صوفی کی نصیحت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 8 اگست 2012
apro-ku@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ عظیم فرمانروا ہارون الرشید اپنے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اڑنے پر بڑا پریشان تھا۔ وہ اپنی بے سکونی دور کرنے اور چین حاصل کرنے کے لیے بہت مضطرب تھا۔ بے چینی کو دور کرنے کے لیے اس نے اپنے وزیر فضل بن ربیع کو حکم دیا کہ کوئی ایسا روحانی عامل تلاش کیا جائے جو اس کی بے چین طبیعت میں سکون پیدا کردے۔

وزیر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بے شمار عامل اور عالم و فاضل لوگوں سے رجوع کیا مگر خلیفہ ہارون رشید کی بے چینی دور نہ ہوسکی، اس کے قلب کو سکون حاصل نہ ہوسکا۔ وزیر نے ایک روز خلیفہ سے کہا کہ اب صرف ایک بزرگ ہستی بچی ہے جنھوں نے دنیا کی تمام نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور وہ کسی کے جاہ و حشمت کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ اس صوفی بزرگ کا نام ہے فضل بن عیاض ۔ خلیفہ نے یہ سنا تو فوراً وزیر کو ساتھ لے کر ان صوفی بزرگ کے سادہ سے حجرے میں جا پہنچا۔ بزرگ نے دروازے پر دستک سنی اور معلوم ہوا کہ خلیفہ وقت ہارون رشید ملنے کے لیے آیا ہے تو کچھ دیر سوچنے کے بعد حجرے میں جلتا دیا بجھا دیا اور دروازہ کھول کر حجرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔

ہارون الرشید نے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے اور سلام عرض کرتے ہوئے صوفی بزرگ سے مصافحہ کیا۔ بزرگ سے ہاتھ چھوتے ہی خلیفہ نے اپنے بدن میں ایک ٹھنڈک سی محسوس کی اور پھر اپنے آنے کا مطلب عرض کیا۔ خلیفہ کی بات سن کر صوفی بزرگ نے کہا۔

’’ فرمان رسول  ہے کہ میری امت کے بدترین علما وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازوں پر جاتے ہیںاور بہترین حکمراں وہ ہیں جو علما کے در دولت پر حاضری دیتے ہیں…‘‘

خلیفہ ہارون الرشید بزرگ کی باتوں کو پرسکون انداز میں سن رہا تھا۔ بزرگ نے پھر کہا۔

’’ہارون الرشید تیرا کتنا نرم و نازک ہاتھ ہے، کاش یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے‘‘۔ یہ سن کر ہارون الرشید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ صوفی بزرگ فضیل بن عیاض نے پھر کہا ’’ہارون الرشید اپنے پاؤں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھ، اﷲ تجھ پر رحم فرمائے گا، وقت آخر کوئی وزیر کوئی مشیر تیرا رہنما نہ ہوگا، فقط تیرے اعمال تیرے کام آئیں گے‘‘ ۔ یہ سب سن کر ہارون الرشید پر رقت طاری ہوگئی۔

وزیر نے دیکھا تو بزرگ سے کہا کہ نرمی فرمائیں، ان کے حال پر ترس کھائیں، دیکھیں ان کی حالت کیسی ہو رہی ہے۔ بزرگ نے وزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’تم اور تمھارے ساتھی دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ پر گناہ کرتا جائے۔ کبھی تم لوگوں نے اسے کسی غیر شرعی فعل سے ٹوکا؟ تم ایسا کربھی کیسے سکتے ہو، تمھیں تمھاری وزارت عزیز ہے‘‘ ۔

اس کے بعد صوفی بزرگ نے خلیفہ ہارون الرشید کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ تجھ سے اپنی مخلوق کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ اگر تو اپنے چہرے کو آگ سے بچانا چاہتا ہے تو بچالے، تو ہرگز دیر نہ کر کل کسی نے نہیں دیکھا ہے، تیرے دل میں رعایاکے کسی فرد کے لیے بھی بے انصافی، کدورت یا بعض ہے تو فوراً اپنی اصلاح کرلے…‘‘

کہتے ہیں کہ بزرگ کی اس نصیحت کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی یکسر بدل گئی۔

خلیفہ ہارون رشید کا واقعہ ہم سب کے لیے حقیقی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے، خواہ میں یا آپ اس ریاست کے یا کسی صوبے کے سربراہ ہوں، یا کسی وزرات کے امین ہوں یا کسی تعلیمی، صنعتی، معاشی، مذہبی یا فلاحی ادارے کے سربراہ ہوں یا ان میں سے کسی ادارے میں اہم منصب پر فائز ہوں اور اچھے برے فیصلے کرنا آپ کے ہاتھ میں ہوں۔

آئیں سوچیں! ہم نے فیصلہ کرتے وقت میرٹ کو دیکھا، یہ دیکھا کہ کون حقدار ہے یا یہ دیکھا کہ کس کی بڑی سفارش ہے، کس سے زیادہ مالی و دیگر فوائد مل سکتے ہیں؟

آج جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں فلاحی اداروں سے امداد بھی سفارش کے بغیر نہیں ملتی، سرکاری تو کیا غیر سرکاری ملازمت بھی بغیر سفارش و رشوت کے نہیں ملتی نہ ہی حقدار کو ترقی ملتی ہے، جبکہ اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں پر براجمان لوگوں کا کیا کہنا، ان کی کار کردگی کے بارے میں کون آگاہ نہیں۔صوفی بزرگ فضیل بن عیاضؒ کی خلیفہ ہارون الرشید کو کی گئی نصیحت آج ان سب کو آواز دے رہی ہے جو اپنے قلب کی بے چینی کو محسوس کرتے بھی ہیں اور ان کے لیے بھی جو محسوس کرنے کی دولت سے بھی محروم ہیں۔

مادہ پرستی کے باعث یورپ کے آئیڈیل ممالک میں بھی نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آج صرف مغرب میں ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں۔ ہم میں سے نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی دولت میں اضافہ اور سکون میں کمی آرہی ہے۔ سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹر سائیکل والا کار، کار والا لگژری سواری کے چکر میں اپنا سکون تک غارت کرنے کو تیار ہے، تو کوئی اپنے وطن میں بینک اکاوئنٹ بھرنے پر بھی مطمعئن نہیں بلکہ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں اکائونٹس پر بھی اسے سکون نہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے عقاید کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے انسان کو رزق دینے کا تو وعدہ کیا۔

لیکن نجات کا نہیں مگر ہم ہیں کہ رزق اپنے ہاتھ میں لیے جانے کی کوشش میں مادہ پرست بنے جارہے ہیں۔
مولانا رومی اپنی ایک حکایت میں فرماتے ہیں کہ ایک گائے روزانہ جنگل میں جاکر خوب سیر ہوکر کھاتی مگر رات بھر اس غم میں دبلی ہوجاتی کہ صبح اس کو کچھ کھانے کو ملے گا بھی یا نہیں؟ روز رات کو اس غم میں دبلی ہوجاتی اور صبح کو کھاکر پھر بھلی چنگی ہوجاتی۔ وہ اگلے دن کی فکر کرتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ روزانہ اس کو کون رزق دے رہا ہے۔ انسان کا نفس بھی ایسا ہی ہے جو کبھی مطمعئن نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔