زینب گھر سے نکلی، پھر واپس نہیں آئی

حسان خالد  ہفتہ 13 جنوری 2018
آٹھ سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے واقعے کی وجہ سے ملک بھر میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فوٹو: فائل

آٹھ سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے واقعے کی وجہ سے ملک بھر میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فوٹو: فائل

 لاہور: پانچ جنوری کی سہ پہر آٹھ سالہ بدنصیب زینب معمول کے مطابق قرآن پاک کا درس لینے گھر سے نکلی۔ قرآن پڑھنے اُسے ایک قریبی گھر میں جانا ہوتا تھا، اس لیے گھر والوں کے لیے یہ کوئی تردد کی بات نہ تھی۔ لیکن اس روز زینب لوٹ کر گھر نہیں آئی۔

جب یہ واقعہ پیش آیا زینب کے والدین عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ گمشدگی کا پتا چلتے ہی زینب کے گھر والوں نے بھاگ دوڑ شروع کردی، لیکن جیسا کہ یہاں کا معمول ہے کہ کسی عام آدمی کے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو وہ ریاستی ادارے جن کا کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اُلٹا سانحے کا شکار ہونے والوں کا خون چوسنا شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا پولیس نے بھی ان کے ساتھ یہی برتاؤ کیا۔

ایسی ہول ناک صورت حال لواحقین کو اُمید اور نااُمیدی کے بیچ معلق کردیتی ہے۔ اس ملک کے مظلوم عوام کا المیہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام وسائل اور عوامی خدمت کے تمام ریاستی ادارے ملک کے مخصوص بالادست طبقات کی خدمت پر مامور ہیں۔ عوام اپنے مسائل کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بالکل یہی سلوک پولیس نے زینب کے گھر والوں کے ساتھ کیا۔

بچی کی گم شدگی کے چار روز بعد منگل کے دن ننھی زینب کی تشدد زدہ لاش قصور کے کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرا کنڈی سے ملی۔ پولیس کے مطابق بچی کو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی۔ اس لرزہ خیز واقعے کی خبر عام ہونے کے بعد ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور قصور میں مقامی انتظامیہ اور پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ ہجوم کی تشفی کا سامان کیا جاتا، پولیس نے مشتعل ہجوم پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور سات زخمی ہو گئے۔

آٹھ سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے واقعے کی وجہ سے ملک بھر میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ انسانیت سوز ظلم کا شکار ہونے والی زینب کے والد نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے انصاف دلانے کی اپیل کی جو اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ پاکستان کا عام آدمی ملک کے حکم رانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف نے اس ظلم پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے واقعے کا نوٹس لیا تاہم ان سطور کے لکھے جانے تک مجرم کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔

بدھ کو بچی کے والدین کی سعودی عرب سے واپسی پر نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین عمل میں لائی گئی۔ نماز جنازہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی۔ جمعرات کو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے قصور میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ بچی کے والد محمد امین کے مطالبے پر وزیراعلیٰ شہبازشریف نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیا ہے۔

پولیس کے مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران قصور میں کم از کم چھ کم سن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا جا چکا ہے اور ممکن ہے کہ ان تمام واقعات کا ذمہ دار کوئی ایک شخص یا ایک ہی گروہ ہو۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے ہول ناک واقعات کے باوجود مقامی انتظامیہ کی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات عمل میں نہیں لائے گئے۔

پنجاب کی پولیس مجرم کی گرفتاری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تفتیش کر رہی ہے۔ ملزم کا خاکہ جاری کیا گیا، تحقیق کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی مدد لی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے مجرم کی گرفتاری میں مدد دینے والے شخص کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ بدقسمتی سے قصور سمیت مختلف علاقوں میں ان دنوں اور ماضی میں بھی اس طرح کے بہیمانہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سفاک مجرموں کے خلاف ملک بھر میں گرینڈ آپریشن شروع کیا جائے اور انہیں گرفتار کر کے نشان عبرت بنایا جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔