’’ٹرمپ کارڈ‘‘

اکرام سہگل  ہفتہ 13 جنوری 2018

امریکا کی جانب سے معاشی معاونت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے اور فوجی سازوسامان کی خریدو فروخت بھی بند کردی گئی۔

ایسے ہی دیگر اقدامات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سال کے آغاز میں کیے گئے ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے وال اسٹریٹ جنرل سے اپنی گفتگو میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا کہ ’’ہم اب امریکا کے اتحادی نہیں رہے‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے  امریکا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔‘‘

اسی حوالے سے فوجی ترجمان کے  بیان میں لہجہ قدرے نرم رکھا گیا لیکن پیغام بہت واضح اور محتاط انداز میں دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا گیا کہ مستبقل میں کسی باہمی معاونت کے لیے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔

کیا امریکی خفیہ ایجنسی کے ذرایع پورے وثوق سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ حقانیوں سے ہمارے تعلقات باہمی گفت و شنید سے بڑھ کر بھی ہیں؟ آزادانہ تصدیق سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ پاکستانی سرزمین پر اب وہ موجود نہیں یا ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت امریکا کو اس بات پر قائل کرچکا ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کے لیے سی پیک مستقبل میں خطرہ ثابت ہوگا، یہ بھارت کا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ تھا جو وہ کھیل چکا۔ طالبان کی سرگرمیوں میں اضافے اور داخلی سطح پر پاکستان، تاجک اور ازبک تقسیم سے افغان حکومت کے مسائل مزید بڑھ چکے ہیں۔

پھر کیوں امریکا ایک ایسے خطے میں سرمایہ(اور افرادی قوت) جھونک رہا ہے جو چین کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے؟ اس صورت حال میں ہمیں دوہری دشواری کا سامنا ہے، ایک جانب چین کو قابو رکھنے میں امریکا اور بھارت دونوں ہی کے اہداف یکساں ہیں، دوسری جانب امریکا کی قومی سلامتی کونسل میں بھارتی نژاد امریکیوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ امریکا میں اکثر اس بات سے واقف نہیں کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی سِکھ ہیں اور بھارتی مفادات کی پُرجوش حامی ہیں۔

امریکا کے لیے جانی نقصان ناقابل برداشت ہے اور  اس کے بڑھتے ہوئے تناسب کے باعث براہ راست جنگ میں اپنی افرادی قوت کے استعمال کا آپشن اس کے لیے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنے ناجائز قبضے کے خلاف مجاہدین آزادی اور افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں کو یکساں تسلیم کروانے میں کام یاب ہوچکا ہے۔مزید یہ کہ بڑھتے ہوئے بھارتی اور افغان پراپیگنڈے نے پاکستان کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ امریکا تاحال افغان طالبان کو مدد فراہم کرنے والے عسکریت پسندوں سے متعلق اپنے تحفظات بیان کرنے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

ڈائریکٹر سی آئی اے کا عہدہ سنبھالنے سے قبل افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس برسرعام یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کے عدم استحکام میں پاکستان کے کردار کا کوئی ثبوت نہیں۔ امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع چک ہیگل یہ تصدیق کرچکے ہیں کہ بھارت پاکستان میں مسائل پیدا کررہا ہے۔

بطور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کانگریس کے سامنے پاکستان سے امریکا کی بیوفائی کا اعتراف کرچکی ہیں۔ خواجہ آصف نے جلد بازی میں جو بیان دیا وہ اپنی جگہ لیکن یہ موقع تحمل کا ہے۔ پاکستان کو تصادم سے گریز کرنا ہوگا اور جس حقیقت پسندی اور احتیاط سے یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زیر بحث رہا،یہ رویہ قائم رہنا چاہیے۔ شعلہ بیانی یوں بھی نامناسب ہے اور امریکا کے ساتھ سیاسی، معاشی یا فوجی محاذ پر کسی قسم کی کشیدگی بے سود ہوگی۔ امریکا کی کئی حالیہ پالیسیوں پر امریکی خود بھی سخت تنقید کررہے ہیں۔

باقاعدہ جنگ یا سرحدی خلاف ورزی کے علاوہ محاذ آرائی کبھی اچھا آپشن نہیں ہوتی کیوں کہ ایسی صورت میں اپنے دفاع کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں رہتا۔ ایسی صورت حال میں ویسے ہی زمینی و فضائی راستوں تک رسائی کا سوال ختم ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں آخر کار امریکا یہ بات سمجھ جائے گا کہ مضبوط اور فعال پاکستان خطے میں اسی کے مفاد میں ہے اور پاکستان کے بغیر افغانستان کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔

نو گیارہ کے بعد امریکا ہمیں 33 ارب ڈالر امداد دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں’’واشنگٹن کے سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے مطابق تقریباً 22 ارب ڈالر، جو مجموعی امداد کے دو تہائی بنتے ہیں، دفاعی معاونت کی مد میں دیے گئے، زیادہ تر رقم سے کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کی ادائیگی کی گئی۔ بقایا 11 ارب ڈالر (یا ایک تہائی رقم) کو اقتصادی امداد کہا جا سکتا ہے۔

مشرف دور میں حاصل ہونے والی کل امداد 12بلین بنتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں کیری لوگر بل کے ذریعے پانچ برسوں میں 16ارب ڈالر دیے گئے۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق بدترین اقتصادی منظر نامہ تشکیل پارہا ہے اور پاکستان کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ جس کے بعد آئی ایم ایف کی کڑی اور تقریباً ناقابل عمل شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی اور اس صورت میں افراط زر میں اضافے، مہنگائی، ٹیکسوں اور توانائی کے نرخوں کی شرح میں اضافے جیسے دیگر اقدامات کرنا پڑیں گے۔ کیا ہم ان اقدامات کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

افغان پناہ گزینوں کی تعداد تیس لاکھ ہے جس میں سولہ لاکھ وہ بھی شامل ہیں جو کبھی غیر رجسٹرڈ شدہ تھے۔ دفاعی ماہرین سرحدی علاقوں میں داعش کی موجودگی سے متعلق مسلسل خبردار کررہے ہیں اور اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ دیگر پہلوؤں کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے 11لاکھ تارکین وطن کو نکالنے کا وعدہ امریکی سیاست میں ایک ہنگامہ برپا کرچکا ہے۔

میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی پرزور حمایت کی گئی اور تارکین وطن کو امریکا سے دور رکھنے کے نعرے نے ٹرمپ کو منصب صدارت تک پہنچادیا۔ 3جنوری کو وفاقی کابینہ نے 31دسمبر 2017ء کو پناہ گزینوں کو دی گئی مہلت ختم ہونے پر اس مدت میں مزید کچھ اضافے کی منظوری دی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکانِ کابینہ مولانا امیر زمان اور اکرم خان درانی، جو عام طور پر پناگزینوں کی حمایت کرتے ہیں، اس موقعے پر خاموش رہے۔

خیبر پختون خوا حکومت کی پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی 2016ء میں کی گئی کاوشوں سے 5لاکھ پناہ گزینوں کی وطن واپسی ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوسکی تھی۔ افغان پناہ گزینوں کی ایگزیکٹیو کونسل کے چیف عبدالغفار شنواری کے مطابق’’کئی دہائیوں تک میزبانی کرنے پر ہم پاکستانی حکومت کی تحسین کرتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے مابین باہمی کشیدگی کی صورت میں ہمیں نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔پاکستان کو ان افغان پناگزینوں کو اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت دینی چاہیے جو باعزت انداز میں وطن واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

بھارت کو بھی افغانوں سے اپنی ’’بے مثال محبت‘‘  کے ثبوت کے طور پر دس لاکھ پناہ گزین اپنے ملک میں ٹھہرانے چاہیں، کم از کم دس ہزار ابتدائی مرحلے ہی میں سہی؟ افغان عوام سے ہمارے قریبی تعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک لچک دار ویزا پالیسی تشکیل دی جائے جس میں کسی خاندان کے ایک یا دو افراد کو افغان پاسپورٹ پر ویزا فراہم کیا جائے جب کہ بقیہ خاندان وطن واپسی اختیار کرے۔

تحمل اور حقیقت پسندانہ مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اور عزت نفس پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوشش کرنی چاہیے۔

گو کہ ہم ایسے کسی قدم کو خود بھی پسند نہیں کرتے لیکن امریکی صدر کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے پختہ عزم کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی ہمارا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس جملے میں معنی خیزی سوچی سمجھی ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔