غریب وزیراعظم کا طبقاتی فرض

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 13 جنوری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1971ء کی جنگ کے بعد کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے جو اب انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ پسماندہ ملکوں میں بھارت اور پاکستان سر فہرست ہیں۔ دونوں ملک جمہوری ہونے کے دعویدار ہیں لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اختیارات اصل میں ایک چھوٹی سی تنگ نظر اور مفاد پرست حکومت کے پاس ہوتے ہیں جو قومی مفاد کے نام پر ہمیشہ عوام کی مرضی اور مفادات کے خلاف فیصلے کرتی رہتی ہے۔

1947ء سے پہلے لگ بھگ ایک ہزار سال تک ہندوستان پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب وہی تھا بلکہ مسلمانوں کی آبادی آج کے مقابلے میں نسبتاً کم تھی لیکن فرقہ وارانہ تعصبات کا عالم وہ نہ تھا جو آج ہے۔ کیا ہم اسے جمہوریت کا کرشمہ کہیں یا جدید تہذیب کا کارنامہ۔ کہاجاتا ہے علم اور شعور میں اضافے سے انسان وسیع النظر ہو جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ علم اور شعور میں اضافے کے ساتھ انسان زیادہ تنگ نظر اور متعصب ہو گیا ہے۔

ہندوستان پر ایک ہزار سال تک مسلم حکمرانوں کا اقتدار ہندو اکثریت کے ساتھ بلاشبہ زیادتی تھی کیونکہ جدید دنیا میں اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی کو زیادتی اور ناانصافی کہا جاتا ہے، لیکن شاہانہ دور میں فوجی طاقت ہی اقتدار کا تعین کرتی تھی اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی اکثریت چونکہ فوجی طاقت کے حوالے سے کمزور بلکہ ناقابل ذکر رہی ہے تو پھر مسلم حکمرانوں کا ہندوستان پر اقتدار اس دور کے کلچر کے مطابق تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ہزار سال کے دوران ہندوستان مجموعی طور پر بغاوتوں سے محفوظ ملک رہا اور ہندوستان کی بھاری ہندو اکثریت مسلمان حکمرانوں کی حکمرانی میں مذہبی یکجہتی کے ساتھ رہی۔

1947ء کے بعد ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، بہت سارے زعما جن میں ابوالکلام آزاد، غفار خان وغیرہ جیسے مدبرین شامل تھے تقسیم سے اختلاف کرتے تھے کیونکہ تقسیم سے ہندوستان کے عوام کو مجموعی طور پر نقصان ہو گا، لیکن بوجوہ ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ تقسیم کی پہلی سزا 22 لاکھ انسانوں کے قتل عام کی شکل میں ملی اس کے بعد دونوں قوموں کے درمیان اختلافات، تعصبات اور کشیدگی کا ایک نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوئیں اور آج بھی ایل او سی پر جھڑپوں اور جانی نقصان کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران دونوں ملک ’’ترقی کر کے‘‘ جوہری طاقت بن گئے اور ہر وقت یہ خطرہ دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے۔

1947ء کی تقسیم کے حوالے سے اگرچہ دو نظریے رہے ہیں لیکن جب تقسیم ہو گئی اور دو ملک بن گئے تو دونوں ملکوں کی قیادت کی یہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور عوام کے درمیان بھائی چارے کی فضا قائم ہو لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی ’’سرد جنگ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ سرد جنگ گرم جنگ میں بھی بدلتی رہی اور اس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔

کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن بھارتی حکمرانوں نے فوجی طاقت کے بل پر کشمیر کے دو تہائی حصے پر قبضہ کر لیا۔ یوں کشمیر ایک ایسا متنازعہ مسئلہ بن گیا جس کی وجہ سے اب تک 70 ہزار سے زیادہ کشمیری اپنی جانوں سے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند میں انگریزوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسئلہ کشمیر بھی ان ہی شاطروں کی پیداوار ہے۔ سامراجی آقاؤں کو نہ کسی تقسیم کی پرواہ ہوتی ہے نہ عوام کے جانی و مالی نقصانات کی پرواہ ہوتی ہے انھیں صرف اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ انگریزوں کے مفادات کا تقاضا تھا کہ کشمیرایک تنازع کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا رہے اس کے بعد امریکا کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ برقرار رہے اور دونوں ملک ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں۔

ماضی میں ہندوستان کی عالمی برادری میں عزت اس لیے تھی کہ وہ نہ صرف ایک غیر جانبدار ملک تھا بلکہ غیر جانبدار بلاک کی قیادت بھی کرتا تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان نہ صرف امریکا کا ایک فوجی اتحادی ہے بلکہ اس کی عالمی پالیسیوں میں اس کا مددگار بنا ہوا ہے۔ ماضی میں ہندوستان کو پاکستان سے یہ شکایت تھی کہ وہ مختلف فوجی معاہدوں میں شریک ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان امریکا کے ساتھ فوجی معاہدے میں شامل ہے اور اس فوجی معاہدے کا بنیادی مقصد چین کے خلاف ایک مضبوط فوجی حصار قائم کرنا ہے۔ نیرنگی دوراں دیکھیے کہ چین پاکستان کا سب سے اہم اور با اعتماد دوست ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کی دوستی کی بہترین علامت وہ سی پیک معاہدہ ہے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ لیکن بھارتی حکمران طبقے کو اس معاہدے سے اس لیے بھی اختلاف ہے کہ امریکا اس معاہدے کو پسند نہیں کرتا۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت میں رائے عامہ فیصلہ کن طاقت ہوتی ہے اگر بھارت جمہوریت پر یقین رکھتا ہے تو اسے کشمیر میں بلا تاخیر رائے شماری کرا کر اس مسئلے کو حل کرانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھی اس مسئلے کا حل رائے شماری ہی ہے۔ لیکن بھارت کا حکمران طبقہ کسی قیمت پر رائے شماری کے لیے تیار نہیں۔

ماضی میں کانگریسی حکومتیں اس حوالے سے یہ جواز پیش کرتی تھیں کہ اگر کشمیر کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تو اس کے سیکولرازم کو نقصان ہو گا لیکن حال کی صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں ایک مذہبی انتہا پسند جماعت بی جے پی برسر اقتدار اور اس کے منشور میں سرفہرست ’’ہندوتوا‘‘ یعنی ہندو ریاست ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ریاست کا نصب العین ’’ہندوتوا‘‘ ہو اس ملک میں سیکولرازم کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟

بھارت دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہے اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے بڑا فراڈ یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام سے حق حکمرانی تو حاصل کر لیتی ہے لیکن حکمرانی کا حق عوام کی مرضی کے خلاف استعمال کرتی ہے۔

بھارت کے عوام پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام بھی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں اور چین کے ساتھ بھی بھارت اپنے سرحدی تنازعات طے کر لے تو دفاع پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر بچ سکتے ہیں اور اس بھاری سرمائے سے عوام کی غربت دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیا بھارت کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کو اپنی طبقاتی ذمے داریوں کا احساس ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔