نامعلوم نعشوں کی برآمدگی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ

نور محمد سومرو  اتوار 14 جنوری 2018
2017ء میں 13 بچوں اور 9 خواتین سمیت 38 نامعلوم نعشیں ملیں، پولیس بے حسی کا شکار۔ فوٹو: فائل

2017ء میں 13 بچوں اور 9 خواتین سمیت 38 نامعلوم نعشیں ملیں، پولیس بے حسی کا شکار۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان: عصر حاضر میں بڑھتی ہوئی معاشرتی بے راہ روی، عدم برداشت اور مادیت پرستی نے انسانی خون کی خوب ناقدری کر دی ہے، چھوٹی چھوتی رنجشوں پر قتل جیسے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔

معمولی تلخ کلامی یا نفع نقصان پر قتل کرنا اور مقتول کی نعش چھپا دینے کی وارداتیں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں، اور اس رجحان سے ضلع رحیم یار خان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ضلع رحیم یارخان میں نامعلوم نعشوں کے ملنے کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات نعشوں کی شناخت نہ ہونا ہے۔ یوں تو ضلع میں گزشتہ دس سال کے دوران 600 سے زیادہ نعشیں ملیں مگر گذشتہ سال 2017ء میں 38 نعشیں ملیں، جن میں 13 معصوم بچے اور 9 خواتین بھی شامل ہیں۔

دور جدید اور تمام تکنیکی آلات کے باوجود بیشتر نعشوں کی تاحال شناخت نہ ہوسکی اور انہیں غسل وکفن دے کر نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کردیا گیا۔ جن نعشوں کی شناخت ہوئی، ان میں سے بعض نعشوں کے ورثاء کا پتہ مل گیا، لیکن اکثریت کے مارے جانے کی وجہ یا قاتلوں کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔ رحیم یارخان میں قتل کرکے نعش کو لاوارث قرار دلوانے میں ضلع کی حدود میں دریائے سندھ کے طویل ترین پاٹ سمیت بہت اچھا نہری نظام بھی ہے، جو مقتولین کی نعشیں ملنے کا سبب اور قاتلوں کی پناہ گاہ ہے۔

سنگ دل افراد قتل کی وارداتوں کے بعد مقتولین کی نعشوں کو نہروں میں بہا دیتے ہیں‘ روح پرواز کر جانے کے بعد انسانی جسم پانی میں نہ صرف پھول جاتا ہے بلکہ گل سڑ کر بے شناخت بھی ہوجاتا ہے، جس کے بعد نعش میں پیدا ہونے والے تعفن اور بدبو کے باعث کوئی بھی ادارہ اسے چند گھنٹے بھی برداشت نہیں کرسکتا اور ضروری کارروائی کے بعد اس کی تدفین کردی جاتی ہے۔

بعض مقتولین اور لاوارث نعشوں کی شناخت نہ ہونے میں محکمہ پولیس اور اس کے ملازمین کی نااہلی بھی شامل ہے‘ بعض اوقات محکمہ پولیس کے ملازمین کی جانب سے اس قدر بے حسی اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ قابل شناخت نعش کی بھی اسی عجلت میں تدفین کردی جاتی ہے، جس طرح بنا شناخت کے نعش ہوتی ہے، حالانکہ چند دن انتظار اور اس دوران ورثاء کی تلاش پر توجہ دے دی جائے تو نہ صرف بے شناخت کو شناخت بلکہ مظلوم کو اسی دنیا میں انصاف بھی مل سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ بھی تاج گڑھ روڈ پر ایک کار سوار شخص نے ایک نامعلوم راہگیر نوجوان کو کچل کر مار ڈالا، جسے شیخ زید ہسپتال کے مردہ خانے میں تین دن رکھنے کے بعد لاوارث قرار دے کر سپرد خاک کردیا گیا‘ اسی طرح خواتین، کم عمر بچوں اور نامعلوم افراد کی ایسی نعشیں عباسیہ لنک کینال‘ آدم صحابہ ڈسٹری بیوٹری‘ ترنڈہ مائنر سمیت رحیم یارخان‘ خان پور‘ لیاقت پور‘ صادق آباد‘ خان بیلہ اور ظاہر پیر کے علاقوں سے ملی ہیں، جن کے چہرے قابل شناخت تھے۔

اگر پولیس منظم طریقہ سے نعشوں کی تشہیر اور ورثاء کی تلاش کے لئے اقدامات کرتی تو یقیناً مرحومین کے اہل خانہ کا سراغ مل سکتا تھا مگر پولیس اپنے سر سے بلا ٹالنے کیلئے فی الفور سماجی شخصیت نوید کھوکھر کے ذریعے تدفین کردیتی ہے۔ لاوارث میتوں کی تدفین کیلئے سماجی کارکن نوید کھوکھر کی خدمات قابل ستائش ہیں جس کا بیڑہ ان کے والد مرحوم محمد صدیق کھوکھر نے اٹھایا تھا، جو تاحال جاری وساری ہے۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لاوارث نعش ملنے کی صورت میں محکمہ پولیس کا کرائم سین ڈیپارٹمنٹ‘ نادرا اور ماہرین فرانزک لیبارٹری اپنی بھرپور‘ بروقت اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے کم از کم مرنے والوں کی شناخت کریں اور ان کے گھر والوں کو زندگی بھر کے انتظار اور مسائل سے نجات دلائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔