بلائنڈ کرکٹ ورلڈکپ کی رونقیں ماند

میاں اصغر سلیمی  اتوار 14 جنوری 2018
 5 قومی کرکٹرز کو یو اے ای کے ویزے نہ ملنے کا قصور وار کون؟۔ فوٹو:فائل

 5 قومی کرکٹرز کو یو اے ای کے ویزے نہ ملنے کا قصور وار کون؟۔ فوٹو:فائل

بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے ان دنوں عجمان میں جاری ہیں، میگا ایونٹ کا حصہ بننے کے لئے بنگلہ دیش اور نیپال کی ٹیمیں لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں میچز کھیلنے کے بعد متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں، ملکی سرزمین پر پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش اور نیپال کے خلاف قذافی اسٹیڈیم اور اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں حصہ لیا اور دونوں میچوں میں بآسانی کامیابی اپنے نام کی۔

ورلڈ کپ کے ابتدائی مرحلے میں بھارتی ٹیم کی بھی پاکستان آمد شیڈول تھی تاہم حیران کن طور پر بھارت حکومت نے ایک بار پھر رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اپنی ٹیم پاکستان بجھوانے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے عالمی کپ کا شیڈول بری طرح متاثر ہوا اورگرین شرٹس کو ورلڈکپ کا افتتاحی میچ 8 جنوری کو بھارت کی بجائے بنگلہ دیش کے ساتھ کھیلنا پڑا۔

ایونٹ کافائنل 21جنوری کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا، بلیو شرٹس کے فائنل میں پہنچنے کی صورت میں ٹائٹل مقابلہ 19 جنوری کو شارجہ میں کھیلاجائے گا۔یہ انڈین حکومت کی گہری چال تھی جسے پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کے عہدیدار سمجھ ہی نہیں سکے۔

اب ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد کے باوجود پاکستان کو کھیلوں میں عالمی سطح پر تنہا کرنے کی قسم کھانے والی مخصوص بھارتی لابی واویلا کرتی نظر آئے گی کہ اس ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کا کیا فائدہ جس میں شامل6میں سے 3 ٹیموں بھارت، آسٹریلیا اور سری لنکا نے میچز پاکستان کی بجائے عجمان اور شارجہ میں کھیلے۔

ورلڈ کپ مقابلوں کا ایک اور غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیش اور نیپال کے خلاف عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی بھارت کے خلاف 12جنوری کو شیڈول میچ سے پہلے متحدہ عرب امارات کیوں نہ پہنچ سکے۔ شنید ہے کہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے 5اہم کھلاڑیوں کو یو اے ای کے ویزے نہ مل سکے جس کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو بھارت کے خلاف میچ میں صرف 12کھلاڑیوں کی خدمات ہی حاصل ہو سکیں۔

ایونٹ میں 2 سنچریاں بنانے والے بدرمنیر سمیت ریاست خان، محسن خان، ساجد نواز اور محمد راشد رات گئے ایئرپورٹ پر ویزوں کا انتظار کرتے رہے۔ سٹار کھلاڑیوں سے محروم ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیم بلیو شرٹس کے ہاتھوں 7وکٹوں سے شکست کھا گئی۔ یہاں پر ایک ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ جب بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین سید سلطان شاہ سمیت دوسرے عہدیداروں اور ٹیم کے 12 کھلاڑیوں کو ویزے مل سکتے تھے تو پانچ اہم کھلاڑیوں کی یو اے ای انٹری کیوں نہ ہو سکی۔

پلیئرز کو ویزے نہ ملنے میں اصل وجہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کی غفلت ہے یا اس میں کوئی اور سازش ملوث ہے،معاملے کی تہہ تک جانے کیلئے اعلی سطح پر تحقیقات کئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کے لئے پی سی بی ، وفاقی حکومت اور پنجاب گورنمنٹ نے بلائنڈ کرکٹ کونسل کی کھل کر مدد کی، صرف پنجاب حکومت کی طرف سے 2 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی گئی، پھر بھی کونسل کے چیئرمین سید سلطان شاہ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ کے دوران وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف سے شکوہ کرتے دکھائی دیئے۔

ورلڈ کپ کی میزبانی کی آڑ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، پی سی بی اور سپانسر اداروں سے ملنے والی رقوم اور میگا ایونٹ پر اٹھنے والے اخراجات کا آڈٹ بھی کیا جانا چاہیے، رپورٹ ٹھیک آنے کی صورت میں شاباش جبکہ مالی خرد برد میں ملوث ہونے کی صورت میں عہدیداروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا چاہیے۔

اب تک کے بلائنڈ عالمی مقابلوں میں ٹیموں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ایک بارفائنل میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور ماضی کی ناکامیوں کی روایت کو توڑتے ہوئے گرین شرٹس بھارتی ٹیم کو زیر کر کے عالمی کپ کا ٹائٹل بھی اپنے نام کرنے میں کامیاب رہتے ہیں توبھی پاکستانی شائقین عالمی کپ کا فائنل مقابلہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں دیکھنے سے محروم رہیں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔