کشکول توڑکر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے ملکوں سے روابط بڑھانا ہونگے

امریکی الزامات پر سیاسی و عسکری قیادت ملکر فیصلہ کرے۔ فوٹو؛ ایکسپریس

امریکی الزامات پر سیاسی و عسکری قیادت ملکر فیصلہ کرے۔ فوٹو؛ ایکسپریس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منصب صدارت سنبھالنے سے قبل بھی اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جو انتہائی متنازع بنے اور جن پر ابھی تک بحث و مباحثہ جاری ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے خلاف ٹرمپ کا یہ بیان سامنے آیا کہ ’’ہم نے پاکستان کو 33بلین ڈالر کی امداد دے کر غلطی کی، پاکستان نے ہمیشہ ہم سے جھوٹ بولا اور ہمیں دھوکا دیا۔ پاکستان امریکی حکمرانوں کو بے وقوف سمجھتا ہے‘‘۔ اس بیان سے دنیا بھر میں جہاں پاکستان دشمنوں کی عید ہوگئی تو دوسری جانب پاکستان میں اور پاکستان کے باہر موجود پاکستانی ٹرمپ کے اس غیرمہذب بیان پرمتحد ہوگئے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے یک زبان ہوکر ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کردیا ہے اور سب نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکا سے برابری کی بنیاد پر ہر بات کرنے کیلیے اپنی پالیسیاں بنائے۔

ٹرمپ کے اس بیان اور امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اتنی سردمہری اور تنگ نظری کے رویے پر عالمی منظرنامہ کیا بنے گا؟، اس صورتحال میں پاکستان کی پالیسی اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟، کیا واقعی ٹرمپ پاکستان کے خلاف عملی طور پر کوئی بڑی کارروائی کرسکتا ہے؟، یہ اور ایسے بہت سے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں اور ہر پاکستانی اس حوالے سے اپنی رائے رکھتا ہے ۔ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال پر کراچی میں ’’ایکسپریس فورم‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں کلی اُن شخصیات نے اظہار خیال کیا جو بین الاقوامی امور کو بھی بہتر سمجھتی ہیں۔ ’’ایکسپریس فورم‘‘ رُوداد نذر قارئین ہے۔

جاوید جبار (سابق وفاقی وزیر اطلاعات، ماہر امورخارجہ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکام کے پاکستان کے خلاف الزامات کے بعد ملکی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال پر عالمی برادری اور دوست ممالک کو اعتماد میں لے ۔اس حوالے سے مربوط حکمت عملی کے تحت سفارتی رابطے کیے جائیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے ۔اس جنگ میں ہم نے بڑی جانی ومالی قربانیاں دی ہیں اور عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں سے آگاہ ہے ۔پاکستان کو امریکی انتظامیہ کے حالیہ الزامات کے بعد جذباتی فیصلوں  کے بجائے تحمل اور تمام حالات کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی صدر 20 جنوری 2017 سے اگست 2017 تک صرف 8 ماہ میں ایک ہزار جھوٹ بول چکے ہیں ۔امریکی صدر کو خود امریکی اخبار نے جھوٹا قرار دیا ہے۔امریکی صدر کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے ۔ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں کے سبب عالمی سطح پر کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا ہے تاہم حالات ایسے نہیں ہیں کہ دنیا کسی بڑی جنگ عظیم یا بڑی جنگ کی طرف جائے۔عالمی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے۔ امریکا سمیت کسی ملک میں ایسی ہمت نہیں کہ وہ بلاوجہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ شروع کردے ۔امریکا پاکستان پر معاشی پاپندیاں تو لگا سکتا ہے یا امداد روک سکتا ہے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے جنگ شروع کردے یا اس پر کوئی سرجیکل اسٹرائیک کرے ۔پاکستان کا دفاعی نظام مضبوط ہے اور ملک کی افواج ہر خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد روکی ہے تو ہم کو امریکا کاشکریہ ادا کرناچاہیے ۔پاکستان کو اب موقع مل گیا ہے کہ وہ امریکی امداد کی بندش کے بعد پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلیے جامع پالیسی بنائے ۔ امریکا کا عالمی معاشی نظام میں بڑا عمل دخل ہے ۔اگر امریکا نے پاکستان پرکوئی پابندیاں لگائیں بھی تو اس سے پاکستان معاشی طورڈیفالٹ نہیں ہوگا ۔پاکستان کے پاس بہت قدرتی وسائل موجود ہیں ۔اگر حکومت مربوط حکمت عملی کے تحت ان کا وسائل کا استعمال کرے تو ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے ۔پاکستان کو درآمدات کے بجائے اپنی برآمدات بڑھاناہوگی ۔اس کیلیے امریکا کے علاوہ دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات مستحکم بنانے ہوں گے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم امریکا سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں اوراپنی قومی سلامتی کی پالیسی کے مطابق فیصلے کریں ۔ پاکستان کادفاعی نظام امریکا کا محتاج نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں پوری قوم اور سیاسی قیادت کو متحد ہوناہوگا کیونکہ اتحاد واتفاق سے ہی ہم امریکا کامقابلہ کرسکتے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی قیادت کو اپنے اندر خود اعتماد پیدا کرنا ہوگی ۔کشکول کو توڑ کر اپنے فیصلے دوسروں کی مدد سے کرنے کے بجائے خود کرنا ہوں گے ۔ امریکا نے ایران پر پابندیاں لگائیں تو انھوں نے مربوط حکمت عملی کے مطابق حالات کامقابلہ کیا پاکستان کو بھی اس طرح پالیسی بنانی چاہیے ۔

جمیل احمد خان (سابق پاکستانی سفارت کار ،ماہر امور خارجہ)

ٹرمپ نے پاکستان کے حوالے سے اپنی سابقہ حکومتوں کی پالیسی کا تسلسل جاری رکھا ہے ۔ امریکی الزامات نئے نہیں ہیں،سابق صدر بارک اوبامہ شائستہ زبان میں یہ مطالبات دہراتے تھے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر اخلاقی زبان میں ڈومور کررہے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ان کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صدر بنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے وہ ان کو پورا کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مقبوصہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے ،شمالی کوریا اور ایران سے متعلق حالیہ امریکی صدر کی پالیسیاں اس کی واضح مثالیں ہیں ۔انھوں نے کہا کہ امریکی حکومت کی حالیہ خارجہ پالیسی کو ان کے 70 سے زائد اہم ماہرین نے تیار کیا ہے ۔

امریکی صدر کا پاکستان پر دباؤ بڑھنا بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے ۔ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے ۔امریکی صدر اور دیگر کے حالیہ الزامات کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مل کر اپنی پالیسی بنانی چاہیے ۔اس صورتحال میں اگر امریکا نے پاکستان پر کسی بھی طریقے سے ممکنہ طور پر حملہ کرنے کی کوشش کرے توپاکستان کی جانب سے امریکا کو اس حملے کا بھرپور جواب دینا چاہیے ۔

پاکستان کو امریکی بیانات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر دوست ممالک اور عالمی برادری کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔وفاقی حکومت کو اس حوالے سے سفارت کاری کے ذرائع استعمال کرنا ہوں گے ۔امریکی الزامات اور دھمکیوں کے بعد پاکستان کی قیادت کوچاہیے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لے ۔اگر امریکا ہماری قدر نہیں کرتا ہے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر امریکا نے پاکستان پر معاشی پاپندی لگائی تو اس صورتحال میں ہماری معیشت اتنی مستحکم نہیں ہے کہ وہ زیادہ عرصے تک اس کا مقابلہ کرسکے ۔میری رائے ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں آنے والی کشیدگی کو ’’موثر سفارتی رابطوں ‘‘کے توسط سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے دنیا میں تیسری جنگ عظیم کا خطرہ فی الحال نظر نہیںآرہا تاہم اگر مسقبل میں کوئی جنگ ہوئی تو وہ عام نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی جس کی دنیا متحمل نہیں ہوسکتی ۔اس لیے امریکا کبھی نہیں چاہیے گا کہ دنیا میں دوبارہ کوئی جنگ عظیم ہو۔ پاکستان پر ٹرمپ انتظامیہ نے کوئی معاشی پایندی لگائی تو اس صورتحال میں پاکستان سے زیادہ معاشی تعاون چین کرسکتا ہے جو اس وقت ہمارا مخلص دوست ہے تاہم خلیجی ممالک سے ہم زیادہ توقعات نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ سب امریکا کے زیر اثر ہیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز سے رجوع کرے ۔جنگ مسائل کا حل نہیں، مذاکرات سے معاملات کوحل کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کو روس اور دیگر عالمی ممالک سے بھی تعلقات کو بڑھانا چاہیے ۔ٹرمپ کے بیان نے پوری قوم کو متحد کردیا ہے ۔ اب ہمیں اپنے معاشی نطام کو اتنا مربوط بنانا چاہیے کہ ہم کسی امداد کے محتاج نہ ہوں اور کوئی ملک ہمیں ڈومور کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔

پروفیسر مونس احمر (پروفیسر بین الاقوامی امور، جامعہ کراچی)

مجھے ٹرمپ کے بیان پر حیرت نہیں ہوئی ۔ جب سے وہ امریکا کے صدربنے ہیں اس وقت سے ان کاپاکستان کے بارے میں رویہ مثبت نہیں رہا۔اگست میں افغانستان اورجنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی اوراب کے بیان میں یکسانیت ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں تعاون نہیں کررہا۔

امریکی صدر کا یہ بیان پاکستان کے لیے نئے سال کاتحفہ ہے۔آپ 2018میں اس کے لیے تیارہوجائیں، اگروہ صدررہے توپاکستان کے بارے میں لچک یاسنجیدہ سوچ کافقدان رہے گا۔ ان کے اردگرد کے لوگ اور یواین میں میں امریکی نمائندہ اوران کے آس پاسکے سرکل میں انڈیاکااثرورسوخ کافی زیادہ ہے ۔

موجودہ صورتحال میں ہمیں حقیقت پسندانہ سوچ اپنانی ہے۔ حقیقت اورتصورمیں فرق ہوتاہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان امریکاکے خلاف کوئی یوٹرن نہیں لے سکتا۔ ہمارے نظام کا امریکا پر انحصار ہے، اگرامریکاامدادروکنے سے آگے جاتاہے اور امریکا نے ویزے بند کردیے توپاکستانی اشرافیہ کے پیرسے زمین نکل جائے گی۔ ان کے مفادات امریکااورمغرب میں ہے۔ پاکستان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ امریکا سے کھل کر لڑے۔

ہم نے اسامہ کے وقت امریکا کاکیابگاڑلیا؟قومیں وہ اسٹینڈلیتی ہیں جن میں جذبہ ہوتاہے منافقت نہیں ہوتی۔ ہم نے مصلحت سے کام لیاہمارے وزیرخارجہ اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ تعلقات نہ بگڑییں۔ ہم فوری ردعمل دیتے ہیں۔ کچھ روز یہ سب چلے گاپھرختم ہوجائے گا۔ بات چیت کاسلسلہ شروع ہوجائے گاپھرسب بھول جائیں گے ۔وہ ڈرون حملے کرسکتے ہیں یہ پاکستانی فوج کے لیے امتحان ہوگا۔ماضی میں ہم نے نیٹوسپلائی بند کی پھرکھول دی ،کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ امریکا مشکلات پیداکرسکتاہے ، ویزا بند کرسکتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کوڈی پورٹ کردے ،آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک ،ایشین ڈویولپمنٹ بین سمیت دیگرادارے امریکاکے زیراثرہیں اگرپاکستان امدادلے تووہ ویٹوکرسکتاہے یہ ادارے ہیں جن کوپاکستان کو25ارب ڈالردینے ہیں ان کاپاکستان مقروض ہے مگرامریکاجاپان یایورپی یونین کودباؤمیں نہیں لے سکے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جوکام ہمیں آزادی کے بعدکرناتھاوہ نہیں کیا۔ بھارت اورچین کی کامیابی کاراز یہی ہے ،ہم نے خود انحصاری پر کام نہیں کیا۔ ان دونوں ملکوں نے اپنی معیشت پرخود انحصاری کی اس پر سودانہیں کیا اوراپنی صنعتوں کوبڑھایا۔ ہمارے یہاں شروع سے برآمدات پرانحصاررہاکیونکہ ہم نمودونمائش میں رہتے ہیں۔ اب بہت دیرہوگئی ہے، خودانحصاری کے لیے قربانی دینی ہوتی ہے ہمیں لگژری درآمدات روکنی پڑے گی پھرمافیاآڑے آئے گا۔چین اورروس کی پالیسی یہ ہے کہ وہ جھگڑے میں ملوث نہیں ہوتے۔ چین عملی طورپرپاکستان کی مددنہیں کرے گا۔ وہ تنازع میں الجھنانہیں چاہتا، وہ کسی تصادم میں نہیں جائے گا۔ روس بھی یہ نہیں بھولاکہ افغانستان میں شکست کاذمے دارپاکستان ہے ۔امدادنہ ملی تو یہ پیروں پرکھڑاہونے کا ایک اچھاموقع ہے۔ امریکاکوسب معلوم ہے وہ دنیاکی صف اول کی ٹیکنالوجیکل پاورہے اسے ہمارے بارے میںمعلوم ہے تاہم یہ کون کرے گاسیاست دان نہیں کریں گے ، جسٹس سسٹم اوررولز آف لا سے بہتری آسکتی ہے۔

ہم سفارت کاری میں خوشامد نہیں کرسکتے، آپشن کوبہترین طریقے سے استعمال کریں۔ افغانستان کے معاملے پر سفارت کاری کی بھی حدودہیں ۔ایک بارفائردوسری جانب سے ہوتاہے اورجواب دیاجائے توجنگ سے امن کاسفرمشکل ہوگا۔ امریکابھی کچھ سوچے گاکسی سنجیدہ خلاف ورزی کاجواب ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیاپھریہ سلسلہ رک جائے گا؟۔اسامہ والے واقعے سے ایک روزبعد اس وقت کے صدرزرداری نے اس عمل کی حمایت کی تھی جبکہ فوج ناراض تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔