زینب قتل ؛ قصورمیں دوسرے دن بھی احتجاج، مظاہرین کا رکن اسمبلی کے دفترپردھاوا

ویب ڈیسک  جمعرات 11 جنوری 2018

قصور: ننھی زینب کے قتل کے خلاف شہر میں دوسرے دن بھی احتجاج جاری ہے اور مشتعل افراد نے رکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدر انصاری کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کے بعد ان کی دو گاڑیوں کو آگ لگادی ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق قصورکے تھانہ صدرکی حدود سے 8 سالہ زینب کے ساتھ زیادتی اورقتل کے بعد صورت حال دوسرے دن بھی خراب ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: قصور میں 8 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل

اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف قصور پہنچے اور انہوں نے ننھی زینب کے گھر والوں کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی لیکن عوام کے جذبات ٹھنڈے ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ شہرمیں مکمل ہڑتال ہے، مشتعل مظاہرین نے سول اسپتال کے سامنے اسٹیل باغ چوک کو چاروں اطراف سے بند کردیا ہے۔ احتجاج کی وجہ سے قصور کا دیگر شہروں سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا ہے۔

مظاہرین نے پہلے ڈسٹرکٹ اسپتال اور پھررکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدرانصاری کے دفترپردھاوا بول دیا، مشتعل افراد نے پہلے دفتر میں توڑ پھوڑ کی اور پھر رکن اسمبلی کے زیر استعمال دو گاڑیوں کو نذرآتش کردیا۔ پولیس کی بھاری نفری شہر میں طلب کئے جانے کے باوجود گزشتہ روز جیسے سانحے سے بچنے کے لئے پولیس اہلکاروں کو مشتعل مظاہرین سے فی الحال دوررہنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: زینب کے اہل خانہ کوانصاف ضرور ملے گا

زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کے دوران گزشتہ روز پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق شعیب اور محمد علی کی نماز جنازہ بھی ادا کردی گئی ہے، نماز جنازہ تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ کے رہنما مولانا خادم حسین رضوی نے پڑھائی، نمازجنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: آرمی چیف کی فوج کو زینب کے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد کی ہدایت

دوسری جانب عوام کے غم و غصے، اعلیٰ عدلیہ کے از خود نوٹس اور آرمی چیف کی جانب سے پاک فوج کو ملزم کی گرفتاری کے لیے تعاون کی ہدایت کے بعد پولیس اور دیگر ادارے بھی خواب غفلت سے جاگ چکے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزم کا خاکہ جاری کیا گیا ہے۔ جس سے مشابہت رکھنے والے ایک مشتبہ ملزم کو حساس اداروں نے گرفتارکرکے لاہور منتقل کردیا ہے تاہم پولیس حکام اس گرفتاری کی تصدیق نہیں کررہے۔

چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ زینب کیس میں صرف بیان بازی نہیں کی جائے بلکہ ضیاء الحق دور کے پپو کیس کی طرح مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے اور جنرل ضیاء الحق کے حکم کی طرح سورج غروب ہونے تک مجرم کی لاش کو وہیں لٹکا رہنے دیا جائے۔ چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن میں قرآن پاک کی بے حرمتی سے منع کرنے پر خواتین کو گولیاں مارنے پر بھی میں نے فوجی عدالتوں جیسی خصوصی عدالتیں بنانے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ اس سانحہ کے بعد چوہدری پرویزالہٰی سب سے پہلے منہاج القرآن پہنچے تھے۔

قصور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم پاکستان خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ ہر ایوان میں زینب کے لیے انصاف کی بات ہورہی ہے، گھروں میں بیٹیوں نے ٹی وی دیکھ کرپوچھا زینب کو کیا ہوا تو ہمارے پاس بتانے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ زینب کے قتل کا واقعہ حکومت پنجاب کے لیے چیلنج ہے کیوں کہ یہ صرف قصور کی نہیں ہم سب کی بیٹی تھی اور اس معاملے میں پولیس کو اپنا رویہ نرم رکھنا چاہیے اور پولیس کو مظاہرین کےساتھ پرامن طریقے سے معاملہ حل کرنا ہوگا جب کہ  فوری طور پر مجرموں کو بے نقاب کر کے سزا دی جائے اُمید کرتے ہیں یہ آخری واقعہ ہوگا۔

قصور میں کمسن بچی زینب سے زیادتی اور قتل پرعالمی میڈیا بھی خاموش نہ رہا، بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے کہ زینب کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد نامعلوم ملزم نے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا جب کہ زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔

ترجمان پنجاب حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قصور میں 8 سالہ زینب کے قاتل کی نشاندہی کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ نشاندہی کرنے والا نام بھی راز میں رکھا جائے گا۔ دوسری جانب احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے دونوں شہریوں کے ورثا کو 30،30 لاکھ روپے امداد اور دونوں کے خاندان کے ایک ایک فرد کو سرکاری نوکری دی جائے گی۔

واضح رہے کہ زینب کو ایک ہفتے قبل اغوا کیا گیا تھا، پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے کے باوجود معصوم بچی کو بازیاب نہیں کراسکی تھی تاہم منگل کی شام اس کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زینب کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے، قصورمیں زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ 2016 سے اب تک 12 بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جاچکا ہے لیکن تاحال کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔