عورتوں کے حقوق

شبیر احمد ارمان  منگل 9 جنوری 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

قرآن  پاک کی  سورۃ  بقرہ  میں ارشاد الٰہی ہے کہ عورتوں کو بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے ۔

ایک درجے سے مراد گھر کا انتظام چلانے سے ہے چونکہ گھر ایک چھو ٹی سی ریاست ہوتا ہے اور گھر پر مرد کی بات کو اس لیے اولیت دی گئی ہے  تاکہ اطاعت و تعمیل کا کام چلتا رہے ورنہ اگر مرد اور عورت دونوں کے حقوق عملی لحاظ سے بھی برابر ہوجاتے تو نظام کبھی نہ چل سکتا ۔ باقی اخلاقی لحاظ سے دونوں کے اعمال برابر ہیں  ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ترجمہ : تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا میں تم میں سے کسی کا عمل ضایع کرنے والا نہیں ہوں ۔ خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ۔ ( یعنی میری نگا ہ میں یکساں ہو) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ۔

ترجمہ : جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ۔ ایک اور جگہ اللہ رب العالمین فرماتا ہے ۔ ترجمہ : وہ عورتیں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔ ( سورۃ بقرہ) اس اوپر والی آیت میں لباس کا لفظ میاں اور بیوی دونوں کے لیے آیا ہے اور کس قدر اونچی اخلاقی مساوات کا بیان ہے۔ ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی گویا دو قلب ایک جان ہوتے ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے رازداں ، ایک دوسرے کی خوبصورتی، ایک دوسرے کی ضرورت اور ہر کام میں ذریعہ تکمیل ہوتے ہیں گویا ہر لحاظ سے دنیاوی زندگی میں یکساں ذمے دار ہوتے ہیں اور یہی دراصل حقوق زوجین اور ادائیگی ہے ۔

مرد جسمانی لحاظ سے اس قابل ہے کہ عورت کوحفاظت میں رکھے اور محنت و مشقت کرکے اپنی اور اس کی ضروریات پوری کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر محافظ اور منتظم و نگراں بنا دیا ہے ۔ سورۃ النساء کے چھٹے رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ترجمہ : مرد ، عورتوں پر قوام ( محافظ ) منتظم نگراں ہیں اس بناء پر کہ اللہ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔ یہاں فضیلت سے مراد وہی برتری ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔قوام کی حیثیت سے مرد پر تین بڑے فرائض ( مہر ، نفقہ اور عدل و انصاف ) عائد ہوتے ہیں ۔ نبوت محمدیﷺ سے پہلے عورت کے مقام کا تصور تک نہیں تھا ۔ اسلام آیا تو اس نے ان کے بارے میں احکام نازل کیے اور ان کے حقوق مقررکیے ۔ اسلام نے قانونی لحاظ سے مرد وعورت کا درجہ برابرکردیا کہ دونوں انسان ہیں اور انسانیت کے لحاظ سے دونوں برابرکے مستحق ہیں ۔

اگر تجزیہ کیا جائے تو آج بھی ہم جاہلیت کے زمانے میں خود کو پائیں گے ۔فرق اگر پڑا ہے تو صرف یہ کہ ظلم وستم کے طور طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ عرب قبائل اپنی زندہ بچیوں کو بھوک وافلاس کے ڈر سے دفنا دیا کرتے تھے تو آج ہم بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو قبل از وقت موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ بھوک و افلاس میں مبتلا ہوکر معاشرے پر بوجھ نہ بن جائے ۔ آج بھی ہمارے دیہات میں عورتیں غلاموں کی سی زندگی بسر کررہی ہیں اور زبردستی انھیں بے آبرو کیا جارہا ہے ۔ آج بھی ہماری عورتیں بھٹی اور تندور میں جل کر راکھ ہورہی ہیں ۔ جس ملک میں عورتوں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا جائے ، اس ملک میں عورتوں کی اہمیت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ عرصہ دراز سے یہی کہا جارہا ہے کہ عورتوں کی حالت زار میں تبدیلی رونما ہوگی۔

اس ضمن میں ملک میں لاتعداد این جی اوز عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں ، سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں ، تقاریرکی جاتی ہیں ، سفارشات مرتب کی جاتی ہیں ، رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں ،  فوٹو سیشن ہوتا ہے ، میڈیا میں تشہیر کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں روپے پیسہ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے لیکن نتیجہ وہی صفر کا صفر ! اس وقت ملک میں عورتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیاجارہا ہے اس کا اندازہ غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل سے لگایا جاسکتا ہے ۔

غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل عام نے عالمی ضمیر کو بیدار کیا ہوا ہے ۔ اس بیداری کی لہرکو مزید تیز رفتار کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے معاشرتی روایات کی وجہ سے ہمارے وطن عزیز میں عورتیں ان حقوق سے بھی محروم دکھائی دیتی ہیں جو اسلام نے انھیں تفویض کیے ہیں۔  یہ صورت حال تعلیم یافتہ وغیر تعلیم یافتہ گھرانوں میں یکساں دکھائی دیتی ہے ۔ عورتوں کے حقوق غضب کرنے کو معاشرتی شعارکا نام دیا جاتا ہے اور جو عورت اپنے حقوق کی بات کرے تو اسے بے شرمی و بے حیائی سے تعبیر کرکے اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے ۔

آئے روز میڈیا میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس بے دردی اور بے حسی اور قانون کے خوف سے بالاتر ہوکر یہ انسانیت سوز جرم کیا جاتا ہے اور بے خوفی کی اہم وجہ ہمارا روایتی جرگہ اور پنچائیتی نظام ہے ، جہاں سب مرد ایک تنہا عورت کے خلاف گواہی جو کہ جھوٹی ہوتی ہیں ، دیتے ہیں ۔ ایسے معاملات کو تھانہ کچہری میں لے جانے کو بے غیرتی سے تعبیر کرتے ہیں جس سے نہ صرف ایک بے گناہ معصوم لڑکی  و عورت  انصاف سے محروم ہوجاتی ہے بلکہ اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یوں بتدریج یہ گھناؤنا جرم ، جرم نہیں رہتا بلکہ معاشرے کا ایک معمول بن کر اس کی تہذیب وثقافت و روایات کا ایک حصہ بن جاتا اور قانون کا خوف ختم ہوکر رہ جاتا ہے ۔اسلام میں عزت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں ، ایسے قتل کو قتل عمد تصور کرکے ایف آئی آر درج کی جائے ۔یقینا اس اقدام سے غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل عام کا سلسلہ رک جائے گا اور ایک بے بس معصوم لڑکی ، عورت کو قانونی تحفظ کا احساس ہوگا اور معاشرہ اس گھناؤنے جرم سے پاک ہوجائے گا ۔

بد قسمتی سے ہماری خواتین بالخصوص دیہی خواتین اپنوں اور غیرمردوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اس سلسلے میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں ایسے واقعات بہ کثرت ہوتے ہیں اور بے چاری پاک دامن لڑکیوں اور عورتوں پر زنا کا الزام لگا کر انھیں بدنام کرکے اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی ادارے بڑے بڑے ہوٹلوں میں تقاریب منعقد کرنے کے بجا ئے د یہات میں جاکر وہاں کے سماجی اداروں کے ساتھ مل کر وہاں کی خواتین میں حقوق نسواں کے متعلق شعور و آگہی فراہم کریں اور اپنے لٹریچر انگریزی کی بجائے آسان اردو زبان میں لٹریچر تقسیم کریں تاکہ ان کا پیغام عام ہوسکے ۔ ورنہ دیگر گفتن ، نشستن، برخاستن والی بات ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔