پی سی بی ڈرائی کلیننگ کی دکان نہیں، رمیز راجہ

زاہد مقصود  اتوار 7 جنوری 2018
میرے خیال میں پلیئرز کی تبدیلی بہت ضروری ہے، سابق کپتان۔ فوٹو:فائل

میرے خیال میں پلیئرز کی تبدیلی بہت ضروری ہے، سابق کپتان۔ فوٹو:فائل

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان پی سی بی کے سابق چیف ایگزیکٹو، کمنٹیٹر اور ایم سی سی ورلڈکرکٹ کمیٹی کے ممبر رمیز راجہ سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن لاہور کے مہمان بنے۔ انہوں نے ہر سوال کا سیر حاصل جواب دیا، سابق اوپنر کے ساتھ طویل نشست کا احوال آپ بھی پڑھیے۔

سوال:بھارتی حکومت طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف سیریز کی اجازت نہیں دے رہی اور اب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی صورتحال کو جواز بنا کر سیریز سے انکار کر دیا ہے؟

رمیز راجہ: یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیاسی ذہنیت کے ساتھ پرانی رقابت کو ہوا دے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک موقف پر اڑا ہوا ہے تو اس میں وہی چھوٹا بنتا ہے۔پاکستان کا موقف درست اور مضبوط ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے بار بار بھارت سے کھیلنے کی بات پر تنقید بھی کی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل فورم پر بھارت زیادہ تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ان کا موقف بے بنیاد اور غیر منطقی ہے۔کرکٹ شائقین کے لئے یہ افسوسناک ہے کہ پاک بھارت کانٹے کے مقابلوں سے انہیں محروم رکھا جائے۔ ان کے درمیان سیریز کے دوران ہیروز بنتے ہیں اور ولن بھی پیدا ہوتے ہیں۔پاکستان کو ویسے بھی انٹرنیشنل سطح پر کم توجہ ملتی ہے لیکن ان مقابلوں پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کا بھارت سے کھیلنے کا بہترین وقت ہے کیونکہ ہماری ٹیم فارم میں ہے۔ دراصل کانٹے کے میچوں کی ایک وجہ سیاست ہی ہے لیکن سیاست اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہیے کہ سب کچھ ختم ہو جائے۔ اس شعبہ میں سیاسی مفادات اٹھانے والوں کو روکنے کا بیڑا کرکٹ چاہنے والوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

سوال: مودی حکومت تو روز اول سے ہی پاکستان کی دشمن ہے ، وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ کرکٹ کے تعلقات بحال ہوں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے ؟

رمیز راجہ: بھارتی حکومت روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتی ہے ، وہ چاہتی ہے کہ پاکستان کو غلط ثابت کیا جائے۔ درحقیقت بھارتی حکومت کا موقف کمزور ہے ، دونوں طرف کے سنجیدہ سابق کرکٹرز پاک بھارت سیریز چاہتے ہیں ، آج تک کبھی کمنٹیٹر باکس میں ایسی بات نہیں کی گئی کہ ہم آپ سے نہیں کھیلیں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے سابق کرکٹرز کی آواز دب جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔بھارت میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا کر دی گئی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اور ماحول مختلف ہے۔ پاکستان کھلے دل سے خوش آمدید کہنے والوں کا ملک ہے یہ درست ہے کہ ہم جذباتی قوم ہیں لیکن اس بارے میں ہمارا موقف بھارت سے بہت بہتر ہے۔اس سلسلے میں ادلے کا بدلہ والا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ نہیں کھیلتے تو ہمیں بھی نہیں کھیلنا چاہیے۔نہ کھیلنے کے سو بہانے تراشے جا سکتے ہیں۔ بھارت سرحدی کشیدگی ، آئی سی سی میں پاکستان کے موقف یا ایشئن کرکٹ کونسل میں آواز اٹھانے کو جواز بنا سکتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اْدھر سے ہے ہم تو دفاعی پوزیشن میں ہیں۔دنیا دیکھے گی کہ دو چار سال میں بھارت کو اپنے موقف میں تبدیلی لانا پڑے گی۔کھیل تو سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا اور یہ پیار ، محبت میں اضافہ کرتے ہیں۔عوامی رابطوں سے ایک دوسرے کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

سوال:آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی اور کئی سابق ٹیسٹ کرکٹرز بی سی سی آئی پر ہرجانہ کیس کو درست نہیں سمجھتے۔آپ اس اقدام کو کیوں درست قرار دیتے ہیں ؟

رمیز راجہ: میں سمجھتا ہوں کہ پی سی بی نے صحیح فیصلہ کیا ، ہر فورم پر یہ بتانا ضروری ہے کہ بھارت کا موقف غلط ہے ، پیسہ تو بیچ میں آ ہی جاتا ہے ویسے بھارت کو بھی پیسے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پاکستان کو ہے۔البتہ ہم نے بار بار فنانس فنانس اور پیسے پیسے کا شور مچا کر اپنی عزت تھوڑی کم کر لی۔

سوال: کیا پی سی بی مختصر طرز کی کرکٹ پر زیادہ توجہ دینے سے ٹیسٹ کرکٹ کو نقصان نہیں پہنچا رہا ؟

رمیز راجہ: ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی بنیاد ٹیسٹ کرکٹ ہے ان سب کو ایک سطح پر رکھنے کے لئے ہم بہت سے پہلو بھول جاتے ہیں ، ٹیسٹ کرکٹ میں مار کھاتے رہیں گے تو دوسرے فارمیٹس کو بھی نقصان پہنچے گا۔میرے خیال میں بیٹنگ بہتر بنانے کے لئے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ دیکھتا ہوں تو کبھی پچز اور کبھی بال ٹھیک نہیں ہوتے۔نئی کھیپ تیار نہیں ہو گی تو موجودہ50 اوورز کی کرکٹ کی سطح بھی گرنے لگے گی۔حالیہ فتوحات کی وجہ نئے کھلاڑی ہیں کیونکہ فخرزماں شامل نہ کئے جاتے تو ایک ٹیمپو سیٹ نہ ہوتا پھر حسن علی کے آنے سے جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔محمد عامر کے ان فٹ ہونے سے ٹیم کو ویسی مار نہیں پڑی جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔قومی ٹیم کا ٹیسٹ سیریز کھیلنا بہت ضروری ہے۔ بورڈ کو ایک ٹیسٹ سیریز کا ایک مستقل اور مکمل شیڈول بنانا ہو گا۔

سوال:سپاٹ فکسنگ رکنے کا نام نہیں لیتی۔جن پر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں انہیں پھر ٹیم میں لے لیا جاتا ہے۔ آخر کب تک ؟

رمیز راجہ: میرے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، اگر فیصلے کااختیار میرے پاس ہوتا تو ایسے کسی بھی کھلاڑی کو دوبارہ منتخب نہ کرتا۔ اگر انتظامیہ میں کوئی نان کرکٹر ہے تو وہ شائد اس معاملے کا اندازہ بھی نہ کر سکے کہ ٹیم کے حیثیت سے کتنی بڑی زیادتی ہو رہی ہے کیونکہ نوپلیئرز جیت اور دو ہار یا کسی کے کہنے کے مطابق کھیل رہے ہوتے ہیں۔ویسے بھی پی سی بی ڈرائی کلیننگ کی دکان نہیں ہے کہ کھلاڑی غلطیاں کرتے رہیں اور ہم سب انہیں صاف کر کے پھر کندھے پر اٹھا لیں۔کوئی کھلاڑی ٹیم کے لئے لازمی نہیں ہوتا یہ بات ذہن میں بٹھانا ہو گی۔ماضی میں بھی داغدار پلئرز کی سزائیں صرف ٹیلنٹ کا سامنے رکھتے ہوئے معاف کی گئیں کہ اس سے قومی ٹیم کو فائدہ ہوگا۔ یہ با لکل غلط سوچ ہے۔ کرکٹ کا ادارہ سوسائٹی کی سدھار کے لئے نہیں ہے اس کا کام صرف اور صرف کرکٹ کا فروغ اور کرکٹرز کی دیکھ بھال ہے۔جس نے غلطی کی وہ اس کی سزا بھی بھگتے ، جائے اور کرکٹ کی جان چھوڑتے ہوئے کوئی اور کیریئر اپنائے۔کسی بھی داغدار کھلاڑی کی قومی ٹیم میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

سوال: پی سی بی ڈومیسٹک کرکٹ کا سسٹم تبدیل کرتی رہتی ہے اور آپ بھی شہروں کے درمیان کرکٹ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ کیا اس سے اچھے نتائج کی توقعات لگائی جا سکتی ہیں ؟

رمیز راجہ: کرکٹ کو بہتر اور جاندار بنانے کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کو میدان میں لانے کے لئے ریجنل کرکٹ کا سسٹم لایا گیا۔ پی ایس ایل کا ماڈل ایک مثال ہے کراچی اور لاہور کا مقابلہ ہو گا تو لوگ لازمی دیکھنے آئیں گے۔ پی ایس ایل میں سیاست نہیں ہے اور اس میں پیسہ ہے ، پلیئرز کی سلیکشن صحیح ہوتی ہے بلکہ احتساب کا نظام بھی موجود ہے ، یہی سب کچھ اس وقت کرنے کی کوشش کی تھی جب پی سی بی میں چیف ایگزیکٹو کا عہدہ میرے پاس تھا ، اس پر عمل درآمد ہو رہا تھا تو میں بورڈ سے چلا گیا تھا۔اس وقت سسٹم میں سیاست آ گئی کیونکہ ٹیموں کی تعداد بڑھانے کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ جتنی ٹیمیں کم ہوں گی اتنی ہی جاندار کرکٹ ہو گی۔ پی ایس ایل ٹیموں کی تعداد پندرہ کر دی جائے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ریجنل کرکٹ میں مذموم مقاصد والے لوگ بھی آ گئے جنہیں کھیل کی بجائے صرف نوکریاں عزیز تھیں۔ پی سی بی کو اٹل فیصلہ کرنا ہو گا لیکن میرا ووٹ اب بھی ریجنل کرکٹ کے ساتھ ہے۔کرس گیل یا کسی بھی غیر ملکی کرکٹر کے ساتھ جب معاہدہ کیا جائے تو پی ایس ایل کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کے چار میچ کھیلنے کی شرط بھی لگائی جائے۔پی ایس ایل سے ایک ہفتے پہلے کی بجائے ابھی سے کرکٹرز سے بات چیت کی جائے ورنہ عین موقع پر ان کے انکار کے بعد پیسے بڑھا دیے جاتے ہیں، پہلے تو یہ سب چل رہا تھا لیکن اب قدم آگے بڑھانا ہو گا۔

سوال: غیر ملکی لیگز کی بھرمار ہے اور پی سی بی بنا سوچے سمجھے ان او سی بھی دے رہا ہے ، ملک کی بدنامی الگ ہو رہی ہے۔ اس پر واضح موقف کیوں نہیں بنایا جاتا ؟

رمیز راجہ: میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے پلیئرزکو اس ملک میں نہیں جانا چاہئے جہاں ان کی عزت نہیں کی جاتی ، چاہے وہ کوئی ہمسایہ ملک ہی کیوں نہ ہو اگر انہوں نے کوئی سیاسی سہا را لیا ہے تو کھلاڑیوں کوبھی خیال رکھنا ہو گا۔ پاکستان کی عزت اور وقار کے لئے انکار کر دیں۔ پی سی بی بھی کچھ حد تک ان کی مالی مدد کر سکتا ہے۔یقین کریں ایک دو لیگز تو پاکستانی پلیئرز کے نہ ہونے سے ختم ہو سکتی ہیں۔موجودہ دور میں کرکٹ کافی بدل چکی ہے ایک کرکٹر کو کھیل بہتر بنانے کے ساتھ ویلفیئرکے کام ، کرکٹ کی تاریخ اور بات کرنے کا سلیقہ آنا ضروری ہے۔دوسری زبانیں سیکھیں یا کم سے کم اردو کو تو بہتر تلفظ کے ساتھ بولنے کافن آنا چاہئے۔دوسرا پاکستانی کھلاڑیوں کو اب ٹینس پلیئرکی طرح اپنی فٹنس اور سوشل میڈیا ٹیم رکھناہو گی اپنی ذات پر پیسے لگائیں گے تو فٹ بھی رہیں گے۔ پاکستان کی طرف سے موقع نہیں ملتا تو لیگز کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں۔

سوال: ٹی ٹین سے ٹیسٹ کرکٹ کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟

رمیز راجہ: نئی چیز ہے اسے تھوڑا وقت دیناہو گا۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ویک اینڈ کرکٹ ہے۔ ایک ہی دن میں ستر اسی ہیروز شائقین کو دیکھنے کو ملتے ہیں۔پھر اولمپکس اور امریکہ میں بھی جا سکتی ہے۔ ایم سی سی کی کرکٹ کمیٹی ٹی ٹین کمنٹری کے دوران ہی اس طرز کی کرکٹ پرمیری رائے لیتی رہی ہے۔جہاں تک ٹیسٹ کرکٹ کا تعلق ہے تو ٹی ٹین سے یا ٹی ٹونٹی سے نہیں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ کے رکھوالوں سے ہی اسے نقصان پہنچ رہا ہے اور ٹیسٹ چیمپئن شپ کا سسٹم کو سمجھنے میں طویل وقت لگا ہے۔

سوال:فٹنس کے بڑھتے ہوئے مسائل پر کیاکہیں گے ؟

رمیز راجہ: اب فٹنس مجموعی طور پر بہتر ہوئی ہے اور 37سال کا کھلاڑی بھی فیلڈ میں سپر فٹ دکھائی دیتا ہے لیکن سب سے اہم ترین چیز انڈر نائن ٹین کرکٹ ہے۔ نوجوانوں کا رول ماڈل اور کوئی بہترین سابق کرکٹر اس کام پر لگانا چاہیے ، جو بچوں کو ہر پہلو سے جانتا ہو یہاں تو ہر سال نیا کوچ لگا دیا جاتا ہے

سوال: کلب کرکٹرز نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا سکتے ؟

رمیز راجہ: پاکستان کے اصل ہیرو کلب چلانے والے لوگ ہیں ، بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں انہیں کلبوں میں لاتے ہیں۔ اگر لاہور کے دس بہترین کلب منتخب کئے جائیں اور انہیں ہفتے میں دو دن این سی اے میں آنے کی اجازت دی جائے تو نوجوانوں کا حوصلہ کتنا بلند ہو گا ، ان کے کوچز بھی یہاں سینئر کوچز سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بروقت نوجوانوں کے بولنگ اور بیٹنگ ایکشن درست کئے جا سکتے ہیں۔وہ اکیڈمی میں اپنے ہیروز کو دیکھیں گے تو بڑا کھلاڑی بننے کی امنگ پروان چڑھے گی۔میرا دل دکھتا ہے جب اکیڈمی میں فکسرز کے خلاف تحقیقات ہوتی ہے وہ سینہ پھلائے باہر نکلتا ہے اور دوسرے سب لوگوں کو غلط کہتے ہوئے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعد ازاں اس پر الزام ثابت بھی ہو جاتا ہے۔ یہ سب افسوسناک ہے کیونکہ اکیڈمی کا کام کرکٹ کا فروغ اور کھلاڑی تیار کرنا ہے ، سپاٹ فکسنگ کی کمیٹی کہیں اور بٹھائی جائے۔ اس سے ماحول بھی خراب ہوتا ہے اور ذہنوں پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا۔

سوال: کمنٹری کی طرف کیوں آئے اور کوچنگ کے شعبے کا انتخاب کیوں نہیں کیا ؟

رمیز راجہ: کرکٹ سے الگ ہونے کے دور میں پاکستان میں کمنٹری اور کوچنگ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔پہلی بار کمنٹری کی پیشکش ہوئی تو گھر سے بھی مخالفت کی گئی۔ اب کوچنگ اور کمنٹری آرٹ بن چکے ہیں۔ اگلے چند سالوں میں پاکستان میں بھی اچھے کوچز سامنے آئیں گے ابھی تک تو میرا ووٹ غیر ملکی کوچ کے ساتھ ہے کیونکہ اس سے سیاست کم سے کم ہو جاتی ہے ، جن ڈریسنگ رومز کا میں حصہ رہا وہاں عمران خان کے جانے کے بعد سیاست زوروں پر شروع ہو گئی تھی۔میرے خیال میں پلیئرز کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔ بنچ مضبوط تھا تو فخرزماں اور حسن علی آ گئے۔ ایک دوسال رگڑا کھانے کے بعد ٹیم بن گئی ہے کوئی بھی پرانا کھلاڑی ٹیم کے لئے لازمی نہیں ہے۔ نیا چہرہ آئے گا تو ایک دو سیریز میں ہارنے کے بعد ٹیم بن جائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔