سرفراز احمد کو باہر نکالیں

سلیم خالق  جمعرات 11 جنوری 2018
کسی کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دینا اور پھر واپس زمین پر پٹخ دینا اب ہماری عادت بن گئی ہے؛ فوٹوفائل

کسی کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دینا اور پھر واپس زمین پر پٹخ دینا اب ہماری عادت بن گئی ہے؛ فوٹوفائل

’’سرفرازاحمد ختم ہو گیا، دیکھیں ٹیم کا کیا حال کر دیا، وہ نیوزی لینڈ سے دونوں میچز ہار گئی، کپتان کی اپنی پرفارمنس کیا ہے، ہر وقت کھلاڑیوں کو ڈانٹتا رہتا ہے‘‘

پاکستان کے ہزاروں یا لاکھوں نام نہاد کرکٹ مبصرین میں سے بیشتر ان دنوں اسی قسم کی باتیں کر رہے ہیں، ہماری یادداشت کا یہ عالم ہے کہ یہ بھول گئے اسی کپتان نے چند ماہ پہلے آپ کو تاریخ میں پہلی بار چیمپئنز ٹرافی کا فاتح بنایا تھا، اس وقت اگر وہ ڈانٹے تو منہ سے پھول جھڑتے نظر آتے تھے آج صورتحال تبدیل ہو گئی، جلدی سے کسی کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دینا اور پھر واپس زمین پر پٹخ دینا اب ہماری عادت بن گئی ہے،خدارا ایسا نہ کریں۔

کافی عرصے بعد ٹیم سیٹ ہونا شروع ہوئی ہے اسے وقت دیں، سرفراز کی کارکردگی یقیناً شایان شان نہیں ہے، ایسا بیشتر کپتانوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ خود سے زیادہ ٹیم کیلیے سوچنے لگتے ہیں یوں انفرادی کارکردگی کا گراف گر جاتا ہے، سرفراز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،انھوں نے اپنا بیٹنگ آرڈر بہت نیچے کر لیا، آخری 11 میں سے 6 میچز میں تو ان کی بیٹنگ ہی نہیں آئی، جب کھیلنے کا موقع ملا تو پرفارم نہ کر سکے، آخری نصف سنچری سری لنکا کیخلاف کارڈف میں چیمپئنز ٹرافی کے دوران بنائی تھی، انھیں بحالی اعتماد کیلیے اب ون ڈاؤن یا چوتھے نمبر پر کھیلنا چاہیے۔

سرفراز فائٹر کرکٹر ہیں اور اتنی آسانی سے ہار نہیں مانیں گے، البتہ شائقین بھی انھیں تھوڑا وقت تو دیں، میںگذشتہ دنوں مرزا اقبال بیگ بھائی کے ٹی وی پروگرام میں مدعو تھا، وہاں انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’بعض لوگوں کا خیال ہے جس طرح آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے بعد یونس خان کو ساتھیوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہیں سرفراز کے ساتھ بھی ایسا تو نہیں ہو رہا‘‘۔

میں اس تاثر سے متفق نہیں نیوزی لینڈ میں تو بڑی بڑی ٹیمیں جدوجہد کرتی ہیں،البتہ یہ کوئی جواز نہیں اور انٹرنیشنل ٹیموں کو ہر قسم کی کنڈیشنز میں اچھا کھیل پیش کرنا چاہیے،اب پاکستانی ٹیم وہ ماضی جیسے اسٹارز بھی نہیں جو بغاوت کریں، بس پرفارمنس اچھی نہیں ہے، رہی بات کپتان کی ڈانٹ ڈپٹ کی تو وہ اب ان کا اسٹائل بن چکا، کھلاڑی بھی اس کے عادی ہیں اور فیلڈ سے باہر سب بھلا دیتے ہیں،میری سب سے یہ گذارش ہے کہ چند میچز کی پرفارمنس پر کپتان کونکالنے کی باتیں نہ کریں اسی وجہ سے ٹیم سیٹ نہیں ہو پاتی۔

ایک سیریز اچھی نہیں جا رہی تو انتظار کریں، یہی کھلاڑی پاکستان کو دوبارہ فتوحات دلائیں گے، رہی بات نیوزی لینڈ میں مسلسل دو شکستوں کی تواب تک جو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں ان میں سب سے اہم سینئرز کا پرفارم نہ کرنا ہے، مشکل ٹورزمیں ٹیم کا انحصار تجربہ کار کھلاڑیوں پر ہی ہوتا ہے مگر کیویز کے دیس میں شعیب ملک اور اظہر علی بھی کپتان سرفراز احمد کی طرح اچھا کھیل پیش نہیں کر سکے ہیں، حفیظ کے بولنگ کرنے پر پابندی ہے انھیں بطور بیٹسمین منتخب کیا گیا۔

پہلے میچ میں ناکام ہونے کے بعد انھوں نے دوسرے میں ففٹی بنائی مگر  دونوں بار وہ غیرذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے، دوسرے ون ڈے میں جب حفیظ نے وکٹ گنوائی تو 19 اوورز باقی تھے، وہ آسانی سے آخر تک کھیل کر نہ صرف اپنی سنچری مکمل بلکہ ٹیم کا اسکور بھی 300 تک پہنچا سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہ کیا، اس سے خود ان کیلیے نقصان ہو رہا ہے کیونکہ بطور بیٹسمین پرفارم کرنے کیلیے مسلسل بڑی اننگز کھیلنے کی ضرورت ہے، انھیں آخری سنچری بنائے ہوئے تیسرا سال جاری ہے۔

اسی طرح شعیب ملک کی آخری 12 میچز میں صرف 2 ففٹیز ہیں، انھیں بھی کارکردگی کا معیار بڑھانا ہوگا،اظہر نے چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں نصف سنچریاں بنائیں اور فخر زمان کے ساتھ ٹیم کو سنچری شراکت بھی فراہم کی تھی، بدقسمتی سے انجری کے سبب وہ سری لنکا کیخلاف یو اے ای سیریز میں نہ کھیل سکے، اب واپس آئے تو نیوزی لینڈ سے دونوں ون ڈے میچز میں کارکردگی اچھی نہیں رہی۔

ساتھ ہی پہلے میچ میں شانداربیٹنگ کا مظاہرہ کرنے والے فخرزمان بھی انجرڈ ہو کر دوسرے ون ڈے میں حصہ نہ لے سکے، امام الحق نے سری لنکا کیخلاف ڈیبیوپر سنچری بنائی تھی مگر نیوزی لینڈ کی مشکل کنڈیشز میں جدوجہد کرتے دکھائی دیے، وہاں اظہراور فخر کی جوڑی ہی بہتر رہے گی، سیریز سے قبل کہا جا رہا تھا کہ فخر تکنیکی طور پر مضبوط بیٹسمین نہیں لہذا ناکام رہیں گے مگر پہلے میچ میں وہی آخر تک ڈٹے رہے اور 82 پر ناقابل شکست واپس گئے۔

بابر اعظم نے 2016کے دورئہ نیوزی لینڈ میں تو مسلسل 2 ففٹیزبنائی تھیں مگر تاحال دونوں میچز میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،اس سے قبل چیمپئنز ٹرافی میں بھی ان کا بیٹ خاموش ہی رہا تھا البتہ پھر یو اے ای کی آسان پچز پر سری لنکا کی بھرپور پٹائی کرتے ہوئے مسلسل 2 سنچریاں جڑی تھیں، انھیں اپنے آپ کو بہترین بیٹسمینوں کی صف میں شامل کرانے کیلیے ہر قسم کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنا ہوگا۔

سینئرز سے ہٹ کر اس سیریز میں نوجوان بولرز نے بطور بیٹسمین بھی اچھا پرفارم کیا جو خوش آئند ہے،خاص طور پر حسن علی جس طرح حریف بولرز پر حاوی ہو کر کھیلے وہ زبردست تھا،شاداب خان کی بھی بطور بیٹسمین صلاحیتیں نکھرتی جا رہی ہیں۔

ماضی میں ان کی کوچنگ کرنے والے انگلینڈ میں رہائش پذیر کوچ نصیر احمد نے دو برس قبل ہی مجھ سے یہ کہا تھا کہ ’’شاداب میں بہترین آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت موجود ہے، اس کی بیٹنگ بھی بہت اچھی ہے‘‘ اب ان کی بات سچ ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے، سیریز سے قبل ہی کیوی کوچ نے شارٹ پچ گیندوں سے پاکستانی کھلاڑیوں کو ڈرا دیا تھا اور اب ان کی ٹیم اس ہتھیار کا بخوبی استعمال کر رہی ہے۔ سیریز میں تاحال بولرز کی کارکردگی بھی زیادہ خاص دکھائی نہیں دی۔

رومان رئیس دونوں میچز میں کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ سکے،عامر پہلے میچ میں بجھے بجھے رہے البتہ دوسرے میں بہتر بولنگ کی، حسن علی نے پہلے میچ میں تین وکٹیں لیں مگرپھر کسی کھلاڑی کو آؤٹ نہ کر سکے، فہیم اشرف کا کھیل بھی اوسط درجے کا رہا، شاداب خان تاحال وکٹ سے محروم ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

سیریز سے قبل کپتان نے کہا تھا کہ شعیب ملک کو محمد حفیظ کی جگہ بطور بولر استعمال کریں گے مگر تاحال دونوں میچز میں ایسا نہ ہوا، پہلے میچ میں تو فخرزمان تک سے بولنگ کرائی گئی مگر شعیب کی یاد نہ آئی۔خیر ابھی ہمت نہ ہاریں سیریز میں کافی میچز باقی ہیں، امید ہے کہ ٹیم عمدہ کم بیک کر کے مثبت نتائج دے گی، ہمیں بُرے وقت میں بھی اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq  پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔