ہماری خود کی مرضی شامل تھی

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 9 جنوری 2018

آئیں! اپنی بے اختیاری، غربت اورافلاس، ذلت اوربربادی سے بھری زندگی پر اپنی قسمت کو زور زور سے گالیاں دیتے ہیں جب گالیاں دے دے کر تھک جائیں تو پھر ہمیں ٹھنڈے دل سے اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ واقعی ان سب کی ذمے دار ہماری قسمت ہے؟ ایک قدیم یونانی لوک کہانی ہے کہ کسی قصبے میں چوراہے پر صرف ایک لنگوٹی باندھے بہت زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کے بالوں والا ایک بوڑھا ہاتھ اٹھا اٹھا کے چلا چلا کے کہہ رہا تھا ’’جو چا ہو سو پاؤ‘‘ لوگ اس کی طرف دیکھتے مسکرادیتے اور چلے جاتے ۔

اس کی خستہ حالت دیکھ کر لوگوں کو باآسانی یقین ہوجاتا ہے وہ کوئی پاگل ہے پاگل کچھ بھی بول سکتا ہے وہ باربار چلا رہا تھا مگرکوئی اس کی طرف دھیان نہ دیتا۔کچھ دیر چلا چلا کر یہ کہنے کے بعد اس نے چیخنا شروع کردیا ’’بے وقوفوں میری بات سنو جو چاہو سو پاؤ‘‘ ایک نوجوان رک گیا کچھ دیر اس کا تماشہ دیکھنے کے بعد وہ اس کے پاس گیا اس طرح ایک نوجوان کو متوجہ پاکر وہ ’’پاگل‘‘ خوش ہوگیا اور ایک عجیب شان سے بولا جیسے کہ دنیا کی ہر چیز اس کی مٹھی میں ہو ’’بول کیاچاہتا ہے‘‘ نوجوان مسکرایا اس کو محسوس ہوا وہ سچ مچ پاگل ہے۔

مذاق سے پوچھا ’’کیا جو بھی میں چاہوں گا تم دے دو گے؟‘‘ ’’نہیں جو بھی تم چاہوگے پالوگے‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’وہ کیسے‘‘ ’’ پہلے تو یہ بتاؤکہ تم چاہتے کیا ہو‘‘ میں ہیرے موتی چاہتا ہوں‘‘ ’’لے سکتے ہو‘‘ وہ خستہ حال بوڑھا بولا ’’ہیرے موتی تمہارے قدموں میں رل سکتے ہیں‘‘ ’’بتاؤکیسے؟ تم دوگے‘‘ ہاں ایک ہیرا ایک موتی میں تمہیں دوں گا پھر اس سے چاہے تو جتنے مرضی حاصل کرلو‘‘ ’’لا دے‘‘ نوجوان مذاق کرتے ہوئے ہنسنے لگا۔ تو سن ’’میں تمہیں ایک ہیرا محنت کا دیتا ہوں اوردوسرا موتی وقت کا۔ ان کو سنبھال کر رکھ لے۔ جا حاصل کرے گا سب کچھ‘‘ وہ نوجوان اس کی بات پر ہنس پڑا اور اس کو بے وقوف سمجھتے ہوئے آگے نکل گیا کچھ ہی دور جانے کے بعد اس کا ماتھا ٹھنکا۔ ایک ہیرا محنت کا دوسرا موتی وقت کا۔ اچانک نوجوان کی چھٹی حس پھڑکی وقت اور محنت۔ یہ بات دماغ میں آتے ہی نوجوان سمجھ گیا کہ وہ خستہ حال بوڑھا پاگل نہیں تھا۔

یہ دنیا کی سب سے زیادہ اکسانے والی کہانی ہے یہ انسان کی اس خواہش کو مکمل کرتی ہے ’’جو چاہو سو پاؤ‘‘ ورڈز ورتھ نے کہا تھا ’’قسمت کیا خدا کے ہاتھ میں ہے؟ نہیں یہ سست لوگوں کا نعرہ ہے۔کام کرنے والے انسان کی قسمت ہمیشہ اجلی کیوں ہوتی ہے؟‘‘ ایک سیدھا سادا سا سوال ہمارے ذہن میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری قسمت میں بدترین حالات اورکرپٹ حکمران پہلے ہی لکھ دیے گئے تھے؟ کیا ہم خدا کے ناپسندید ہ بندے ہیں؟ کیا ہم پیدائش سے پہلے ہی قصور وار ٹہرا دیے گئے تھے؟کیا ہم ناکردہ گناہوں کی مسلسل سزا بھگت رہے ہیں؟ ظاہر ہے ہر سمجھدار اور دانش رکھنے والا ان کا جواب ’’نہ‘‘ ہی میں دے گا تو پھر آخرخوشحالی ، آزادی، سکھ وچین،آرام ہم سے کیوں روٹھے پڑے ہیں ہم ان کی طرف جتنا سفرکرتے ہیں فاصلے ہمارے ساتھ ساتھ کیوں چلتے ہیں، اس کا بالکل آسان سا جواب یہ ہے کہ عام زندگی میں کوئی ہمارا پرس یا موبائل یا گاڑی چھینے کی کوشش کرتا ہے تو ہم شدید مزاحمت کرتے ہیں اپنے شدید غصے کا اظہارکرتے ہیں اورکوئی اگر ہمارے گھر میں گھس جائے تو ہم مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں لیکن جب دوسری طرف ہماری آزادی، اختیار، حقوق، ترقی،کامیابی، خوشحالی، خوشیاں، چین وسکون ہم سے چھینا جارہا تھا تو ہم بالکل خاموش رہے ہم نے کوئی مزاحمت نہ کی۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ اس میں ہماری خود کی مرضی اور منشا شامل تھی ورنہ ہم مزاحمت نہ کرتے مرنے مارنے پر تیار نہ ہوجاتے لیکن ہم تو بالکل خاموش رہے مزاحمت تو دورکی بات ہم نے تو اپنی آواز بلند کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ اب بیٹھے دن رات قسمت کو برا بھلا کہتے پھرتے ہیں۔ قسمت کے پیچھے سارا دن لٹھ لیے لیے گھومتے رہتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ہم سے سوال کرتا ہے کہ آپ کیوں بد حال اور برباد ہیں اور لیٹرے کیوں خوشحال ہیں تو ہمارا فوراً جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’اپنی اپنی قسمت‘‘ ۔اس قسمت نے انسان کو جتنا گمراہ کر رکھا ہے اتنا تو شیطان نے انسان کو نہیں کیا ہے۔

’’یہ قسمت‘‘ اصل میں انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ قسمت انسان کوکچھ نہیں کرنے دیتی ہے اس کو نکما، بزدل اورکاہل بنا د یتی ہے اس کو ڈرپوک بنا دیتی ہے۔ ارسطو نے کہا تھا ’’کیا چاہتا ہے تو؟ میں تجھے سب کچھ دوں گا تو خود کو پہچان۔‘‘ طالب علموں کے سامنے تقریرکرتے ہوئے ایمرسن نے کہا تھا ’’من کے ہارے ہار ہے من کے جیتے جیت‘‘ یہ صرف کہاوت نہیں ہے بلکہ طاقت کا اہم ذریعہ ہے جو آدمی اس کہاوت کا مطلب جان لیتا ہے اس کے لیے دنیا میں کوئی کام ناممکن یا مشکل نہیں رہ جاتا ہے۔ من کی طاقت ناقابل شکست ہے، من کی طاقت ساری جسمانی کمزوریوں پر فتح حاصل کرلیتی ہے جب سان فرانسسکو میں زلزلہ آیا تھا تو لقوے کے بہت سارے پرانے مریض شفایا ب ہوگئے تھے یہ کوئی قدرت کا کرشمہ نہیں تھا ایسا صرف من کی طاقت کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ زلزلے آتے ہی لوگوں کی روحانی طاقتیں جاگ اٹھیں۔ دل کی تمنا، جذبہ وجوش کے سارے احساسات آکرآخر ی حدوں پر پہنچ گئے، لقوے کی کمزوری ان کے جوش کی لپیٹ میں پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی اور لوگ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے۔

ایک فلاسفر سے ایک آدمی نے پوچھا ’’انسان کے لیے سب سے زیادہ خطرناک بات کیا ہے؟ ایک بات ہے وہ موت سے بھی زیادہ خطرناک ہے پوچھنے والا چونکا ’’موت سے بھی زیادہ خطرناک؟ ہاں اور وہ ہے مایوسی‘‘ یاد رکھیں مایوسی انسان کو آہستہ آہستہ ذلیل کرتی ہے تھوڑا تھوڑا مارتی ہے اگر آپ کو روز تھوڑا تھوڑا مرنا پسند ہے تو پھر آپ روز تھوڑا تھوڑا مرنے کے مزے لیتے رہیں اگر نہیں تو پھر اٹھ کھڑے ہوں خوشحالی،کامیابی، ترقی، آزادی، چین وسکون اور خوشیاں آپ ہی کے پاس بیٹھ ہوئی ہیں بس آپ کے اٹھنے کی منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔