کچھ ممکن اور کچھ ناممکن مفروضے

خضر حیات  ہفتہ 13 جنوری 2018
آئیے اپنے اپنے تخیل کے گھوڑے کو کھلا چھوڑتے ہیں اور ان دیکھے دیسوں کی سیر کرنے کی آزادی مہیا کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آئیے اپنے اپنے تخیل کے گھوڑے کو کھلا چھوڑتے ہیں اور ان دیکھے دیسوں کی سیر کرنے کی آزادی مہیا کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلے کچھ دنوں سے دماغ ایک مختلف قسم کی پُراسراریت کا شکار ہے، اس میں نوعیت کے حساب سے عجیب و غریب اور اوٹ پٹانگ سے سوالات کسمسا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے ذہن میں جب ممکنات کی ایک چادر سی تان دی تو ان میں سے کچھ ممکنات کو مفروضوں کی صورت میں کاغذ پر اتارنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ ان بے سر و پا مفروضوں کے جواب پانا ہرگز مقصود نہیں، ارادہ محض اتنا ہے کہ الٹے سیدھے اس راستے پر دو قدم آپ کو بھی اپنے ساتھ لے چلوں اور ممکنات و ناممکنات کے اس کھیل میں آپ کو بھی شامل کرلوں۔

شاید یہ بھی ارادہ ہے کہ آپ کو دعوت دوں کہ آئیے! اپنے اپنے تخیل کے گھوڑے کو آج کُھلا چھوڑتے ہیں اور اسے اَن دیکھے دیسوں کی سیر کرنے کی آزادی مہّیا کرتے ہیں۔ کھیل شروع ہوتا ہے:

ذرا سوچیے کہ کیا ہی کمال ہو جو انسان دوسروں کا دماغ پڑھ لینے کی قوت حاصل کرلے؟ دھوکہ، جھوٹ، فریب، وعدہ خلافی اور بے وفائی جیسی کتنی ہی مصنوعات بازارِ کائنات میں بے کار نہیں ہوجائیں گی؟

اور کیا تماشا ہو اگر ہم اپنے خوابوں کو ریکارڈ (سی ڈیز میں) کرسکیں، ان خوابوں کے تمام ریکارڈز دیوار جتنی ایل سی ڈی اسکرین پر دیکھ سکیں اور دوسروں کو دکھا سکیں؟ کسی مخصوص خواب کو بار بار ریوائنڈ کرکے دیکھتے رہیں، اپنے پسندیدہ مناظر کو ساکن (پاز) کرکے مزے لے سکیں تو کیسا احساس ہوگا؟

اور کیا ہی اچھا ہو اگر ہمیں اپنی مرضی سے خواب دیکھنے کی سہولت مل جائے تو سوچیے کوئی کیا کیا خواب دیکھے گا اور دنیا میں پائی جانے والی خوشی کی سطح کہاں جا پہنچے گی؟

اور کیا خوب ہو اگر دیواریں بولنا شروع کردیں؟ ہماری کتنی ہی باتیں جو اکثر تنہائی میں ہم خود سے کرجاتے ہیں، وہ بھی اگر سامنے آ جائیں تو سوچیے کیا ماحول ہوگا؟

اور کیا عجب ہو جو فضا میں موجود، آج تک بولی گئی تمام انسانی آوازوں کو قید کرکے ریکارڈ کر لیا جائے؟ اس آڈیو خزانے میں سے کیسے کیسے لفظ نکلیں گے؛ جملے اور کہانیاں کیا کیا سماں باندھیں گی اور جانے کیا کیا سامنے آئے!

اور کیا غضب ہوجائے جو کائنات میں موجود تمام انسانی و غیر انسانی آوازیں میوٹ (خاموش) ہو جائیں؟ دنیا میں سکون نہیں ہو جائے گا؟

اور کیا ہو کہ کسی دن زمین کی برداشت ختم ہو جائے اور وہ اپنے سینے پر لدا انسانوں کا یہ بوجھ اُلٹا دے، ہمیں اپنے گھر سے بے دخل کردے؛ تو ہم کہاں جائیں گے؟

اور کیا ہو کہ کسی روز اچانک آسمان ہمارے سروں پر گرجائے؟

اور کیسا مزہ آتا اگر ہم عقل، دانش (انٹلیکٹ) بھی بلیوٹوتھ اور وائی فائی کے ذریعے دوسرے انسانوں کے ساتھ شیئر کرسکتے؟ کسی مرکزی انسانی انٹلیکٹ پر مضبوط سا انٹرنیٹ لگا کر وائی فائی کا پاس ورڈ سب کو دے دیا جائے تو مسائل بہت کم ہوجائیں گے یا بڑھ جائیں گے؟ مگر اس صورت حال میں یہ طے کرنا بہرحال مشکل ہو جائے گا کہ کون سی شخصیت سب سے ’’ہائر انٹلیکٹ‘‘ ہے۔ اور پھر اس بات کا بھی خطرہ برقرار رہے گا کہ کوئی اوسط یا کم دانش کا حامل شخص اس عمل کو ہائی جیک کرکے خود کو ہی اعلیٰ ترین دانشور قرار دے ڈالے اور وائی فائی سگنلز کے ذریعے سب کو بے وقوف بناتا پھرے۔ کیا آج کے آمر حکمران یہی نہیں کرتے؟ سوچیے اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟

اور کیا ہی اچھا ہو اگر خون کی طرح جسم سے جسم میں ڈاکیومنٹ شیئرنگ بھی ممکن ہو جائے۔ آئیڈیاز، لطیفے، خیالات، یادیں، یادداشتیں، کہانیاں، قصے، عادتیں اور بہت کچھ یہاں سے وہاں آتے اور جاتے رہیں۔ کسی شخص میں کوئی بھی اچھی عادت دیکھی تو فوراً کنیکٹ کرکے وصول کرلی۔ دوسروں کی پڑھی ہوئی کتابیں اور دیکھی ہوئی فلمیں بھی سہولت سے اپنے جسم میں منتقل کی جاسکیں۔ برین واشنگ کتنی آسان ہو جائے، جو چاہے ذہنوں میں ڈالتے رہیں اور اگر کسی سے بدلہ لینا ہے تو کوئی بُری عادت وائرس کی مانند اس کے جسم میں داخل کردی۔ سوچیے کیا ماحول ہوگا!

اور کیسا ہو اگر میچ میکنگ (جیون ساتھی ڈھونڈنے) کے عمل کو ڈیجیٹل کردیا جائے؟ لوگ پوری دنیا میں اپنا اپنا بہترین جوڑ ڈھونڈتے پھریں۔ ہو یہ کہ کسی کے قریب جانے سے ایک خاص قسم کے میٹر پر ایک ریڈنگ دیکھی جا سکے جو اس شخص کی شخصیت کی آئینہ دار ہو۔ آپ کو اپنی مطلوبہ ریڈنگ والا فرد ڈھونڈنا ہے تو نگری نگری پھریئے اور ڈھونڈیئے۔ اور جب کچھ لوگ اپنا بہترین جوڑ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں اور بستیاں بسا لیں تو یہ بستیاں ہر لحاظ سے حسین اور قابل رشک ہوں۔ یہاں خوشیاں ہی خوشیاں برستی ہوں، اسی رشک میں لوگ اپنا بہترین جوڑ تلاش کرتے پھریں۔ بے جوڑ رشتے ختم ہونے سے دنیا کی صورت کیا شکل اختیار کرے گی؟

اور کیسا لگے اگر کسی شخص کو اس کے اصل بڑھاپے کی ویڈیو دکھا دی جائے؟ اور کیا ہو جو بندے کو اس کے مرنے کے منظر کی ویڈیو بھی دکھا دی جائے؟ زندگی کتنی محتاط ہو جائے گی اور شاید پھیکی بھی۔

اور یہ بھی کیا ہو اگر انسان کو پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کی زندگی کی کچھ جھلکیاں دکھادی جائیں؟ بچپن، اسکول، کالج، جوانی، بڑھاپا وغیرہ۔ اور کیا ہو اگر پیدا ہونے سے پہلے اُسے زندگی کے مختلف نمونے (سیمپلز) دکھا دیئے جائیں اور اسے ان میں سے کوئی سا بھی منتخب کرنے کا اختیار دے دیا جائے؟ زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی یا اس میں سے حیرتیں اڑنے سے وہ بے رنگ رہ جائے گی؟ ممکنہ نمونوں میں کسان کی زندگی، سپاہی کی زندگی، سیاست دان کی زندگی، کاروباری زندگی، عالم دین کی زندگی، آرٹسٹ کی زندگی، بے کار زندگی اور دیگر ایسی ہی زندگیاں رکھی جا سکتی ہیں۔

اور کیا ہو اگر بستیاں خوابوں سے محروم کر دی جائیں، زندگیاں کس قدر بے رونق ہو جائیں۔ وہ بستیاں آخر کب تک جی پائیں گی جن کے سارے خواب ہی مرگئے ہوں؟

اور تصور کیجیے کہ دنیا کیسی ہو اگر سب لوگ اندھے ہو جائیں؟ روزمرہ کے کام کس طرح چلیں؟ گاڑیاں چلتی رہیں گی یا رک جائیں گی؟ دنیا کہاں تک اور کب تک چل سکے گی؟

اور یہ بھی سوچیے کہ اگر سب لوگ بہرے ہو جائیں تو معیار زندگی پر کس قسم کے اثرات مرتب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ آج تک جتنی بھی موسیقی تخلیق ہوئی ہے، اس کا انسان کیا کرے گا؟ کیا وہ موسیقی کو کسی دوسرے طریقے سے اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کےلیے دوڑ دھوپ نہیں کرے گا؟

اور یہ بھی فرض کرلیجیے اگر ذائقہ کی حس ہی کسی وباء کے زیرِاثر جاتی رہے تو کھانے پینے کا کیا معیار رہ جائے گا؟ سبھی کھانے ایک جیسے لگنے لگ جائیں تو کیسا منظرنامہ سامنے آئے گا؟

اور اگر چُھونے کی حس کسی روز اچانک طلسماتی طور پر غائب ہو جائے تو زندگیاں کس طرح متاثر ہوں گی؟ محبت اور جنسی عمل دونوں، جن میں چُھونے کی حِس کا بہت زیادہ عمل دخل ہے، ان میں کیا کیا تبدیلیاں آسکتی ہیں؟

اور اگر سونگھنے کی حِس غائب ہو جائے تو انسانوں کا کیا حال ہوگا؟ گندگی کو صاف کرنے سے متعلق لوگ پہلے جتنے ہی محتاط ہوں گے یا تساہل سے کام لینا شروع کر دیں گے؟

اور سب سے بڑھ کر ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں مرد و زن میں اختلاط ہوتا ہی نہ ہو اور لوگوں کو پتا بھی نہ ہو کہ اس طرح کا بھی کچھ ہوتا ہے۔ اور پھر جب لوگ ایک ایک کرکے مرتے رہیں اور نسل انسانی خاتمے کے قریب پہنچ جائے تو لوگ بچے پیدا کرنے کے طریقے پاگلوں کی طرح نہ ڈھونڈ رہے ہوں گے؟ وہ شاید منتّیں بھی مانگتے پھریں مگر جب وہ کوئی سراغ پانے میں ناکام ہوجائیں تو ایک اور نسل انسانی اپنی آنکھوں سے خود کو مٹتے ہوئے دیکھتی ہی رہ جائے گی۔ (اور یاد نہیں ہم نے بستی والوں کے ساتھ کیا کیا؟) تو کیا یہ بستی بھی ایسی ہی کسی فہرست کا حصہ نہ بن جائے گی اور آنے والے وقتوں میں دوسری قوموں کو اس عذاب سے بھی نہ ڈرایا جائے گا؟

اور کیسا ہو اگر موبائل بچے دینے لگ جائیں؟ مثلاً سام سنگ اور ہواوے کے کراس سے نئی ہی قسم کی کوئی چیز سامنے آئے۔ اور کبھی کبھار یوں بھی ہو کہ کسی کراس بریڈ سے نئے پیدا ہونے والے موبائل بچے میں ریڈار سسٹم یا میزائل سسٹم بھی ظاہر ہونا شروع ہوجائے۔ کوئی انٹیلنجنٹ ورژن سامنے آ جائے۔ آئی فون اعلیٰ نسل اور افضل ذات قرار پائے، اس لیے آئی فون کا کراس کسی دوسری کمپنی کے موبائل سے نہ کرایا جا سکے کیونکہ ’’خاص ہیں ترکیب میں آئی فون کے آلات۔‘‘ لوگوں کو موبائل سے بچے پیدا کرنے کا لائسنس لینا پڑے اور یہ موبائل کی حالت دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ لائسنس دیئے جانے کے قابل ہے یا نہیں۔ دیکھا یہ جائے کہ آیا کوئی موبائل اس حالت میں ہے کہ وہ اپنے فنکشن اور ایپلی کیشنز آگے ٹرانسفر کرسکتا ہے۔

اور کیا ہو کہ شادی کےلیے خود کو اہل ثابت کرنے کےلیے آئی ایس ایس بی یا سی ایس ایس کی طرز کا کوئی امتحان پاس کرنا پڑے اور بچے پیدا کرنے کےلیے بھی کوئی سرکاری لائسنس لینا پڑے؟

اور کیا ایسا سوچا جاسکتا ہے کہ انسان مستقبل میں نسل بڑھانے کا کوئی ڈیجیٹل اور غیر جنسی طریقہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر جنسی عمل کی اہمیت اور افادیت پر کس طرح کے اثرات پڑیں گے؟ Sex as a pleasure کا جھنڈا اٹھانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگی یا جنسی عمل سے مکمل رُوگردانی کرنے والے تعداد میں زیادہ ہوں گے؟

اور کیسا ہو جو ایک زمانہ ایسا بھی آجائے جس میں وقت کو کرنسی کا درجہ مل جائے اور باقی ہر طرح کی کرنسی بے کار قرار دے دی جائے؟ لوگ وقت کمائیں، اسے ہی بچاتے پھریں اور سوچ سمجھ کر خرچ کریں۔ جس کے پاس جتنا زیادہ وقت محفوظ ہوگا وہ اتنا ہی امیر قرار پائے۔ اس حساب سے صرف امیر ہی لمبی زندگیاں گزار سکیں گے۔ اجرت کہیں بہت کم ہو اور کہیں بہت زیادہ۔ کہیں دس روز مسلسل مشقت کرکے بھی کسی کو بس اگلے بیس ہی دن کےلیے کافی وقت مل سکے اور کہیں قلم کی ایک ایک نوک سے کئی کئی سال کا وقت کما لیا جائے۔ بھکاری وقت کی بھیک مانگتے نظر آئیں: ’’بھائی اللہ کے نام پہ دو منٹ دے جاؤ!‘‘ کئی بچے پیدا ہوتے ہی محض اس وجہ سے مر جائیں کہ ان کے والدین کے پاس اپنے استعمال کے علاوہ چار گھڑیاں بھی نہ بچی ہوں جو وہ اپنے بچے کو دے سکیں۔ یہ آزمائش غریب والدین پر آئے کہ یا تو بچے کو بچا لیں یا خود زندہ رہ سکیں۔ اور ہر کسی کو معلوم ہو کہ اس کے پاس اب جینے کےلیے مزید کتنا وقت رہ گیا ہے۔ وہ چاہے تو مزید گھڑیاں کما کر اس میں اضافہ کرے اور چاہے تو اپنی مرضی سے اسے ختم ہوتے دیکھتا رہے۔

امراء اتنی لمبی لمبی زندگیاں پائیں کہ بار ہا اکتا جائیں مگر خودکشی کا کوئی طریقہ کارآمد نہ ہو۔ کوئی تب تک نہیں مرسکتا جب تک اس کے پاس وقت موجود ہو۔ وقت بانٹنا سب سے بڑی خیرات بن جائے۔

اور کتنا مزہ آئے اگر ساری دنیا کو دو منزلہ بنا دیا جائے۔ جگہ کی کمی بھی جاتی رہے گی اور لوگ کھلے کھلے ہو کر بھی رہنے لگیں گے۔ دوسری منزل پر نئے سرے سے بستیاں بسائی جائیں جو اعلیٰ منصوبہ بندی کا نمونہ ہوں اور بہترین لائف اسٹائل مہیا کریں۔

اور کیا ہو اگر انسانی اعضاء کو زبان مل جائے اور وہ باتیں شروع کردیں؟ ہمارے ہاتھ کیا اپنی بے اختیاری کا رونا نہیں روتے رہیں گے؟ کیا وہ یہ شکایت نہیں کریں گے کہ ہمیں ہماری مرضی کے بغیر جہاں دل چاہتا ہے جھونک دیا جاتا ہے؟ اور پاؤں یہ نہیں کہیں گے کہ بلاوجہ ہمیں اس وجود کو اٹھا کر ادھر سے ادھر بھاگتا پڑتا ہے؟ دل تو باتیں کر کرکے طوفان ہی مچا دے گا۔

اور کیا منظر ہو اگر انسان غائب کی تشریح کرنے کے قابل ہو جائے؟ اَن دیکھے اسرار کو ڈی کوڈ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے۔ اس صلاحیت سے جہاں خوابوں کی حقیقت طے ہو جائے گی وہیں قسمت بھی مزید دیر تک طلسمی طوطے کا سوانگ رچائے اٹکھیلیاں کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ غائبانہ چیزوں کے بارے میں انسان آج تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکا۔ یہی اس کا سب سے بڑا ڈر ہے۔ ویسے بھی دو ہی تو سب سے بڑے المیے ہیں: ایک تو انسان آج تک غائب کی تشریح نہیں کر سکا اور دوسرا وہ آج تک موت کا عادی نہیں ہوسکا۔ حالانکہ موت تب سے اس کے ساتھ لگی ہے جب سے زندگی شروع ہوئی تھی۔

اور سوچیے اگر چیزیں باتیں کرنا شروع کر دیں تو وہ ہمارے بارے میں کیا کیا کہیں گی؟

کیونکہ ایک ہماری دنیا ہے اور ایک چیزوں کی بھی دنیا ہے۔ جس طرح ہم اپنی دنیا کو محسوس کرتے ہیں اور اسے بیان کرتے رہتے ہیں، کیا پتا چیزیں بھی ویسے ہی محسوس کرتی ہوں اور ایک دوسرے سے بیان کرتی ہوں۔ ایک ایسی ہی صورت حال کو مثال کے طور پر اگر دیکھیں تو کچھ اس طرح کا منظرنامہ سامنے آتا ہے: میرے کمپیوٹر کی اسکرین جو دن بھر مجھے دیکھتی رہتی ہے، وہ میرے بارے میں کتنا جانتی ہے؟ وہ مجھے کن آنکھوں سے دیکھتی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے روزانہ صبح ہی صبح دیکھ کر اس بات پر دکھی ہو جاتی ہو کہ یہ بندہ تو روز ہی اداس ہوتا ہے اور پھر وہ کسی دن ہمت کرکے مجھ سے میری اداسی کا سبب پوچھ بھی لیتی اور میری ڈھارس بندھانے کی کوشش کرتی۔

چیزیں اگر بول سکتیں تو شاید انسانی زندگیوں میں ان کا وجود تھوڑا معتبر قرار پاتا۔ کمرے کی دیواریں، گھر کا دروازہ، کپڑے، آئینہ، کرسی، میز، پنسلیں، کتابیں، شیلف، موٹر سائیکل، گاڑی، درخت وغیرہ ہمیں کیسے کیسے قصے سناتے؟ مثلاً کپڑوں والی الماری میں صبح ہی صبح یہ شور اٹھتا کہ آج میری باری ہے، آج مجھے پہنا جانا ہے، تم ذرا پیچھے ہٹ کے کھڑی ہونا۔ اور ٹائیوں کی تو آپس میں شرطیں لگتیں کہ آج صاحب کا اس طرح کا موڈ ہے تو مجھے ہی لگا کر جائیں گے، دیکھ لینا!

چیزیں ہمیں دیکھتی تو ہیں ہی، مگر ان کے پاس اظہار کا ذریعہ ہوتا تو وہ ہماری تاریخ مرتب کر رہی ہوتیں۔ یہ تاریخ ’’انسانی تاریخ، اشیاء کی زبانی‘‘ سے ملتے جلتے کسی عنوان کے تحت ترتیب پاتی۔ اس میں ہمارا رویہ اور اشیاء کے بارے میں ہمارے خیالات، سب کچھ چیزوں کی زبانی ہی بیان ہوتے اور یہ اپنی نوعیت کی انوکھی تاریخ ہوتی۔

تصور کیجیے کہ اس صورت حال میں درختوں کے پاس سنانے کو کتنی کہانیاں ہوتیں۔ بوڑھے پیڑ انسانوں کی کتنی نسلوں کے قصے ہمیں سناتے۔ وہاں ان کے قریب کون کون آ کر رہا، کس کس نے ان کی بانہوں پر جھولے جھولے اور کون کون کیسے کیسے اس جہان کو چھوڑ کر جاتا رہا، پرانے دکھ کس نوعیت کے ہوتے تھے اور نئے دکھوں کی ساخت کیسی ہے؟ یہ سب درختوں کی زبانی ہمیں معلوم ہو جاتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔