- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
آپ کے آخری الفاظ
ہم سب کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں سے آخری الفاظ کیا کہیں گے، لیکن اس سے پہلے آئیں عظیم ماہر نفسیات و ادیب ’اسٹیفن آر کو وے‘ کا ایک قصہ پڑھتے ہیں۔
’’میں ایک دفعہ ایک ملٹری بیس کے کمانڈر سے ملنے کے لیے گیا، جو اپنے ادارے میں زبردست کلچرل تبدیلی لانے کی پرزور خواہش رکھتا تھا، اس کی سروس تیس سال سے زیادہ ہوچکی تھی اب وہ فل کرنل تھا اور اسی سال ریٹائرڈ ہونے والا تھا، اپنے ادارے کو کئی ماہ تک تربیت دینے کے بعد اس نے مجھے مشورہ کے لیے بلایا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آخر وہ کیوں یہ قدم اٹھانا چاہتا ہے، یہ اقدام بہت بڑا ہے، یہ عمل روایت، تساہل، بے اعتناعی اور اعتماد کے فقدان جیسی طاقتور مزاحمتی لہروں کے خلاف تیرنے کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اب تم ریٹائرڈ ہونے والے ہو، پرسکون رہو، ریٹائرمنٹ کے مرحلے سے آرام سے گزرو، تمہارے اعزاز میں ایوارڈ بینکویٹ منعقد کیا جائے گا، تمہارے دوست تمہاری تعریف و توصیف کرنا چاہیں گے۔
تم کیوں اس جھنجھٹ میں پڑتے ہو؟ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھاگئی، ایک طویل وقفہ کے بعد اس نے مجھے ایک انتہائی ذاتی اور قابل احترام واقعہ سنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بتایا کہ میرے والد کی وفات حال ہی میں ہوئی ہے، جب وہ بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے مجھے اور میری ماں کو ’’خدا حافظ‘‘ کہنے کے لیے بلایا۔ ان کے لیے بولنا بہت مشکل تھا، میری ماں مسلسل رو رہی تھیں، میں اپنے والد کے قریب ہوگیا، انھوں نے سرگوشی جیسی آواز میں مجھے مخاطب کرکے کہا ’بیٹے زندگی اس طرح مت گزارنا جیسے میں نے گزاری ہے، میں نے تمہارے اور تمہاری ماں کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا، تمہاری زندگیوں میں کوئی فرق نہیں لاسکا، بیٹے مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس طرح زندگی نہیں گزارو گے جس طرح میں نے گزاری‘۔ یہ تھے وہ آخری الفاظ جو کرنل نے اپنے والد سے سنے، اس کے بعد وہ جلد ہی انتقال کرگئے لیکن یہ الفاظ کرنل کے دل و دماغ پر چپک کر رہ گئے۔
وہ انھیں اپنے والد کا عظیم ترین تحفہ اور ورثہ سمجھتا ہے۔ اس نے والد کی وفات کے روز ہی خود سے عہد کرلیا کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ایک فرق لائے گا۔ اس نے مزید بتایا کہ اپنے والد کے آخری الفاط سننے تک اس نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا تھا،وہ کہنے لگا میں ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک محافظ کا کردار ادا کرتا رہا ہوں۔ میں نے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گزارنے کا انتخاب کر رکھا تھا، لیکن اپنے والد کے ساتھ کیے گئے وعدے کے بعد اس نے عہد کرلیا ہے کہ ماضی کے برعکس وہ ایک عظیم زندگی گزارے گا، ایک ایسی زندگی جو واقعی دوسروں کے کام آئے، ایک زندگی جو بامعنی ہو، جو واقعی ایک فرق پیدا کرے۔‘‘
ہم میں سے ہر ایک شعوری طور پر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ آج وہ معمولی قسم کی زندگی کو پیچھے چھوڑ دے گا اور ابھی سے ایک منظم زندگی گزارنا شروع کردے گا، یہ زندگی ہر جگہ ہوگی، گھر میں دفتر میں، یا کام کی جگہ میں، اور کمیو نٹی میں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے حالات کیسے ہیں، کوئی کسی طرح کے بھی حالات میں ہو یہ فیصلہ کرسکتا ہے۔
اس عظمت کا مظاہرہ کسی بھی طرح کیا جاسکتا ہے۔ ابھی ہم سب کے پاس اپنے آخری الفاظ کہنے کے لیے وقت ہے، ہر شخص اپنی زندگی گزارنے کے لیے مکمل بااختیار اور خودمختار ہے۔ اگر آپ اپنے بیٹے سے آخری الفاظ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیٹے زندگی اس طرح مت گزارنا جیسے میں نے گزاری ہے تو اور بات ہے، لیکن اگر اپنے بیٹے سے آخری الفاظ یہ کہنا چاہیں گے کہ بیٹے زندگی اس طرح گزارنا جیسے میں نے گزاری ہے تو پھر آئیں ہم ایک عظیم زندگی گزارنے کا آغاز آج ہی سے شروع کردیں، ایسی زندگی جو بامعنی ہو، جو واقعی ایک فرق پیدا کرے، جو عظمت سے بھرپور ہو۔
جب کسی نے آئن اسٹائن سے پوچھا ’’اگر اسے خدا سے کوئی ایک سوال پوچھنے کا موقع ملے توہ کیا کہے گا؟‘‘ آئن اسٹائن نے جواب دیا ’’میں پوچھوں گا، کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ کیونکہ اس کے بعد ہر چیز محض حساب ہے‘‘۔ لیکن پھر ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس نے اپنا ذہن بدل لیا اور کہا، ’’نہیں میں پوچھوں گا، کائنات کیوں تخلیق کی گئی؟ کیونکہ اس کے بعد ہی مجھے اپنی زندگی کے معنی سمجھ میں آئیں گے۔ سب سے اہم بصیرت اپنی ذات کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے، اپنی قسمت کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے، اپنے منفرد مشن اور زندگی میں کردار کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے، مقصد اور معنویت کا ایک فہم پیدا کرنا ہے‘‘۔
ہم سب بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیے گئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے نجانے کتنے لوگوں کو ساری زندگی اس مقصد کا پتہ ہی نہیں چل پاتا ہے، وہ آتے ہیں اور کچھ کیے بغیر ایک عام سی بے مقصد زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں۔ اس لیے آئیں، سوچیں، آج ہی سوچیں، کیونکہ بغیر سوچے ہم نے نجانے کتنے سال بے مقصد گزار دیے ہیں، چونکہ اب ہمارے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں بچا ہے اور یہ کہ لاکھوں لوگ ہمارا انتظار کررہے ہیں، لاکھوں لوگ نجانے کب سے ہمارے منتظر ہیں، اس لیے آئیں اپنی اور اپنے جیسے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے اپنے آپ کو آج ہی تبدیل کردیں۔ مارٹن ہیڈگر نے کہا ہے ’’ہم سب خود ایسی ہستیاں ہیں جن کا تجزیہ ہونا ہے‘‘۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔