اڑ جاؤ، لڑ جاؤ، بھڑ جاؤ

اقبال خورشید  منگل 9 جنوری 2018

مبارک ہو،امریکا نے ہماری امداد بندکردی ۔

مبارک ہو،امداد کی معطلی کے باوجود ہم ایک طاقتور فوج ہیں۔ مبارک ہو، امداد کی بندش کے بعد خواجہ آصف اب پاک امریکا اتحاد کو ختم سمجھتے ہیں۔مبارک ہو، دفتر خارجہ نے ٹرمپ کا ٹویٹ مسترد کردیا ہے۔ مبارک ہو، سیکریٹری خارجہ نے اسے سمجھ سے بالاتر قرار دیتے ہوئے امریکی سفارت خانے سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ مبارک ہو، وزیراعظم نے اپنے دھیمے لہجے میں کہہ دیا ہے کہ امریکی امداد بند ہونے سے فرق نہیں پڑے گا۔مبارک ہو، مستقبل کے وزیر اعظم عمران خان ہاتھ جوڑ چکے ہیں کہ اب امداد مانگنا بندکردو۔مبارک ہو، شہباز شریف یہ پکار اٹھے ہیں کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے، مگر امداد نہیں لیں گے۔مبارک ہو،طاہر قادری بھی ’’امریکا جان لے‘‘ جیسے طرز تخاطب کے ساتھ سپرپاورکو دھمکاچکے ہیں۔ مبارک ہو، مبارک ہو۔

مبارک باد کا یہ سلسلہ بے انت ہے صاحب۔ اگر تمام شخصیات کے بیانات کو ایک ایک سطر بھی دی جائے، تو کئی مضامین بن جائیں، جن میں ان غیورکالم نگارکے بیانات بھی شامل ہو ں گے، جو اپنی دکان چمکانے کو ایک عرصے سے جذباتیت کا چورن بیچ رہے ہیں۔ جو خود تو مغربی لباس پہنتے ہیں، مغربی طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر اوروں کو وقت کاپہیہ الٹا چلانے کی تسبیح پڑھاتے ہیں۔ جن کے اپنے بچے مغرب میں زیر تعلیم ہیں اوریہ مغرب کے زوال کی پیش گوئیاں ٹھیلے پر رکھے بیچ رہے ہیں۔ جنھوں نے اپنے لیے الگ، اپنے معصوم قارئین کے لیے الگ بے حیائی کے معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ جو طالبان اور داعش کی کارروائیوں کو جواز میں ملفوف کرکے پیش کرنے میںطاق ہیں۔ حب الوطنی اور مذہبیت کو اپنے مفاد کے لیے بیچنے والا یہ طبقہ بھی ٹرمپ کی دھمکی کے بعد، امداد بند ہونے کے بعد، پاکستان کا نام مذہبی آزادی کی سنگین خلا ف ورزیوں کی واچ لسٹ میںڈالے جانے کے بعد بغلیں بجاتا نظر آتا ہے۔ اڑ جاؤ، لڑ جاؤ، بھڑجاؤ، مرجاؤ، ان کا منتر ہے، اگر ہم میںکوئی غیرملکی ایجنٹ ہے، تو یہیں ہیں صاحب ۔

خیر، ان وطن دشمنوں کے تذکرے کو رہنے دیتے ہیں، ہم پھر مبارک باد کی سمت پلٹتے ہیں۔ میں تہہ دل سے قوم کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا ہم سے روٹھ گیا ہے، ہم پر ایک مشکل آن پڑی ہے، ہم ایک مصیبت میں پھنس گئے ہیںکہ جب مصائب آتے ہیں، تب ہی انسان ان سے نکلنے کی راہ تلاش کرتا ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری تھی،جو ٹرمپ کی منظر میں آمد کے بعد برفیلی ہواؤں میں بدل گئی۔

بھارتی لابی نے سفارتی جنگ تو عرصہ ہوا جیت لی تھی، مگر ٹرمپ کے بعد اس جیت پر تصدیق کی مہر ثبت ہوئی۔ مودی منظر نظر ٹھہرے اور ایسا بے سبب نہیں۔ ہندوستان اپنی تمام تر غربت اور مسائل کے باوجود ایک ابھرتی ہوئی قوت ہے۔ ایک بڑی مارکیٹ ۔ادھرخطے کی بدلتی صورتحال، چین کا بڑھتا اثر، سی پیک منصوبہ اور دیگر قوتوں کی دلچسپی کے باعث امریکا کے لیے توازن کچھ بگڑگیا ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ہندوستان کو استعمال کررہا ہے۔ اسے خطے کا تھانے دار بنانا چاہتا ہے۔پاکستان سے برتی جانے والی بے رخی کا سبب یہی اور یہ بے رخی مستقل نہیں۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، نیویارک ٹائمز کے وہ اقتباسات گردش میں ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ خراب تعلقات امریکا کے مفاد میں نہیں۔ امریکی اعلیٰ سرکاری عہدے دار اپنے حالیہ بیانات میں جہاں پاکستان کو دھمکاتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اب بھی پاکستان کے ساتھ ملکرکام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ٹرمپ کا ٹویٹ بلاشبہ امریکی پالیسی نہیں۔البتہ اس میں ان کی پالیسی کی جھلک ضرور ہے۔ٹرمپ کا ذکر آیا، توMichael Wolff کی تازہ کتاب Fire and Fury کا تذکرہ بھی ضروری، جس میں ایک سے بڑھ کر ایک دل چسپ انکشاف کیا گیا ہے، جسے ٹرمپ کو الیکشن کی رات اپنی جیت کا یقین نہیں تھا، وہ وائٹ ہاؤس جانے سے خوف زدہ تھے، ان کے بیٹے نے روسی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کیں، ان کی بیٹی اُن کے بالوں کا مذاق اڑاتی ہے، ٹرمپ دوستوں کی بیویوں پر نظر رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ کے سخت ٹویٹ کے باوجود امریکا دھیرے دھیرے نرم پڑجائے گا، البتہ ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ ابھی ہمارا کلی انحصار چین پر ہے۔ کوئی رشتہ فقط خلوص پرنہیں ٹک سکتا، یہ مشترکہ مفاد کا کھیل ہے۔ ہمالیہ سے بلند دوستی کے باوجود ہماراایک بازو الگ ہوا اور ہمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں60 ہزار جانیں قربان کرنی پڑیں۔ نکتہ یہ ہے کہ اصل جنگ آپ کو خود ہی لڑنی ہوتی ہے۔ چین کے روس سے بڑھتے رشتوں کے باعث ہم نے بھی اپنی آنکھوں میں یہ خواب سجا لیے ہیں کہ جس سوویت یونین پرکل ہم نے کاری ضرب لگائی تھی (اس طرح کے لطیفے سنانے والے چند بزرگ کالم کار ا بھی زندہ ہیں) اب اس سے پینگیں بڑھا سکتے ہیں۔البتہ یہ بات ہمیں بڑی راحت فراہم کرتی ہے کہ چینی اور روسی صدورکا اگلے چار پانچ برس تک اپنے اپنے ممالک میں کلہ مضبوط ہے۔ ادھر طیب اردوان ،جن کے لیے رطب اللسان ہوتے ہوئے ہم ان کے آمرانہ اقدامات کو سہولت سے نظراندازکردیتے ہیں، جم کر بیٹھے ہیں، سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔

تو مبارک ہو کہ ٹرمپ نے ہماری امداد بند کر دی کہ ہمارے پاس چین جیسا دوست ہے، روس موجود ہے، ترکی جیسا برادر اسلامی ملک ہے، سعودی عرب جیسا مسلم دنیا کا قائد ہے، ڈاکٹر قدیر ہمیں ایٹم بم دے چکے ہیں، پھر اسلام کے نام پر بننے والی ایک ریاست ہمارے پاس ہے، اٹھارہ کروڑ جذبہ ایمان سے سرشار غیور عوام ہیں، اڑ جاؤ،لڑ جاؤ، بھڑ جاؤ، مر جاؤوالا منتر ہے۔

تو صاحب ہم روکھی سوکھی کھانے کو تیار ہیں۔اور یوں بھی اس میں خیر ہے۔ اس ملک کی اکثریت دال روٹی کھا کر شکر کرتی ہے، کل روکھی سوکھی کھائے گی، تو مزید شکر کرے گی، اور شکر اللہ کو پسند ہے۔

حروف آخر:عین ممکن ہے، اس تحریر نے ابہام اور التباس کو جنم دیا ہو، تو اس کا سادہ اور براہ راست خلاصہ کیے دیتے ہیں: صاحب، امریکا سپرپاور ضرور ہے، اور ہمیں اس کی ناراضی کو اہمیت دینی چاہیے، مگر وہ اکلوتی قوت نہیں، ہمیں مزید اتحادی بنانے اور ان سے تعلقات مضبوط کرنے ہوں،اور یہ مضبوطی تب ہی ممکن ہے، جب تعلقات سے دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہو (جیسے فلسطین کے لیے آواز اٹھانے والے ترکی کا کچھ مفاد اسرائیل سے بھی وابستہ ہے) موجودہ مشکل نے ہمیں پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا ہے (جسے شاید ہم پھر گنوا دیں)، اس مقصد میں کامیابی کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہوتعلیم و تحقیق پر توجہ دیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کچھ کر گزرنے کی ٹھانیں۔علم ہی اصل اتحادی ہوتا ہے بھائی۔

نوٹ : آخری مبارک باداس معصوم خواہش کے لیے جس نے عمران خان کے دل میں تیسری بار جنم لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔