پیٹ کے کیڑے، بچوں کی صحت کے دشمن

اہلیہ محمد فیصل  پير 8 جنوری 2018
جب تک صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے اس سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جب تک صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے اس سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

بچے عام طور پر پیٹ کے امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ امراض کے علاوہ پیٹ میں کیڑے بھی پڑجاتے ہیں۔ یہ یک خلوی کیڑے ناک اور منھ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اطباء اور حکماء انھیں مختلف اقسام میں بانٹتے ہیں۔ کدو دانے ،کیچوے ،چھوٹے کیڑے (چنے) اور چمونے ،انگریزی میں انھیں پن ورمز، راؤنڈ ورمز، ٹیپ ورمز اور ہک ورمز کے نام دیے جاتے ہیں۔

ماہرین طب کہتے ہیں کہ پانچ سے نو سال کے بچوں میں پیٹ میں کیڑے پڑجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اسکول میں بچے ایک دوسرے کھانے پینے کی چیزیں لیتے ہیں، اسی طرح وہ آپس میں بہت سی چیزوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ اس دوران جراثیم ایک سے دوسرے کے جسم پر منتقل ہوجاتے ہیں، اور بیماریوں کے علاوہ پیٹ کے کیڑوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

آج کل بچوں میں بازار کی چیزیں مثلاً ٹافیاں، چاکلیٹ، پاپڑ وغیرہ کھانے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ سب ہی چیزیں غیرمعیاری اور مضر ہوتی ہیں۔ ان کے کھانے سے بچے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ان کے پیٹ میں کیڑے بھی پڑ سکتے ہیں۔ بعض بچوں میں مٹی، کاغذ اور چاک وغیرہ کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ اس سے بھی پیٹ میں کیڑے پڑ سکتے ہیں۔

بچے کے پیٹ میں کیڑے پڑجانے کی عمومی علامات میں پیٹ میں درد ،مقعد اوراس کے اردگرد شدید خارش شامل ہیں۔ خارش کے باعث بچہ دن بھر پریشان ہوتا ہے اور اس کی نیند میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پڑھائی بھی متأثر ہوتی ہے کیوں کہ وہ اسکول میں پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ میں مسلسل درد رہنے اور خارش کے باعث وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لے پاتا۔

عمومی علامات کے علاوہ دانت کچکچانا ،کھانے کی طلب بڑھ جانا، میٹھا رغبت سے کھانا،خون کی کمی ، رنگت کا زرد پڑ جانا اس بیماری کی خصوصی علامات ہیں۔ یہ کیڑے رات کے وقت جسم پر باہر آجاتے ہیں۔ سفیدی مائل رنگت ہونے کی وجہ سے نمایاں بھی نہیں ہوتے۔ یہ جسم پر انتہائی چھوٹے انڈے بھی دیتے ہیں۔ ان کے جسم پر رینگنے اور کاٹنے کے باعث بچے بے اختیار کھجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران کیڑوں کے انڈے بچوں کے ناخنوں میں گھس جاتے ہیں،اور پھر یہی انڈے خود انھی بچوں کے منہ کے راستے یا ناک کے راستے جسم میں داخل ہوتے ہیں،یا دوسروں کو منتقل ہوتے ہیں۔

پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے لیے دوائیاں موجود ہیں مگر جب تک صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے اس سے مکمل نجات ممکن نہیں۔

یہ مرض ایک معتدی (پھیلنے والا) مرض ہے اس لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے جیسے بچوں کو روزانہ نہلانا یا انھیں نہانے کی ہدایت کرنا، روزانہ کپڑے بدلنا، ان کی انگلیوں کے ناخنوں کی صفائی کرنا اور تراشنا، گھر میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا، بستر جھاڑنا اور ہر دوسرے روز تبدیل کرنا، تولیہ ہر روز بدلنا، سبزیاں اور پھل اچھی طرح دھوکر استعمال کرنا، بچوں کو ننگے پاؤں باہر نہ جانے دینا وغیرہ۔

پیٹ کے کیڑوں سے خلاصی کے لیے چندگھریلو ٹوٹکے کارآمد ثابت ہوتے ہیں: پانچ گرام پسا ہوا دھنیا لے کر اس میں تھوڑی سی چینی ملا کر صبح و شام کھلائیں، انارکے چھلکوں کو پیس کر خشک کرلیں اور ایک چمچہ پانی کے ایک گلاس میں ملا کر پلائیں۔

کچے پپیتے کا جوس نکال لیں اور ایک چمچہ شہد ڈال کر پلائیں۔کسی بھی ایلوپیتھی یا ہومیوپیتھی کیڑوں کی دوائی کے استعمال سے پہلے چینی کا ایک چمچہ بچے کو کھلائیں۔ اس کے پندرہ منٹ بعد دوا پلائیں،اس طرح دوا زیادہ کارکردگی دکھائے گی۔ ماحول کی آلودگی اور کثافت کے پیشِ نظر ماہرین امراض شکم ہر چھے ماہ بعد ہر عمر کے فرد کو کیڑوں کی دوا لینے کامشوہ دیتے ہیں۔  n

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔