اچھوتے چورن کی ضرورت

نصرت جاوید  بدھ 20 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

27دسمبر2012ء کے روز بڑی تیاریوں کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری سے گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعہ پر ایک بھرپور اور جوشیلی تقریر کروائی گئی تھی۔اس تقریر کے بعد تاثر کچھ اس طرح کا پھیلایا گیا کہ اپنی حکومت کی آئینی مدت مکمل کرلینے کے بعد نئے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے صدر زرداری اپنی جماعت کی کمان عملی طور پر اپنے بیٹے کے سپرد کردیں گے ۔مگر اب تک ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔راجہ پرویز اشرف اور ان کے بااعتماد ساتھی ہی عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے ۔

جنوبی پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کا فیصلہ یوسف رضا گیلانی کریں گے ۔پنجاب کے فیصلے فی الوقت میاں منظور وٹو ہی کر رہے ہیں ۔خیبرپختون خواہ میں فیصلہ سازی عملاً انور سیف اللہ کے اختیار میں ہے۔ بلوچستان میں کون ہے ؟ کم از کم مجھے تو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں اور سندھ کے حوالے سے سوچتے اب بھی آصف علی زرداری ہیں مگر نام فریال تالپور کا لیا جاتا ہے ۔چند روز پہلے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کھڑے ہوکر زرداری صاحب نے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ آیندہ انتخابات کے دوران پارٹی کی انتخابی مہم سابق وزیر اعظم چلائیں گے۔ اس سے تو یہ خیال مزید گہرا ہوتا ہے کہ شاید بلاول بھٹو زرداری انتخابی جلسوں میں تقاریر  وغیرہ بھی نہیں کریں گے ۔

اگر تو میں جس شک کا اظہار کر رہا ہوں وہ درست ثابت ہوتا ہے تو 1967ء کے بعد یہ پہلا موقعے ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک کرشمہ ساز Crowd Pullerکے بغیر ووٹ اکٹھے کرنے کی جنگ لڑرہی ہوگی ۔پیپلز پارٹی سے اندھی نفرت یا محبت سے بالاتر ہوکر اگر ٹھنڈے ذہن سے اس ممکنہ صورت کاجائزہ لیں تو یہ ایک بہتر فیصلہ بھی نظر آتا ہے ۔آصف علی زرداری نے اپنے اچھے اور بہت ہی بُرے دنوں کے دوران اقتدار کی سیاست کے بارے میں جو کچھ سیکھا تھا اس سب کو انھوں نے گزشتہ پانچ سال میں بڑی ذہانت کے ساتھ استعمال کیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باوجود انھیں قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت نہیں ملی تھی۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی وہ اپنے طور پر حکومت نہ بنا سکے تھے ۔صرف اور صرف اقتدار کے کھیل کی باریکیوں کو پوری طرح سمجھتے ہوئے پھر بھی انھوں نے اپنا وزیر اعظم بنوایا۔سندھ میں قطعی اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کو ہر طرح کے سمجھوتے کرتے ہوئے اپنے ساتھ رکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ان میں اور نواز شریف میں پہلے جدائی اور پھر کھلی مخاصمت سامنے آگئی تو اپنے اتحادیوں کے ناز اُٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنی جماعت کے اقتدار کو محفوظ بنائے رکھا ۔اسی سارے عمل میں انھوں نے اپنی ذات اور جماعت کے لیے مخالفت اور الزامات  کے سوا اور کچھ حاصل نہ کیا۔

مگر طویل المدتی تناظر میں دیکھیں تو آیندہ انتخابات کے بعد بھی ان کی جماعت ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت رہے گی۔ اگر ایم کیو ایم اور اے این پی کے سینیٹر اس جماعت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلینے کے بعد بھی آیندہ کی حکمران جماعت کو اس تعداد کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ایسے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک بار پھر سندھ میں مخلوط حکومت بناکر بیٹھے رہے تو 18ویں ترمیم کے باعث آیندہ حکمرانوں کو بہت سارے معاملات میں من مانیوں کے بجائے سمجھوتے کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔

آیندہ کے سیاسی منظر نامے کے ان تمام پہلوئوں کو اگر ہم اچھی طرح سمجھ پائیں تو بلاول بھٹو زرداری کو اس وقت پیپلز پارٹی کا بااختیار رہ نما بناکر عوام کے سامنے نہ لانے کا فیصلہ سیاسی طور پر بڑا مناسب نظر آتا ہے ۔قلیل المدتی تناظر میں یہ بلاول بھٹو زرداری کی ’’انتخابی کشش‘‘ کو 2013ء میں بے نقاب نہیں کرتا ۔اس ’’کارڈ‘‘ کی حقیقت نہیں کھولتا اور اس کے امکانات کے بارے میں سسپنس کو آیندہ انتخابات تک برقرار رکھتا ہے ۔ویسے بھی یہ بڑی غیر ناانصافی ہوتی کہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں گیلانی ،راجہ پرویز اشرف اور ان جیسے بہت ساروں کے ’’کارنامے‘‘ تھماکر لوگوں سے ووٹ مانگنے بھیج دیا جاتا اور وہ تقریباً خالی ہاتھ لوٹ کر آیندہ کئی سال اداسی اور پریشانی میں گزاردیتے ۔

قمر زمان کائرہ اپنے حلقے میں اب صرف اپنے بل بوتے پر جائیں گے ۔وہاں سے کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں لوٹے تو سیاسی طور پر ان کا قدکاٹھ آج کے دنوں سے کہیں زیادہ بلند ہوجائے گا ۔کچھ ایسی ہی صورت ندیم افضل چن اور نذرگوندل جیسے لوگوں کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے ۔خورشید شاہ کے اپنے ارادے تو سندھ کے آیندہ وزیر اعلیٰ بننے کے ہیں ۔مگر وہاں کے روایتی وڈیرے ان کے اتنے خیر خواہ نہیں ہیں۔ صدر زرداری کو بھی ان کی ’’خودمختیاریاں‘‘ زیادہ نہیں بھاتیں۔ایک حلقے کی تو بڑی کوشش ہے کہ تھانہ بولا خان سے مظفر اویس ٹپی کو سندھ کی اسمبلی میں لاکر آیندہ دنوں میں ان کے ’’انتظامی تجربات‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے ۔

مگر میرا اپنا خیال ہے کہ انتخابی نتائج آجانے کے بعد پیپلز پارٹی میں فیصلہ سازی کرنے والی ٹیم کے ضمن میں شدید اکھاڑ پچھاڑ ہوگی۔بہت سارے تاج گرے اور اُچھلیں گے۔ اصل سوال مگر یہی اُٹھے گا کہ لاہورسے جنم لینے والی یہ جماعت پنجاب کے شہروں میں مقیم متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے متحرک عناصر کے ساتھ اپنا رشتہ کیوں برقرار نہ رکھ پائی۔شاید اس وقت بلاول بھٹو زرداری کوئی اچھوتا’’چورن‘‘ متعارف کروا پائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔