کنڈیشنز بدلتے ہی گرین شرٹس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے

عباس رضا  اتوار 14 جنوری 2018
پہلے دونوں میچز میں بیٹنگ ہی نہیں مایوس نہیں کیا بلکہ بولرز بھی ابتدائی اوورز میں حریف ٹیم کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہے۔ فوٹو؛ اے ایف پی

پہلے دونوں میچز میں بیٹنگ ہی نہیں مایوس نہیں کیا بلکہ بولرز بھی ابتدائی اوورز میں حریف ٹیم کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہے۔ فوٹو؛ اے ایف پی

چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل جیتنے کے بعد گرین شرٹس نے اپنی پسندیدہ یواے ای کی کنڈیشنز میں کمزور سری لنکن ٹیم کو 5-0سے کلین سوئپ کرتے ہوئے مسلسل فتوحات کا سلسلہ 9میچز تک دراز کیا تو شائقین اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ نیوزی لینڈ کی قطعی مختلف اور مشکل کنڈیشنز میں بھی پاکستانی کرکٹرز ڈٹ کر مقابلہ کرتے نظر آئیں گے۔ ماضی کا ریکارڈ اچھا نہ ہونے کے باوجود امید کی جارہی تھی کہ مسلسل فتوحات کا اعتماد لئے کیویز کے دیس جانے والے گرین شرٹس سرفراز احمد کی زیر قیادت بہتر کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن پرستاروں کو ابھی تک سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

ویلنگٹن کے بعد نیلسن میں بھی بیٹنگ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی، پیس اور باؤنس پر گھبرہٹ کا شکار ٹاپ آرڈر نے خاص طور پر بہت مایوس کیا، سینئرز اور جونیئرز سب نے دونوں ہی میچوں میں بیٹنگ کے لیے سازگار پچز پر رنز بنانے کا موقع گنوایا، پہلے میچ میں فخرزمان اور دوسرے میں محمد حفیظ نے مزاحمت دکھائی، دیگر نے رنز بنانے کے ذمہ داری ٹیل اینڈرز شاداب خان اور حسن علی پر چھوڑ دی جنہوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل تباہی سے بچایا۔

پہلے دونوں میچز میں بیٹنگ ہی نہیں مایوس نہیں کیا بلکہ بولرز بھی ابتدائی اوورز میں حریف ٹیم کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہے۔ چیمپئنز ٹرافی میں تمام ہی ٹیموں کو پریشانی سے دوچار کرنے والی پاکستانی بولنگ لائن اپ کیویز کے سامنے بے بس نظر آئی۔ سرد موسم میں فیلڈرز کے ہاتھ پاؤں بھی پھول گئے،پہلے میچ میں سرفراز احمد نے کین ولیمسن کا کیچ ڈراپ کیا۔ میزبان کپتان نے سنچری جڑکر اس غلطی کی بھاری سزا دی۔

تیسرے ون ڈے میچ کے لیے ڈونیڈن کا موسم خوشگوار اور پچ سلو اور باؤنس بھی کم تھا۔ ان کنڈیشنز میں توقع کی جا رہی تھی کہ ٹاپ آرڈر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ پر اعتماد نظر آنے والے ٹیل اینڈرز کو اچھا پلیٹ فارم فراہم کریں گے۔ اِن فارم اوپنر فخر زمان کی واپسی بھی تقویت کا باعث تھی لیکن گرین شرٹس نے رسواکن کارکردگی سے پرستاروں کے غم وغصے میں اضافہ کردیا۔

دیکھا جائے تو کنڈیشنز مہمان ٹیم کے لیے زیادہ موزوں تھیں۔ کیویز کو ابتدا میں رنز بنانے میں دشواری ہوئی لیکن کین ولیمسن، مارٹن گپٹل اور روس ٹیلر نے پچ کی صورتحال دیکھتے ہوئے کسی تباہی کو آواز دینے کے بجائے سنبھل کر بیٹنگ کی۔ میزبان کپتان نے ایک وقت میں 72گیندوں پر 38رنز بنائے تھے لیکن بعد میں انہوں نے رن ریٹ بھی بہتر کیا اور اپنی ٹیم کو معقول ٹوٹل تک پہنچانے میں بھی مدد دی۔ ان کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستانی بولرز نے اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنز کی رفتار کم کرنے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ وکٹیں بھی حاصل کیں۔ ٹام لیتھم کے سوا کوئی بیٹسمین زیادہ مزاحمت نہیں کرپایا۔

ہدف قابل حصول نظر آرہا تھا۔ امید تھی کہ پاکستان کی ٹاپ آرڈر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ دونوں میچز میں ناکامیوں کا ازالہ کرتے ہوئے سیریز بچانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ کین ولیمسن کی اننگز کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سمجھ چکا تھا کہ اس پچ بہترین حکمت عملی ابتدا میں سنگلز اور ڈبلز بناتے ہوئے اننگز کو آگے بڑھانا ہے لیکن گرین شرٹس میں سے کسی کو بھی کریز پر ٹھہرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اظہرعلی نے پہلا اوور میڈن کھیلا، دوسرے میں بھی اسی موڈ میں تھے۔

ٹرینٹ بولٹ کی چوتھی گیند پر کیچ بھی ڈراپ ہوا لیکن اس کے بعد سلپ میں کیچ دے دیا۔ گزشتہ میچز کی طرح اس بار بھی انہوں نے سینئر کا حق ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ فخرزمان نے بھی باہر جاتی گیند کو چھیڑ کر سٹمپس پر آنے کا موقع دیا۔ ہر سیریز میں ایک آدھ ففٹی بناکر کیریئر کو آگے بڑھانے کے عادی محمد حفیظ نے بھی آؤٹ سوئنگ پر اپنی روایتی کمزوری دکھاتے ہوئے ٹرینٹ بولٹ کو تیسری وکٹ کا جشن منانے کا موقع دے دیا۔

صرف 2رنز پر 3وکٹیں گرنے کے بعد بابر اعظم نے شعیب ملک کے ہمراہ 12ویں اوور تک صرف 12رنز بنائے اور گھبراہٹ میں خودکشی کرتے ہوئے رن آؤٹ ہوئے۔ اگلے اوور میں شعیب ملک نے لوکی فرگوسن کی گیند پر وہی کام کیا جو محمد حفیظ نے کرتے ہوئے سلپ میں کیچ دیا تھا۔ بڑوں کے حوصلے پست ہوئے تو بیچارے شاداب خان کیا کرتے۔ انہوں نے بھی بغیر کھاتہ کھولے کولن منرو کو وکٹ کی قربانی پیش کر دی۔ صرف 16کے مجموعے پر 6وکٹیں گرنے کے دوران صرف ایک بیٹسمین کا سکور 5سے اوپر ہوتو میچ میں واپسی کو دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے۔

اسی لئے شائقین کی توجہ ہدف کی بجائے اس بات پر مرکوز ہوگئی کہ پاکستان ون ڈے تاریخ کے کم ترین ٹوٹل35 سے نیچے ہی ہمت نہ ہار جائے۔ گرین شرٹس نے 32تک پہنچتے ہوئے فہیم اشرف اور حسن علی کی وکٹیں بھی گنوا دیں تو خطرہ مزید بڑھ گیا۔ محمدعامر کی مزاحمت سے پاکستان نہ صرف زمبابوے کی جانب سے کم ترین سکور سے آگے نکل گیا بلکہ 25سال قبل ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے کم ترین سکور 43کا ریکارڈ مزید بدتر کرنے سے بھی بچ نکلا۔ بہرحال چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم نے اپنی تاریخ کا تیسرا کم ترین ٹوٹل اپنے نام کے آگے درج کرالیا ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ بیٹنگ کے اس فلاپ شو میں آخری بیٹسمین رومان رئیس(16) ٹاپ سکورر ثابت ہوئے۔

ماضی میں بھی گرین شرٹس کی نیوزی لینڈ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ کیویز نے ڈونیڈن میں فتح سے قبل بھی پاکستان کے خلاف گزشتہ 8میچز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کنڈیشنز ہمیشہ ہی مہمانوں کے لیے مشکل رہی ہیں۔ گزشتہ سیریز میں ناکامی سے دوچار ہونے والی ٹیم میں سے کئی اس وقت بھی سرفراز الیون کے زیر قیادت ایکشن میں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیریز کے تینوں میچوں میں پاکستان ٹیم میں کوئی فائٹنگ سپرٹ نظر نہیں آئی۔

کنڈیشنز کا تجربہ رکھنے والے سینئرز میں سے اظہر علی ٹاپ ، محمد حفیظ اور شعیب ملک مڈل اور سرفراز احمد لوئر آرڈر میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے تو نوجوانوں کو کریز پر ٹھہرنے کا حوصلہ ملتا لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا جس پچ پر نوآموز شاداب خان نے رنز کئے وہاں کوئی باؤنس کے سامنے ہمت ہار گیا تو کوئی پیس کا مقابلہ نہ کرپایا۔ باہر جاتی گیندوں پر سلپ میں کیچ دینے کا تو گویا رواج ہی پڑ گیا۔ گھبراہٹ میں کسی کا کوئی فٹ ورک نظر نہیں آرہا، بڑے نام کسی کام کے نہیں توپاکستان نوجوانوں کی ہی آزمائش کر لے۔ شکستیں تو گلے کا ہار بننا ہی ہیں۔ شاید کوئی بہتر کھلاڑی ہی سامنے آجائے۔

ہفتہ کو ہی کھیلے جانے والے جونیئر ورلڈ کپ کے میچ میں قومی انڈر19ٹیم کی طرف سے بھی کوئی اچھی خبر سامنے نہیں آئی۔ گرین شرٹس نے آسٹریلیا اور نیوزی میں میں سیریز جیتیں تو میگاایونٹ میں بہتر کارکردگی کی توقعات بڑھ گئی تھیں لیکن یہاں پاکستان میں کرکٹ سیکھنے والے بچے ہی بھاری پڑگئے۔ گرین شرٹس کو ایشیا کپ کے لیگ میچ میں شکست دینے والے افغانستان نے فائنل میں بھی مات دے کر ٹائٹل پر قبضہ جمالیا تھا۔ جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستان کا اولین امتحان بھی اسی ٹیم کے خلاف تھا۔ روحیل نذیر کے سوا بیٹنگ میں صرف علی زریاب کی جانب سے تھوڑی مزاحمت نظر آئی، دیگر آتے اور جاتے رہے۔ اس کے بعد افغان ٹیم کو ہدف حاصل کرنے میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ابتدامیں ہی ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد گرین شرٹس کے لیے ایونٹ میں کم بیک کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔