عمران خاں کی نئی اڑان

اسد اللہ غالب  بدھ 20 مارچ 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

یہ تحریک انصاف کا میڈیا آفس تھا، لاہور ایڈیٹرز کلب کے ارکان عمران خاں کا انتظار کر رہے تھے اور عمران کا جہاز اسلام آباد سے لاہور آنے کے لیے ہر آدھ گھنٹے بعد مزید آدھ گھنٹہ لیٹ ہو رہا تھا، اس دوران اسد عمر اور شفقت محمود نے گفتگو میں مشغول رکھا۔ مگر ہم تو عمران کی باتیں سننے کے لیے گئے تھے، عمر چیمہ سے الگ وقت لیں گے اور شفقت صاحب سے کہیں گے کہ وہ علیحدہ شفقت فرمائیں۔ تریپن منٹ کی تاخیر سے عمران خان بھی پہنچ ہی گئے ۔ نعیم الحق ان کے ساتھ تھے، میں نے علیم خان کے گھر ضیافت میں انھی سے کہا تھا کہ وہ ہمارے لیے وقت نکالیں۔

میڈیا آفس کے نوجوان عدیل صاحب نے الگ کوشش جاری رکھی، ایک فرمائش کے لیے انھوں نے منور صاحب کو آگے کر دیا، یہ دوست تو پی ٹی سی ایل میں تھے اور انٹرنیٹ کے تیز رفتار ڈی ایس ایل کنکشن لگایا کرتے تھے، انسان روزگار کے لیے کہاں جا پہنچتا ہے مگر منور کو اچھی جگہ پر دیکھ کر خوشی ہوئی۔ان کی خواہش تھی کہ لاہور کے ایڈیٹرز، ان کا میڈیا دفتر بھی دیکھیں اور ان کی بات مانتے ہی بنی۔کیولری گرائونڈ میں ایک خاموش کونہ میڈیا آفس کے لیے مخصوص ہے۔نوجوان بڑے انہماک سے اپنے کاموں میں مصروف تھے، ایسے ہی نوجوان ملک بھر میں عمران خاں کے نعرے لگا رہے ہیں اور تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔

عمران نے پندرہ منٹ تک ابتدائی گفتگو کی۔اور پھر سوال جواب کا سلسلہ پون گھنٹہ پر محیط رہا، ہر کام ڈھنگ سے انجام پا رہا تھا اور وقت ختم ہوا تو ایک منٹ میں یوں لگا جیسے یہاں کوئی تھا ہی نہیں ، سب کو بھاگنے کی جلدی تھی مگر میں نے تو اپنا کام وہیں نبٹا لیا تھا۔عمران خاں نے اس پھرتی کی ستائش کی۔انٹرنیٹ بھی ٹی وی کی طرح لائیو نشر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔اور پاکستان میں ٹی وی کے آنے سے پہلے سے سرگرم ہے۔

شفقت محمود نے سوشل میڈیا کی مقبولیت اور پذیرائی کے سلسلے میں کہا کہ ٹوئٹر پر عمران کے ساتھ پانچ لاکھ افراد منسلک ہیں اور اگر ان میں سے ہر کوئی کسی ایک شخص تک ان کا پیغام فارورڈ کرے تو چند منٹوں کے اندر دس لاکھ لوگوں تک رسائی ہو جاتی ہے،یہی حساب لاہور کے جلسے کے بارے میںلگایا جا رہا ہے جس میں اسی ہزار نو منتخب ارکان نے حلف لینا ہے، ایک اندازہ ہے کہ ادھر ہر کارکن دس دوستوں کو ساتھ لے آیا تو لاہور میں تیئیس مارچ کو اسی لاکھ لوگوں کا سونامی ٹھاٹھیںمارتا نظر آئے گا۔ سونامی کی اصطلاح پر ایک دوست نے اعتراض کیا کہ یہ تو تباہی اور بربادی کی علامت ہے، کیا آپ اس کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال نہیں کر سکتے۔

عمران نے کہا،اللہ نے پاکستان کو ایک ایسے مقام پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے تبدیل ہونا ہے یا تباہ ہونا ہے، ہماری کوشش ہے کہ تبدیلی آئے اور اسٹیٹس کو قائم نہ رہے۔اسٹیٹس کو یہ ہے کہ مولنا فضل الرحمن مشرف کے ساتھ تھے، پھر زرداری کے ساتھ رہے ، اب نواز کے ساتھ چلے گئے، ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ تیئیس مارچ کا سونامی نوجوان نسل کے لیے تبدیلی کی خوشخبری ثابت ہو گا۔عمران میرٹ کی بات کرتا ہے تو اس پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار ہے، اس نے کہا ہے کہ جو جماعت حکومت میں رہی ہے ، اس سے اتحاد نہیں ہو گا نہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی۔

ایسے نہیں ہو گا کہ کے پی کے میں جماعت اسلامی ہمارے ساتھ اتحاد کرے اور پنجاب میں ن لیگ کے ساتھ چلے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک فارمولا چلے گا، ایک اصول پر عمل ہو گا۔صرف سندھ اور بلوچستان میں استثنائی صورت حال ہے، وہاں کے فیصلے بھی سوچ سمجھ کر ہوں گے۔وہ سفارش، دھن ، دھونس سے متنفر ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس نے شوکت خانم میں کروڑوں روپے کا عطیہ دینے والے کے کہنے پر ایک سفارش کی تھی مگر اسپتال کے بورڈ نے اسے مسترد کر دیا، یہی نظام پورے ملک میں ہوناچاہیے، پولیس اور انتظامیہ کو دبائو سے آزاد ہونا چاہیے، کراچی میں خونریزی کا اصل سبب یہی ہے کہ وہاں پولیس کسی نہ کسی کی جیب میں ہے، ارکان اسمبلی کو حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ علاقے کے تھانیدار لگوائیں یا تبدیل کروائیں۔

ان کو ترقیاتی فنڈز کے نام سے پیسہ بھی نہیں ملنا چاہیے، ان کا اصل کام تو قانون سازی ہے جسے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔میں نے ایک واضح تبدیلی محسوس کی جس سے عمران گزر رہا ہے، وہ ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔اس کی سوچ میں پختگی آتی جا رہی ہے۔وہ بھارت سے دوستی کے تعلقات کا خواہاں ہے مگر کشمیر کو ،کور ایشو ہی سمجھتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ فوج یا شدت پسندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ایسی کوششیں ہم نے بہت کر دیکھیں۔امریکا کے ساتھ بھی برابری کے تعلقات کا حامی ہے، اس سے امداد لینے کے حق میں نہیں تاکہ امریکا کوئڈ پروکو کے لیے نہ کہہ سکے۔

اس کا خیال ہے کہ ڈرون مارچ کے بعد مغربی دنیا کا شعور بیدار ہوا ہے اور ڈرون کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ عمران ،افغانستان میںمداخلت کے بجائے غیر جانبدارانہ پالیسی کے حق میں ہے۔ملک میں جاری لوٹ کھسوٹ کے خلاف عمران نے شروع ہی سے احتجاج کیا ہے، اس نے کہا ہے کہ اگر لوگوں کو یقین ہو کہ ان کا دیا گیا ٹیکس صحیح جگہ پر استعمال ہو گا تو وہ ٹیکس چوری نہیں کریں گے اور یوں حکومت کو جس خسارے کا سامنا ہے، اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔حکومتی اللے تللوں پر قابو پانا بھی عمران کی خواہش ہے، وہ سرکاری محلات کی جگہ اسکول ، اسپتال بنانے کے حق میں ہے۔

ایسا نعرہ شہباز شریف نے بھی لگایا تھا مگر افسر شاہی نے ان کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا، دیکھئے عمران کیسے ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم اور گورنر ہاؤس پر بلڈوزر چلاتا ہے لیکن اگر چل گیا تو یہ حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو گا۔وہ وفاقی کابینہ کی تعداد بھی محدود رکھنے کا داعی ہے، صرف اٹھارہ وزیر، یعنی ایک کروڑ میں سے صرف ایک وزیر۔کافی کٹھن کام ہے مگر کرنے کا ہے، چین میں وزیر کم ہیں اور اب ریلوے کی کرپشن کی وجہ سے اس کی وزارت ہی ختم کر دی گئی ہے۔عمران کو جذباتی کرنا مشکل کام ہے، سوال ہوا کہ ڈاکٹر قادری الیکشن کے روز دھرنے دیں گے۔

عمران نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ جانتے ہیں نہیں، سوال دہرایا گیا بلکہ تڑکا لگا کر کہ الیکشن کو روکنا تو بغاوت ہے۔ عمران نے کہا کہ ہم ڈاکٹر صاحب کو سمجھائیں گے کہ وہ خود بھی ووٹ ڈالیں اور کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہ روکیں، ورنہ اسٹیٹس کو والے کامیاب ہو جائیں گے۔عمران نے کرکٹ کے کھیل میں ہر طرح کے گیند کا سامنا کیا ہے۔مگر کیا وہ سیاست اور صحافت کے لوڈڈ سوالوں کا سامنا بھی کر سکتا ہے، پتہ چلا کہ وہ تو اس میدان کا شناور ہے۔جب ایک ساتھی کی طرف سے اس پر سیدھا الزام لگایا گیاکہ وہ تو انتہا پسند ہے تو اس نے کھردرے لہجے میں کہا ، ہاں میں انتہا پسند ہوں۔تان یہاں پر ٹوٹی کہ اکثریت لینے کی صورت میں صدر زرداری سے حلف نہیں لیں گے تو یہ بسم اللہ ہی محاذ آرائی سے ہو گی، عمران نے کہا کہ یہ تو ہو گا، ایک اصولی بات ہے۔

عمران خان کے ساتھ اور بھی باتیں ہوئیں ، ان کا ذکر آیندہ ہوتا رہے گا۔ سر دست ایک بار پھر ایم ایم عالم مرحوم و مغفور کا ذکر، صبح سویرے اسلام آباد سے فون آیا کہ عالم بنگالی تھے، ان کو اکہتر میں جہاز اڑانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ایئر فورس سے رابطہ کر کے تصدیق چاہی، پتہ چلا کہ وہ بہاری تھے اور اکہتر میں انھوں نے خود بھی جہاز اڑائے اور آپریشن کی کمان بھی کی۔ ایک اسی سالہ بزرگ کی طرف سے ای میل آئی کہ میں عالم مرحوم کا پچپن کا ساتھی ہوں ،ساتھ کھیلا ،پڑھا، پوری زندگی اکٹھے گزاری۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ تفصیل قلم بند کر کے بھیجیں گے، یہ ایک قیمتی اضافہ ہو گا ایم ایم عالم جیسے قومی ہی نہیں، عالمی ہیرو کی زندگی کو سمجھنے کے لیے۔

ایئرفورس والوں نے بتایا کہ یہ پراپیگنڈہ ہے کہ ایم ایم عالم بے کسی اور گوشہ تنہائی کا شکار رہے۔موجودہ ایئر چیف طاہر رفیق بٹ پل پل ان سے باخبر رہے، کراچی جاتے تو ان کے قدموں کو چھوتے۔ایم ایم عالم مسرور بیس میں رہے اور بحریہ کے شفا خانے میں علاج کے لیے داخل ہوئے، مگر زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایئر چیف نے ان کی میت کو کندھا دیا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین عمل میں آئی۔ ان کی قبر پر گل و گلزار کھلے رہیں اور قبر کے اندر ان کی روح رحمت ربانی سے سرشار رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔