معاشرے جنگل کیوں بنتے ہیں ؟

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 13 جنوری 2018

جب معاشرے جنگل بن جاتے ہیں تو انسان جانور بن جاتے ہیں جب انسان جانور بن جاتے ہیں تو پھر کوئی زینب محفوظ نہیں رہتی ، کوئی زینب زندہ نہیں رہتی۔ آئیں! یہ دیکھتے ہیں کہ معاشرے جنگل کیوں بنتے ہیں ۔ رابندر ناتھ ٹیگور لکھتا ہے کہ بہت مشہور نفسیاتی حقیقت ہے کہ ہمارے ذہنی رویوں کی ترتیب کی وجہ سے اشیاء کی خصوصیات بدل جاتی ہیں او ر فرحت بخش اشیاء دکھ پہنچانے والی اشیاء لگنے لگتی ہے یااس کے برعکس ۔

خدائی احکام Ten Commandments اور بنی نوع انسان میں کبھی ہم آہنگی نہیں ہوسکتی ہے ۔ والٹیئر کے نقطہ نظر کے مطابق تاریخ بنی نوع انسان کے جرائم ، حماقتوں اور بد نصیبیوں کا مجموعہ ہے ۔گبن بھی تاریخ کے اس خلاصے سے پوری طرح متفق نظر آتا ہے اگر ہم معاشی تاریخ کو تین مراحل ۔ شکار، زراعت ، صنعت میں تقسیم کریں تو ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک مرحلے کا ضابطہ اخلاق دوسرے مرحلے میں کارآمد نہ ہونے کے باعث تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

شکار کے عہد میں انسان کو شکارکا تعاقب کرنے اور لڑنے اور مارنے کے لیے تیار رہنا پڑتا تھا۔جب وہ اپنے شکار پر قابوپالیتا تو اس غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر نا جانے دوبارہ اسے کب کھانے کوملے وہ خوب ٹھونس ٹھونس کر کھاتا تھا، غیرمحفوظ ہونے کا احساس ہی لالچ کو جنم دیتا ہے جیسا کہ ظلم و تشدد اور بے حسی اسی دور کی یادگار ہے جو اب انسان کے خون میں سرائیت کرگئی ہے ۔

ہمارے ملک میں جو آج تک ہوتا آرہا ہے اس پر ہمیں حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑگیا ہے جو ابھی تک اپنے آپ کوشکار کے دورکا انسان سمجھے بیٹھے ہیں اور ہم سب ان کے لیے صرف شکار ہیں اور جو شکاری ہیں وہ صدیوں کے بھوکے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ شکاری غیر محفوظ ہونے کے احساس کی مکمل لپیٹ میں ہیں اسی لیے ان کی بھوک ہے جو ختم ہی نہیں ہوپا رہی ہے وہ جتنا کھاتے ہیں اتنا اور زیادہ بھوکے ہوجاتے ہیں پھر زیادہ کھاتے ہیں اور زیادہ بھوکے ہوجاتے ہیں وہ جسمانی اور ذہنی دونوں بیماریوں کا شکار ہیں ہم ان کا شکار ہیں اور وہ بیماریوں کا شکار ہیں۔

دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں بددیانت اور حکومتیں بدعنوان رہی ہیں لیکن ہمیں تاریخ کے سب سے بڑے بددیانتوں اور بدعنوانوں سے پالا پڑا ہوا ہے۔ کم از کم ان معاملوں میں تو ہم انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مظلوم کے منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ فنا تو سب کے مقدر ہے جیسے فریڈرک نے کولن کے مقام پر اپنے بھاگتے ہوئے سپاہیوں سے پوچھا تھا ’’کیا تم ہمیشہ زندہ رہوگے ؟‘‘ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہمارے شکاری ہمیشہ زندہ رہیں کیا انھیں اپنے کرتوتوں کا کہیں حساب نہیں دینا ہے ؟کیا انھیں ڈر نہیں لگتا ہے ؟

سقراط نے عدالت میں کہا تھا ’’ میرے لیے مشکل کام موت سے بچنا نہیں بلکہ بے ایمانی اور غیر حق سے بچناہے یہ بات کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ بے ایمانی موت سے زیادہ خطرناک ہے اور موت سے زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔ میں بوڑھا اور سست ہوں لہذا مجھے آہستہ رو یعنی موت نے آلیا ہے جب کہ میرے مدعی زیادہ چالاک اور سبک رفتار ہیں اس لیے انھیں تیز رو یعنی شر نے پکڑ لیا ہے۔‘‘

روم کی عظمت کا ترجمان مشہور خطیب ، فلسفی، محقق، سیاست دان ، منتظم اور وکیل سسرو کے بارے میں فرانس کے مشہور مصنف والٹئیر نے لکھا تھا ’’اس سے زیادہ حق پرستانہ ، عقل مندانہ اور نافعانہ تحریر کسی نے نہیں لکھی ۔ تعلیم و تربیت اور اخلاق وتہذیب کا سبق دینے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سسرو کے پیش کیے ہوئے اعلیٰ کردار کے نمونے اپنے تلامذہ کے سامنے رکھیں ورنہ وہ محض نیم حکیم کہلائیں گے ‘‘ سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے یوں تو اخلاقی فلسفہ کا ہر لفظ بامعنیٰ اور ثمر آور ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ بارآور حصہ وہ ہے جو اخلاقی ذمے داریوں اور فرائض سے متعلق ہے جو آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے اخلاقی فلسفے کی تعلیم ناگزیر ہے۔

سسرو نے تین سوالوں کے ذریعے اخلاقی فرائض کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے (1) کیا ہمارا عمل اخلاقی طور پر حق ہے یا باطل؟ (2) کیا یہ فائد ہ مند ہے یا نقصان دہ ؟ (3) جب حق اور ذاتی مفاد میں بظاہر تصادم ہورہا ہے تو ان میں سے کسے ترک اورکسے اختیارکیاجائے ؟

وہ کہتا ہے کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہر کلیس کی طرح دکھ درد اورمصائب و تکالیف برداشت کر کے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے اعلیٰ وعظیم کردارکے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کر سکتے۔

اخلاق کوتاہی روحانی طور پر موت، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے۔ جو شخص ذاتی فائدے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سر چشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل و زہر خورانی ، جعل و فریب ، سرقہ وغبن ، استحصال وانتفاع ظہور میں آتے ہیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے ذہنی ضلالت اور روحانی انحطاط سے جو ہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے اور جس سے اس کے ذہن اور روح میں ایسا ناسور پیدا ہوجاتاہے جو ہمیشہ رستا رہتا ہے۔

جب ذہنوں اور روحوں میں ناسور پیدا ہوجاتے ہیں تو معاشرے جنگل بن جاتے ہیں ایسے جنگل جہاں غلاظت سے بھرے جانوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا جہاں صرف اپنے ناسور چاٹتے جانور بستے ہیں ایک دوسرے کو نو چتے ، چیرتے پھاڑتے جانور ۔ جہاں تہذیب و تمدن ، تعلیم ، قانون، انصاف ، اخلاق ، شرافت کی ننگی لاشیں درختوں پر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں جہاں عزت و وقار، شائستگی، عقل و دانش کی لاشوں کو گدھ کھارہے ہوتے ہیں جہاں معصوم زینبوں کی لاشیں کوڑوں میں سے مل رہی ہوتی ہیں اور جہاں طاقتور جانور نوٹو ں کے ڈھیروں پر رقص کر رہے ہوتے ہیں اور بھوکے جانور اور بھوکے ہورہے ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔