تیزی سے بڑھتا ہوا بحران

جاوید قاضی  جمعرات 11 جنوری 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بلوچستان سے نکلے سیاسی بحران نے پہلے ہی سے سیاسی کشمکش میں پڑے ہوئے اس ملک اندرونی بحران کو اور اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اب بات دور تک جائے گی اور وفاقی حکومت کے پانچ سال شاید پورے نہ ہوں، اگرخیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور خود سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی استعفیٰ دیں اورآخر تین صوبوں کی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوں۔ یہ اپنے جوہر میں کوئی آئینی بحران تو نہیں بنا رہے۔

جس طرح نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کے لیے سینیٹ سست رفتاری سے کام لے رہی تھی مگر ایک بہت بڑا سیاسی حوالے سے پنڈورا باکس کھل گیا ہے، عین اس وقت جب لاہور میں طاہر القادری کی قیادت میں جمع ہوئی ساری اپوزیشن 17 جنوری آخری انتباہ دے چکی ہے، ان کے مطالبات نہ پورے ہونے کی صورت میں وہ لاہور میں دہرنا لگائیں گے۔ 2018 الیکشن کا سال تو ہے مگر کیا سینیٹ کے انتخابات ہو سکیں گے؟ اگر صرف بلوچستان کی اسمبلی جاتی ہے تو اس سے سینیٹ کے انتخابات پر اثر نہیں پڑے گا۔ ہاں مگر تین صوبائی اسمبلیوں کے ایک ساتھ جانے سے اثر پڑے گا۔ وہ پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد ہوں گے۔

اس وقت حزب اختلاف بہت جامع اور وسیع ہوگیا ہے۔ اس میں اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ حالات میاں صاحب کے لیے یہاں تک بگڑگئے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان بھی ان میں سے ہاتھ نکالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب مسلسل تیز بیانات سے گریز نہیں کر رہے ۔ وہ کہیں پر بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کے ان کے یہ بیانات خود اب سسٹم کے لیے مسئلہ بن رہے ہیں۔

میاں صاحب ہوسکتا ہے اپنے ان بیانات سے اپنے ووٹرز کو الیکشن مہم میں گرم تو کرسکیں گے لیکن کہیں پر بھی سسٹم ڈی ریل ہوا لوگ گلیوں میں ان کی حمایت کے لیے نہیں نکلیں گے اور اگر سسٹم کسی شب خون کا متحمل نہیں ہوا تو بھی میاں صاحب کا نقصان ہے کیونکہ وہ پھر یہ باور نہیں کروا پائیں گے کہ آمریت آگئی اور لہذا وہ آمریت کو چیلنج کرتے ہیں۔

اگر براہ راست آمریت نہیں آتی اور کوئی ایسا بیچ والا راستہ نکالا جاتا ہے تو وہ بھی کوئی اچھے نتائج نہیں دے سکے گا۔ لہذا اس ملک کے لیے ایک ہی بات بہتر ہوگی وہ ہے عام انتخابات اور صوبائی اسمبلی جیسے ٹوٹے تو وہیں الیکشن کمیشن قوانین کے تحت انتخابات کروائے اور یہی آئینی تقاضہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں پہلی بار صوبائی انتخابات و قومی بھی ایک ساتھ نہیں ہو پائیں گے۔ ہندوستان میں قومی و ریاستی انتخابات ایک ساتھ ہوتے تھے پھر ایسا نہیں رہا اس لیے کے وہاں اسمبلیاں تحلیل ہوتی رہیں۔ اب ہر وقت کہیں نہ کہیں ہندوستان میں انتخابات برپا رہتے ہیں۔

ہماری جمہوریت کے لیے یہ نیا موڑ ہو اس کو سیاسی و آئینی بحران بھی کہا جائے لیکن یہ سب بظاہر جمہوری عمل ہے ۔ پس پردہ کون ہے کون نہیں ہے۔ اس میں ایک تو ہماری عادت خراب ہے کہ ہم ہمیشہ ان چیزوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہاتھ دیکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے اور ممکن بھی لیکن جب کوئی سسٹم نہیں جارہا تو اس بات پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ ادارے و اداروں کے اندر اہم اشخاص کچھ رائے بھی رکھتے ہیں اور کچھ کرتے یا کرنا بھی چاہتے ہوں، مگر ادارہ اسی وقت ملوث سمجھا جائے گا جب سسٹم بیٹھ جائے۔

ہماری جمہوریت ، ہمارے لوگ اور ہم سب اتنا ارتقا نہیں کر پائے ہیں جس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ ہمارا عکس ہے اور خوش آیند بات یہ ہے کہ ہم اتنے زینے چڑھ چکے ہیں کہ دو مسلسل بیلٹ باکس وقت پر ہوئے اور تیسرا شاید وقت سے پہلے ہو۔

لیکن اب بھی یہ سب کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ سینیٹ کے انتخابات مارچ میں ہو پائیں گے یا نہیں ابھی تک صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان گئے ہیں ۔ اگر کوئی حکومت وہاں نہیں بنا سکتا اور صوبائی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو بھی سینیٹ کے انتخابات رکتے نہیں۔ سینیٹ سے آدھے ممبران یعنی 23 میں 12 تب منتخب ہوں گے جب بلوچستان اسمبلی دوبارہ آئے گی۔ عمران خان صاحب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ہاں اگر پیپلز پارٹی نے اس بحران کو اور تیز کرنے کے لیے اگر سندھ کی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے گورنرکوکہا تو یہ ایک ایسا اقدام ہوگا جو پیپلز پارٹی کی تاریخ کا منفرد فیصلہ ہوگا۔ او اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اپنا جمہوری قوت ہونے والا کردار تیزی سے مٹا ئے گی۔ کیا وہ واقعی وہ بھی طاہر القادری کے دھرنے کا حصہ بنیں گے، اگر بنیں گے تو اس کا مطلب وہ عمران خان کے ساتھ بیٹھیں گے۔آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔

میاں صاحب اکثر حلقوں میں اب کے بار آسانی سے یہ باورکروائیں گے وہ، جمہوری قوتوں کا ہر اول دستہ ہیں ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سب جمہوری عمل ہے۔ ادھر سے بھی اور ادھر سے بھی تا وقت کوئی واضح انداز میں حرکت نظر آئے۔ جس طرح کل PNA  کی تحریک سے اٹھی تھی۔ اس کے پیچھے CIA تھی ۔ اس بات پر دو رائے نہیں ہوسکتی ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ اگرکوئی باہر قوت نہ بھی ہو لیکن وہ میاں صاحب کی زبان کے مستفید ضرور ہیں ۔ اس بات کا فیصلہ میاں صاحب نے کرنا ہے۔

سپریم کورٹ کے Judicial Activism  کی گنجائش بنتی ہے گو چاہے کتنا بھی یہ تحرک خراب ہے خود Rule of Law  کی نفی کیوں نہ ہو ۔ وہ اس لیے کہ یہاں پر بھی حکمرانوں کی نا اہلی کا خیال پیدا کرتی ہے۔ ملک میں لگ بھگ 53000 بچے ہر سال پانی کی ناقص معیارکی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں نے متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے اور ایسے سیکڑوں محکمے ہیں جو عوام کو سہولت دینے کے لیے ہیں لیکن بجائے رحمت کے وہ زحمت بن چکے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ووٹرز بیلٹ باکس کے ذریعے اپنے لیڈران کا احتساب کرنے میں ناکام گئے ہیں۔ ووٹرز کی پسماندگی خود Judicial Activism  کے لیے space نکالتی ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں سپریم کورٹ کے Suo moto  ایکشن میاں صاحب کی زبان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔

اگر جنوری جوںکا توں نکل جائے اور میاں صاحب بھی سنبھل کر بولیں ( جس کے آثار کم دکھائے دیتے ہیں) تو آگے کا وقت یہ حکومت نکال لے گی اس طرح انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا واقعی یہ حکومت جوں کا توں جنوری نکال پائے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔