محسن پاکستان آغا حسن عابدی

سردار قریشی  ہفتہ 6 جنوری 2018

’’آغا حسن عابدی ان عظیم انسانوں میں سے ایک تھے جو اس ملک نے اب تک پیدا کیے ہیں۔ وہ ایک مثالی محب وطن اور لیجنڈری بینکار تھے۔ آج ہر طرف نظر آنے والے گند اور غلاظت میں پاکستانی نوجوانوں کو ایسی متاثر کن شخصیات سے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جن کے نقش قدم پر چل کر وہ زندگی میں کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹ سکیں۔‘‘ موقر جریدے ایکسپریس ٹریبیون نے 25 اکتوبر 2010 کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں انھیں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا، جس کا عنوان تھا: آغا حسن عابدی۔ وہ شخص جو بڑے خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ مضمون نگار نے لکھا کہ میرے خیال میں ایسے شخص کے لیے ان سے زیادہ بہتر مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اور یہ سچ بھی ہے۔

انھوں نے ثابت کیا کہ قوم کی خدمت کے لیے سیاست واحد ذریعہ نہیں ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ کئی ایک اسکینڈلز کی زد میں رہے، مگر ایک مضبوط پاکستان تعمیر کرنے میں ان کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوگی کہ ہم اپنے نوجوانوں کو آغا حسن عابدی جیسے مثالی انسان کو فراموش کرنے کا موقع دیں۔ فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سے ہر سال ہزاروں گریجویٹ نکلتے ہیں، ان میں سے چند ہی جانتے ہوں گے کہ ان باوقار اداروں کی بنیادیں کس نے رکھی تھیں۔ یہ اسی ایک شخص کا ویژن تھا جس نے پاکستان کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔

آغا صاحب نے 1940 کے عشرے کے آخر میں ایک بینک سے اپنا بینکنگ کیریئر شروع کیا اور تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔ انھیں بینک کے مالک سے متعارف کرانے والے کوئی اور نہیں خود راجا صاحب محمودآباد تھے۔ 1959 میں انھوں نے ایک دوسرے بینک میں شمولیت اختیار کرلی، وہاں بھی انھوں نے تیزی سے آگے بڑھنے کی روایت برقرار رکھی اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی زیر قیادت یو بی ایل نے پاکستان کا بینکنگ کلچر بدل کر رکھ دیا اور ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔ مگر یہ ان کی شمولیت کے بعد بینک کی ترقی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔

1972 میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، آغا صاحب نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کے نئے پروجیکٹ پر کام شروع کیا، انھوں نے عربوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بینکوں میں ایک اور ایسے بینک کا اضافہ ہوا جس کے دفاتر دنیا کے 72 ملکوں میں قائم تھے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 16 ہزار تھی اور آغا صاحب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ملازمین کی اکثریت پاکستانیوں پر مشتمل ہو۔ اپنے ملک اور ہموطنوں کے لیے وہ ایسی ہی سوچ اور جذبہ رکھتے تھے۔ بینک کے اعلیٰ انتظامی افسران میں سے 80 فیصد سے زائد کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔

بی سی سی آئی کی ترقی سب کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی بن گیا اور اس نے نہایت تیز رفتاری سے ترقی کی، جس نے بی سی سی آئی کو دنیا بھر کا سب سے بااثر بینک بنادیا، یہی وہ مرحلہ تھا جس پر کچھ قوتوں نے فیصلہ کیا کہ بہت ہوگیا، اب بی سی سی آئی کو ختم کردینا چاہیے۔ اس پر پاکستان کے جوہری پروگرام، فلسطینی حریت پسندوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے اور کالا دھن سفید کرنے سمیت بہت سے الزامات عائد کیے گئے۔ آغا صاحب دنیا بھر میں مطلوب آدمی بنادیے گئے۔

حکومت پاکستان نے انھیں مکمل تحفظ دیا اور ان کو کسی کی بھی تحویل میں دینے سے انکار کردیا۔ بین الاقوامی میڈیا میں ان کو بدنام کرنے کی مہم چلائی گئی اور کہا گیا کہ بینک کے بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط تھے۔ کنٹراورسی کا شکار ہوکر بینک کا شیرازہ بکھر گیا۔ جہاں تک پاکستان کے لیے آغا صاحب کی خدمات کا تعلق ہے تو وہ اتنی زیادہ اور اس قدر موثر ہیں کہ بلاخوف تردید انھیں جدید پاکستان کا معمار کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی صنعت بینکاری کو انتہائی اہل تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں وجود میں آنے والے اکثر نئے بینک اہلیت کا مطلوبہ معیار پانے اور بینکاری خواہ مالیات کے دیگر شعبے قائم کرنے کے لیے پاکستانی مہارت سے استفادہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی جو اس کارنامے کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا سہرا آغا صاحب ہی کے سر باندھے گا۔

یہ اعزاز بھی بی سی سی آئی کو حاصل ہے کہ اس نے بینکاری کے شعبے میں کامیاب پیشہ ور لوگوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو تربیت دی۔ آج اگر پاکستان کے بینکاری اور مالیات کے شعبے جدید خطوط پر استوار اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں تو یہ کارنامہ بھی آغا صاحب ہی کا مرہون منت ہے۔ آغا صاحب کو ویژنری کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے پاکستان میں بہت پہلے کمپیوٹر سائنس کو متعارف کرایا، جب بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔

پاکستان میں کمپیوٹر سائنس کو فروغ دینے کی خاطر انھوں نے 1980 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بی سی سی آئی فاؤنڈیشن (فاسٹ) قائم کرنے کے لیے 100 ملین روپیہ کا عطیہ دیا۔ سال 2000 نے فاؤنڈیشن کی طرف سے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کو وجود میں آتے دیکھا۔ اس بڑی یونیورسٹی کے کیمپس اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں قائم ہیں۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (جی آئی کے آئی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ ان دونوں اداروں نے کئی سائنسدان اور انجینئرز پیدا کیے ہیں جو پاکستانی معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

آغا صاحب ایک ایسے تاجر تھے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آدمی کا مقصد حیات غریبوں کی مدد کرنا ہونا چاہیے۔ ان کے سرانجام دیے ہوئے عظیم کارناموں کا ثبوت یہ ہے کہ وفات کے کئی سال بعد آج بھی لوگ ان کی مخیرانہ سرگرمیوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ آغا صاحب نے زندگی کی آخری سانسیں کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں دوران علاج لی تھیں، وفات کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ خرابی صحت کی بنا پر وہ بی سی سی آئی سے بہت پہلے 1988 میں ہی علیحدگی اختیار کرچکے تھے۔ آغا صاحب کو علیحدگی اختیار کیے ہوئے بمشکل 3 سال ہوئے تھے جب تیسری دنیا کا یہ قابل فخر بینک ایک عالمی سازش کے تحت بند کردیا گیا۔

6 اگست 1995 کو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بی سی سی آئی پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی سچائی تھی بھی تو آغا حسن عابدی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا اپنا کہنا بھی یہی تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ ایک شاعر اور مستقبل پر نظر رکھنے والے (ویژنری) آدمی تھے۔

انھوں نے بی سی سی آئی کی شکل میں جو بینک قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اس کے ذریعے وہ عوامی بہبود کے کام کرنا اور تیسری دنیا کے ممالک سے غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔وہ لندن میں رہتے اور انتہائی نفیس و خوش لباس آدمی تھے۔ 1922 میں شمالی بھارت کے شہر لکھنو میں پیدا ہوئے، ان کے آباؤ اجداد نے کئی نسلوں تک نوابوں اور راجوں مہاراجوں کے اتالیق و مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو آغا صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور خود کو اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیا۔ شیخ زید بن سلطان النہیان کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی آغا صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ بقول شاعر ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔