پاک امریکا کشیدگی کے خاتمے کے اشارے

ایڈیٹوریل  اتوار 14 جنوری 2018
امریکا کی مصیبت یہ ہے کہ اس کی بڑی تعداد میں فوج افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے ۔ فوٹو: فائل

امریکا کی مصیبت یہ ہے کہ اس کی بڑی تعداد میں فوج افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے ۔ فوٹو: فائل

ستر سال قبل پاکستان کے منصہ شہود پر نمودار ہوتے ہی امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات استوار ہو گئے۔ ہماری ایک مجبوری یہ بھی تھی کہ تقسیم بر صغیر کی صورت میں ہمارے حصے کے اثاثے بھارت نے ضبط کر لیے لہذا ہمیں اپنا روزمرہ کا گزارہ چلانے کے لیے لامحالہ کسی ان داتا کی طرف دیکھنا پڑ گیا۔

اگرچہ وزٹ کی اولین دعوت سوویت روس کی جانب سے موصول ہوئی تھی مگر ہمارے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے سوویت روس کو مسترد کر کے امریکا کو یس کر دیا جہاں سے ابتدائی اخراجات کے علاوہ وافر مقدار میں اسلحہ بھی مل گیا نتیجہ میں ہم سوویت روس کے خلاف امریکا کے دفاعی معاہدوں سینٹو اور سیٹو وغیرہ میں شامل کر لیے گئے۔

تعلقات کے متعدد نشیب و فراز کے بعد اب صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ امریکا نے دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے لیے جو سپورٹ فنڈ جاری کیا تھا اسے اس الزام پر بند کر دیا کہ افغانستان میں امریکا کی دو عشروں سے جاری جنگ میں اسے فتح دلانے کے لیے ہمارا کردار موثر نہیں۔ امریکا کا خیال تھا کہ ہم دست بستہ سر نگوں کر دیں گے مگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی عسکری حکام پر واضح کیا ہے کہ پاکستان امریکا کو کبھی امداد کی بحالی کے لیے درخواست نہیں کرے گا۔

پاکستان چاہتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور ایک امریکی سینیٹر نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور امریکی صدر کے بیان سے قبل اور بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ امریکا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہتا ہے اور امید ظاہر کی کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کو جلد ختم کر لیا جائے گا۔

امریکی جنرل نے مزید کہا کہ امریکا پاکستان میں موجود شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی چاہتا ہے جو پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں امریکی اور افغان افواج کے خلاف منظم کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ امریکی جنرل نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی عارضی ہو۔ انھوں نے آرمی چیف کو یقین دلایا کہ امریکا پاکستان کی حدود میں کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائی نہیں کر رہا بلکہ وہ پاکستان سے اس کی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی حکام کو واضح کیا کہ پاکستان نے آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشتگردوں کے تمام ٹھکانے تباہ کر دیے ہیں۔ انھوں نے جنرل جوزف ووٹل پر یہ بھی واضح کیا کہ امریکی صدر کے بیان کی وجہ سے پاکستانی قوم نے محسوس کیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا جس کے بعد قوم کی جانب سے متفقہ ردِ عمل سامنے آیا۔

آرمی چیف نے باور کرایا کہ پاکستان امریکا کی مالی امداد کے بغیر بھی اپنے قومی مفاد میں جان فشانی کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے لیے پُر عزم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکی خدشات سے مکمل طور پر واقف ہے۔

پاکستان پہلے ہی اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کر چکا ہے تاہم اس وقت افغان باشندے مہاجر کیمپوں کو اپنی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اسی لیے پاکستان چاہتا ہے کہ جلد از جلد افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے۔ انھوں نے امریکی حکام کو بتایا کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے یکطرفہ طور پر کام کیا ہے تاہم اگر افغانستان واقعی ایسا محسوس کرتا ہے کہ شرپسند عناصر پاکستان سے آتے ہیں تو کابل کو بارڈر مینجمنٹ کو ترجیحی بنیادوں پر رکھنا ہو گا۔

ترجمان امریکی سینٹرل کمانڈ کرنل جان تھامس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی اشتراک کے مثبت نتائج آ سکتے ہیں، اس کے ساتھ باہمی مفادات اور تشویش کی قدر کرتے ہیں، پاکستان کی فوج کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، پاکستان اور امریکا مثبت انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

امریکا کی مصیبت یہ ہے کہ اس کی بڑی تعداد میں فوج افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے جس کی تمام ضروریات کی کفالت براستہ پاکستان ہی ہوتی ہیں کیونکہ یہی مختصر ترین راستہ ہے کیونکہ اگر وسطی ایشیا کا روٹ استعمال کیا جائے تو نہ صرف اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو گا بلکہ وقت کا دورانیہ بھی بہت طویل ہو جائے گا اور کھانے پینے والی اشیا کے خراب ہونے کا خطرہ الگ جو اس اکلوتی سپر پاور کے لیے قابل قبول نہیں۔ چنانچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ اور اشتعال انگیز ٹویٹ کے مندرجات پر امریکا کے اندر بھی تنقید ہوئی ہے۔

بہرحال پاکستان اور امریکا کے اعلیٰ حکام کے درمیان جو روابط جاری ہیں ان سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تناؤ جلد ختم ہو جائے گا۔ پاکستان نے ڈیورنڈ لائن اور افغان مہاجرین کے حوالے سے درست مؤقف پیش کیا ہے، امریکا کے پالیسی ساز بھی حقائق سے واقف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔