و فعل عام آدمی کے لیے خیرو برکت کے ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ حکومت سے عوام کے لیے خیر کی توقع رکھنا عبث ہی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی صفوں میں بھی خدا کا خوف رکھنے والوں کے دم قدم سے ہی حکومتی معاملات چلتے رہتے ہیں اور عوام کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا ہی رہتا ہے۔ شہباز شریف جو کہ تقریباً پچھلی ایک دہائی سے پنجاب کے مطلق العنان حکمران چلے آ رہے ہیں، ان کے منہ سے انقلاب اور عوام کی محرومی کی باتیں ان کی اپنی کوتاہی کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہیں۔ جس اشرافی طبقے سے ان کا تعلق ہے ان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بے سکون رکھیں اور عوام کو سکھی رکھنے کے لیے کا م کریں۔

شہباز اپنی اشرافی کلاس سے مختلف ثابت ہونے کی کوشش تو ضرور کرتے ہیں لیکن ابھی تک اپنے آپ کو اس کلاس سے الگ نہیں کر پائے۔ عوام سے جدا گانہ طرز زندگی کے وہ محتاج ہیں کیونکہ انھوں نے کبھی ان مشکلات کا سامنا نہیں کیا جو پاکستانی عوام کر رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے منتظم کے طور پر ضرور سامنے آئے ہیں اپنے کام اور محنت سے عوام میں اپنا ایک علیحدہ تشخص اجاگر کیا ہے جس کو پاکستانی عوام میں پذیرائی ملی ہے اور بسا اوقات پاکستان کے دوسرے صوبوں سے یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے کہ ’شہباز شریف‘ ہمیں ادھار دے دیں، مگر اس سب کے باوجود ان پر اشرافی طبقے کی پکی چھاپ موجود ہے اور وہ اس سے انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس سے بغاوت کر سکتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کو بھی نہیں بخشتے اور شہباز شریف پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے لاہور کو ہی پنجاب سمجھ رکھا ہے اور سارے ترقیاتی کام لاہور میں ہی ہو رہے ہیں۔ یہ بات درست بھی ہے اور پنجاب کے عوام اس کو بھگت بھی رہے ہیں۔ میں خود جب کبھی گاؤں جاتا ہوں تو میرے ضلع خوشاب کی سڑکیں میری بوڑھی ہڈیوں کی تکلیف کو دوچند کر دیتی ہیں اور میں اپوزیشن کے پراپیگنڈہ کو سچ مان لیتا ہوں کہ لاہور ہی پنجاب ہے۔

بات شہباز شریف کی انقلابی باتوں اور ان کی انتظامی صلاحیتیوں میں الجھ گئی اب جب کہ ان کے بڑے بھائی صاحب نے سیاسی موروثیت پر مہر ثبت کرتے ہوئے آئندہ الیکشن جیتنے کی صورت میں ان کو اپنی پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ اگر وہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچ گئے تو پھر پتہ چلے گا کہ وہ کتنے انقلابی اور عوامی وزیر اعظم ہوں گے یا اشرافی طبقے کی ہی نمائندگی کریں گے۔ اس کے بارے میں وقت فیصلہ کرے گا اور وقت سب سے بڑا نقاد ہے۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔