سنیما گھروں میں قومی ترانے کا احترام کرایا جائے، وزارت اطلاعات کو تجویز

قیصر افتخار  بدھ 10 جنوری 2018
سینما میں قومی ترانہ چلانے کے قانون کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا تووڈیو کوبہتربنایا جائے،ڈسٹری بیوٹر،
 فوٹو: فائل

سینما میں قومی ترانہ چلانے کے قانون کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا تووڈیو کوبہتربنایا جائے،ڈسٹری بیوٹر، فوٹو: فائل

 لاہور: پاکستان کے قانون کے مطابق سینما گھروں کی اکثریت ملکی اورغیرملکی فلموں کی نمائش سے قبل پاکستان کا قومی ترانہ دکھانے کے قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ کچھ سینما گھروں میں مکمل اوراکثریت میں ادھورا قومی ترانہ دکھایا جا رہا ہے، تاہم اس بات کویقینی نہیں بنایا جا رہا کہ فلم بینوں کونشستوں سے کھڑا ہونے پرزوردیا جائے۔

اس صورتحال کے تناظرمیں معروف سینما اونر، ڈسٹری بیوٹراورامپورٹرندیم مانڈوی والہ کی جانب سے ایک تحریری تجویزوفاقی وزارت اطلاعات ونشریات کودی گئی ہے۔ جس میں انھوں نے موقف اختیارکیا ہے کہ اس قانون پرعملدرآمد کیلیے باقاعدہ طریقہ کاروضح کیا جائے یا پھر بھارت کی طرزپرقومی ترانہ دکھانا ختم کردیا جائے۔ واضح رہے کہ سینما گھروں میں قومی ترانہ دکھانے کا قانون 1932ء میں بنا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ قانون جاری رہا اورتاحال یہ قانون موجود ہے۔ لیکن ایک دورتھا جب ہمارے ہاں صرف باخبررہنے کیلیے ریڈیوہی واحد سہارا تھا۔ ایسے میں لوگوں کو قومی ترانہ دکھانے کا سلسلہ جاری تھا، لیکن اس کے ساتھ جہاں سینما گھروں میں قومی ترانہ پیش کرنا ضروری تھا ، وہیں ایک نیوزریل بھی چلائی جاتی تھی۔

وقت گزرتا رہا اورپھرپاکستان میں 60ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن آگیا۔ اس کی ابتداء اوراختتام پر قومی ترانہ چلایا جاتا تھا۔ پھرجدت آنے لگی اورایک سرکاری چینل کی جگہ پرائیویٹ چینلزنے بھی کام شروع کیا۔ ان کی 24 گھنٹے جاری رہنے والی نشریات کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن سے بھی قومی ترانہ غائب ہوگیا۔ اس پرتوکوئی آواز نہیں اٹھاتا، مگرسینماگھروں میں قومی ترانہ دکھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ قومی ترانہ سے لوگوں کا ایک جذباتی لگاؤ ہے لیکن سینما گھروں میں جب لوگ انٹرٹین ہونے آتے ہیں تووہ قومی ترانہ کا احترام نہیں کرتے، جس پرافسوس بھی ہوتا ہے اوراسی لیے میں نے موجودہ وفاقی وزارت اطلاعات ونشریات کوباقاعدہ تحریری درخواست بھی دی تھی کہ اگرسینما گھروں میں قومی ترانہ چلانے کے قانون کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا تواس کی وڈیو کوبہتربنایا جائے۔ اس تجویزپرعملدرآمد کیلیے کارروائی جاری ہے۔

جہاں تک بات قانون کی پابندی کی ہے توقانون کے مطابق توآج بھی ہم لوگ قومی ترانہ کے ساتھ ایک نیوز ریل چلانے کے پابند ہیں لیکن ملک بھرکے کسی سینما گھرمیں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب وزارت اطلاعات ہمیں وہ نیوز ریل نہیں بھیجتی۔ جس کے عوض کسی دورمیں 50روپے فیس بھی وصول کی جاتی تھی۔ جہاں تک بات دنیا بھرکے سینما گھروں کی ہے توپہلے ہرملک میں یہی قانون تھا اور نیشنل ازم کے فروغ کیلیے قومی ترانہ چلایا جاتا تھا لیکن اب تو گنتی کے چند ملک باقی بچے ہیں ، جہاں قومی ترانہ چلانے کے قانون پرعملدرآمد ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کے دورمیں اب توجب دل چاہے قومی ترانہ دیکھا اورسنا جاسکتا ہے۔

اس لیے اگرقانون میں ترمیم ہوجائے توغلط نہ ہوگا۔ دوسری جانب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے ’’ایکسپریس ‘‘سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جذبہ حب الوطنی کومضبوط اوراجاگر کرنے کیلیے قومی ترانہ ہرصورت دکھانا چاہیے اوراس پرعملدرآمد کیلیے حکومت کونوٹس لینا چاہیے۔ سینما اونرزایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ضوریزلاشاری نے کہا کہ قومی ترانہ چلانا ہمارے قانون کا حصہ ہے اورقانون کا احترام کرنا توہماری اولین ذمے داری ہے۔ اس لیے ہم سینما گھروں میں قومی ترانہ چلانے کی مخالفت نہیں کرتے۔ جہاں تک اس کوچلانے اورروکنے کی بات ہے تویہ کام حکومت کا ہے۔ حکومت اس حوالے سے جوبھی احکامات جاری کرے گی، ہم اس کے مطابق کام کرنے کے پابند ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔