اکثریت نہیں عدل بالاتر ہوتا ہے

اوریا مقبول جان  بدھ 8 اگست 2012
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اٹھارہ کروڑ لوگ مل کر اگر یہ قانون سازی کریں کہ ہر بیوہ کے نام جو جائیداد ہے وہ بحق سرکار ضبط ہو جائے گی یا اسے منتخب ارکان پارلیمنٹ میں بانٹ دیا جائے گا تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ خواہ وہ ایک بیوہ ہی کیوں نہ‘ اس قانون سے متاثر ہو، اسے انصاف کیسے ملے گا۔

اسی طرح کسی بھی قوم کی منتخب پارلیمنٹ اس فخر میں مبتلا ہو کر کہ اسے عوام نے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار دیا ہے یہ فیصلہ کرتی ہے اور اکثریت رائے سے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتی ہے کہ اس مقدس ایوان کے ممبران، چوری کریں، لوٹ مار میں غرق ہوں، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کریں، دوران مدت پارلیمنٹ کسی کو قتل کر دیں تو ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنے گا، انھیں کسی عدالت میں نہیں گھسیٹا جائے گا، ان کا استحقاق انصاف کے تمام اصولوں سے بالاتر ہے تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ان کی نا انصافیوں کا شکار خواہ چند ہزار لوگ ہی کیوں نہ ہوں، انھیں انصاف کون دلائے گا۔

یہ سوال انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوال ہے۔ یہ انسانی تاریخ جسے ضبط تحریر میں لانے کا عرصہ کم و بیش پانچ ہزار سالوں پر پھیلا ہوا ہے اس میں جمہوریت، عوام کی بادشاہت، پارلیمنٹ کی بالادستی کی عمر دو سو سال سے کچھ زیادہ نہیں، اس عوام کی بادشاہت سے پہلے بھی اس دھرتی پر انسان رہتے تھے، خوش حال بھی تھے اور بد حال بھی، روزمرہ کاروبار بھی کرتے تھے۔ بیوائوں، یتیموں، معذوروں کا خیال بھی رکھتے تھے۔ شہروں، محلوں اور دیہاتوں میں اجتماعی زندگی بھی گزارتے تھے۔

ایک دوسرے کی عزت و حمیت، غیرت، جان و مال اور آبرو کا احترام بھی کرتے تھے۔ ہزارہا سال تک انسانی ضروریات اور روزمرہ مسائل لوگ خود حل کر لیا کرتے تھے۔ اسپتال، ڈاکٹر وغیرہ سرکار کے مرہون منت نہیں ہوتے تھے بلکہ حکیم، طبیب یا کوئی اور سیانا ہر معاشرے میں موجود ہوتا جس نے یہ علم حاصل کیا ہوتا کہ وہ لوگوں کا علاج کرے۔

کوئی انسان دوست حکمران چاہتا تو سرکاری اسپتال بنا کر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا جس کی مثال بغداد میں عباسی دور میں قائم بارہ ہزار بستروں پر مشتمل ایک بہت بڑے سرکاری اسپتال سے دی جا سکتی ہے جو انسانی تاریخ کا پہلا صحت کا سرکاری ادارہ تھا۔ اس کے باوجود بھی انسان نے کبھی اس کی اشد ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ معاشروں میں موجود طبیب سرکاری سر پرستی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔

اسی طرح تعلیم کے ادارے خواہ مسلمانوں کے مدارس ہوں، بدھوں کی ٹیکسلا یونیورسٹی ہو یا آکسفورڈ اور کیمرج سب کے سب اپنی فلاح اور تعلیم کے لیے لوگوں نے خود قائم کیے۔ کسی پارلیمنٹ نے ان کا بجٹ منظور نہیں کیا اور کہیں بھی عوام کے منتخب نمایندوں کے پاس یہ اختیار نہ تھا کہ کیسی تعلیم ہو اور کیسا نصاب تعلیم، البتہ بادشاہ یا حکمران عالموں کی سرپرستی ضرور کرتے اور اپنے راج دربار میں عزت کا اضافہ کرتے۔ سڑکوں، پلوں، آبپاشی کے نظام وغیرہ کی ذمے داری بھی لوگ خود ہی اٹھا لیتے۔

بلوچستان کے کاریزوں کا نظام اس قدر مشکل اور محنت طلب ہے کہ کئی کئی میل تک پچاس ساٹھ فٹ گہری سرنگوں کے ذریعے پہاڑ کے چشموں سے پانی کھیتوں تک لایا جاتا کہ راستے میں سورج کی تپش سے اُڑ نہ جائے۔ یہ سب لوگوں نے خود کھودیں اور ہر سال خود ہی ان کی صفائی بھی کرتے۔ کوئی نیک نام شیر شاہ سوری کی طرح آ نکلتا تو پشاور سے کلکتہ تک سڑک بنواتا جس میں ہر کوس پر ایک کنواں اور سرائے ہوتی تو تاریخ میں اپنا نام زندہ کرجاتا۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہ بھی کرتا تو لوگ اپنی اس ضرورت کا بھی خود خیال کرتے۔

دنیا کے تمام معاشروں میں انسان عام شہری کے طور پر خوش و خرم زندگی گزارتے۔ لیکن ان لوگوں کے خوش و خرم ہونے کا دارومدار صرف اور صرف ایک اہم ترین اطمینان کی بنیاد پر ہوتا کہ ان کے درمیان کوئی ایک ادارہ ایسا موجود ہے جو ان کے جھگڑوں کا فیصلہ انصاف سے کرتا ہے۔ ان کے کمزوروں کو حق دلاتا ہے اور ان کے ظالموں کو سزا دیتا ہے۔ اپنی زندگیوں کو پر سکون اور پر امن رکھنے کے لیے وہ اس ادارے کا دل و جان سے احترام کرتے۔

خواہ یہ کوئی پنچایت ہوتی، جرگہ ہوتا اور کوئی ایسی محترم شخصیت جسے وہ عدل کرنے کے لیے منتخب کرتے۔ دنیا کے تمام مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی تاریخ میں کسی حکومت، حکمران یا ریاستی ادارے کی بنیادی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی طاقتور غریب کا حق مارے یا بستی کی اکثریت مل کر کسی کا گھر اجاڑ دیں۔ دنیا میں لکھے جانے والے قدیم ترین ادب میں کہانیاں ہمیشہ ایسے شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ، وہ اتنا منصف مزاج تھا کہ اس کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔

پنچایت، جرگہ یا عدالت کا معیار بھی عدل تھا جس میں قبیلے کا سربراہ، پنچایت کا سرپنچ یا عدالت کا جج یہ نہیں دیکھتا تھا کہ لوگوں کی اکثریت ظالم کے ساتھ ہے یا مظلوم کے ساتھ بلکہ فیصلہ بلا خوف مظلوم کے حق میں کرتا۔ یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کے لیے ریاست اور حکومت جیسے ادارے وجود میں آئے۔

اس کے بعد جو دوسرا اہم ترین کام لوگوں نے ریاست یا حکومت کے سپرد کیا وہ جان و مال کا تحفظ تھا۔ کسی حملہ آور فوج سے شہریوں کو بچانا، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے خلاف طاقت استعمال کرنا، شاہراہوں کو محفوظ بنانا، ہزاروں سال تک لوگ ایسے بادشاہوں اور حکمرانوں کے دور میں سکھ کا سانس لیتے رہے جو یہ دونوں کام بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔ عادل وہ کہلاتا تھا جو یہ نہ دیکھے کہ اکثریت کیا کہہ رہی ہے یا طاقتور افراد کیا زبان بول رہے ہیں۔

اسے تو عدل کرنا تھا۔ حکومتیں اور ریاستیں آج کے ’’مہذب ترین‘‘ دور میں بھی داخل ہوئیں تو ہر کامیاب حکومت کا تمغہ امتیاز یہی رہا کہ وہاں ایسا قانون نافذ ہے جو عدل پر قائم ہو نہ کہ اکثریت کی رائے پر۔ دنیا میں کسی پارلیمنٹ، کسی بادشاہ یا کسی رعایا کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ انصاف سے بالاتر ہو جائے۔ لیکن تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جہاں عوام کی اکثریت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو ہم کہیں وہ قانون ہے کہ عوام کی رائے اعلیٰ ہے تو آج ایسی قوموں کے کھنڈرات اﷲکے عذاب کی گواہی دیتے ہیں۔

حضرت شعیب علیہ اسلام کی قوم نے جمہوری طور پر اکثریت کے بل بوتے پر فیصلہ کیا تھا کہ کم تولنا یہاں کا قانون ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے جمہوری روایات کے امین ہوکر فیصلہ دیا تھا کہ غیر فطری فعل قانونی طور پر جائز ہے۔ بستیاں اﷲ کے غضب کا ایسا شکار ہوئیں کہ نام و نشان صرف عبرت کے طور پر زندہ رہ گیا۔

اٹھارہ کروڑ لوگ یا ان کے منتخب نمایندے اگر کوئی بھی قانون ایسا منظور کر لیں جس سے صرف ایک آدمی کے حق کو ہی غضب کیا جا رہا ہو، اﷲ کے غیظ و غضب کو آواز دینے کے لیے کافی ہے۔ عدل کے مقابلے میں اکثریت نہ پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ میں بالا تر رہی ہے اور نہ ہی اﷲ کے ہاں بلکہ اﷲ کے ہاں تو عذاب کی مستحق۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔