بھارتی فوج ذہنی مریض بن رہی ہے؟

تنویر قیصر شاہد  پير 15 جنوری 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پلوال، مشہور بھارتی صوبے ’’ہریانہ‘‘ کا ایک ضلع بھی ہے اور ضلعی صدر مقام بھی۔ کپاس کی پیداوار اور کاٹن فیکٹریوں کی وجہ سے اِسے بھارت بھر میں شہرت حاصل ہے۔ 3جنوری2018ء کی رات ’’پلوال‘‘ کے مکینوں پر قیامت بن کر گزری۔ اُس شب بھارتی فوج کا ایک نوجوان افسر،لیفٹیننٹ نریش دھنکار،موت کا ہرکارہ بن گیا تھا۔ وہ نصف شب کے بعد اپنے ٹھکانے سے نکلا اور قریبی بڑے اسپتال کا رُخ کیا۔ رات کے سوا دوبجے اُس نے پہلی خونی واردات کی۔

اسپتال کے ایک ویران کوریڈور میں ایک غریب عورت گرم چادر اوڑھے سو رہی تھی۔ لوہے کا ایک مضبوط راڈ تھامے نریش دھنکار اُس پر حملہ آور ہُوا۔ پہلے وار ہی میں عورت کا کام تمام کردیا۔ پھر اُس نے آئی سی یو میں داخل ایک مریض پر حملہ کیا اور اُسے بھی مار ڈالا۔ سارے اسپتال میں کہرام مچ گیا۔پھر وہ اچانک غائب ہو گیا۔ اسپتال میں نصب کیمروں نے لیفٹیننٹ نریش دھنکار کے دونوں خونی حملوں کا ایک ایک پَل محفوظ کر لیا تھا مگر وہ غائب تھا۔

چند لمحوں ہی میں نجی ٹی وی چینلوں کے توسط سے یہ خبر سارے ہندوستان میں گونجنے لگی تھی۔ پلوال شہر کی ساری پولیس بہیمانہ وارداتیں کرنے والے قاتل کی تلاش میں تھی اور پلوال کے باسیوں کی نیندیں اُڑ چکی تھیں۔ صبح پانچ بجے کے قریب قاتل، نریش دھنکار، کو آلہ قتل سمیت گرفتار تو کر لیا گیا لیکن اُس وقت تک وہ نصف درجن سے زائد لوگوں کو ہلاک کر چکا تھا۔ اور جب یہ خبر پھیلی کہ قاتل بھارتی فوج کا لفٹین افسر ہے تو ندامت اور بے عزتی سے بچنے کے لیے بھارتی فوج نے ترنت کہہ دیا : ’’نریش دھنکار تو ذہنی مریض ہے اور اُسے فوج سے پہلے ہی نکالا جا چکا ہے۔‘‘

بھارتی فوج مگر اپنے کن کن ذہنی مریض افسروں اور جوانوں کی صفائی دے گی؟ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی فوج میں ہر لمحہ ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انڈین آرمی میں، اِس حوالے سے، خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔

بھارتی فوج میں جونیئر افسروں اور جوانوں سے مبینہ طور پر جو بد سلوکیاں کی جارہی ہیں، وہ جس طرح مطلوبہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے آٹھ صوبوں میں علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے لمبی ڈیوٹی کے دوران انھیں جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اچانک حملوں کا خوف،مراعات کے لحاظ سے بھارتی فوجی افسروں اور جوانوں میں عدم مساوات کی جو گہری خلیج پیدا ہو چکی ہے، اِن سب عوامل نے مل کر بھارتی فوج میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔

یہ مرض بھارت کی تینوں افواج میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔سب سے زیادہ خودکشیاں انڈین آرمی میں ہُوئی ہیں۔ اِس کے بعد بھارتی فضائیہ اور بھارتی نیوی کا نمبر آتا ہے۔فرسٹریشن اور ڈپریشن کے مارے بھارتی فوجی اپنے ہی ساتھیوں کی گردن مارتے بھی نظر آرہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں متعین سات لاکھ بھارتی فوج میں یہ رجحان نسبتاً زیادہ بڑھ چکا ہے۔ کشمیری فدائین نے اُن کے اعصاب شَل کر دیے ہیں۔

مشہور بھارتی ویب اخبارThe Wireنے اپنے ایک تفصیلی آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیر میں تعیناتی بھارتی فوجیوں میں نفسیاتی عوارض بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات بھی۔ گزشتہ سال جب کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں بھارتی فوجی، داس، نے اپنے افسر، میجر شیکھر ٹھاپا، کو طیش میں آکر گولیوں سے مارڈالا تھا تو اس سانحہ نے بھارتی فوج میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی۔

رواں لمحوں میں بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے جنہیں پنشن نہ ملنے کی وجہ سے اپنا قانونی حق لینے کے لیے بھارتی عدالتوں میں خجل خوار ہونا پڑ رہا ہے۔

بھارتی وزیر دفاع نے اعلان بھی کیا تھا کہ ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں اور افسروں کو ’’وَن رینک، وَن پنشن‘‘ کے اصول پر تمام قانونی مراعات دی جائیں گی۔ کئی سال گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک یہ وعدہ ایفا نہیں ہو سکا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر ایوی سُوڈ اور ریٹائرڈ کرنل آہوجہ کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھے گئے خطوط نے بڑی (بدنام) شہرت حاصل کی ہے۔

عدالتوں میں جانے اور کوئی فیصلہ نہ ہونے کے کارن کئی بھارتی ریٹائرڈ فوجی مایوسی میں خود کشی کر چکے ہیں اور کئی پاگل ہو چکے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف، جنرل بپن راوت، نے پاکستان کے خلاف کل ہی جو اشتعال انگیز بیان دیا ہے، اِسے بھارتی فوج کو لاحق مجموعی نفسیاتی عارضے کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بروقت اور بھرپور انداز میں اس کا جواب بھی دیا ہے۔

ابھی یہاں تک ہی لکھ پایا تھا کہ ایک اور خبر نے چونکا کر رکھ دیا۔بھارتی فوج، حکومت اور بھارتی سفارتکاروں کو کینیڈا میں سخت دھچکا لگا ہے۔ بھارتی حکومت اور خصوصی طور پر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ دھچکا کینیڈا میں مقیم لاکھوں سِکھوں کے ہاتھوں پہنچا ہے۔ یہ محض دھچکا ہی نہیں، شدید صدمہ بھی ہے جس سے بھارتی حکومت بمشکل ہی سنبھل سکے گی۔

جنوری2018ء کے پہلے ہفتے یہ خبر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سر پر بم بن کر گری کہ کینیڈا میں سِکھ کمیونٹی کے طاقتور اور موثر ترین مذہبی رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد بھارت کا کوئی سرکاری اہلکار، افسر، وزیر، سفیر اور کینیڈا میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن میں متعین کوئی بھارتی سفارتکار کینیڈا کے 14بڑے گوردواروں میں داخل نہیں ہو سکے گا۔کینیڈا میں مقیم بھارتی نژاد سِکھ کمیونٹی معاشی اعتبار سے بہت مضبوط اور سیاسی طور پر بہت طاقتور ہے۔

اِس کا اندازہ کینیڈین پارلیمنٹ میں موجود 20 منتخب سِکھ ارکان کی تعداد سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کینیڈین سِکھوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی طاقت ہی ہے جو کینیڈا کے نوجوان وزیر اعظم، مسٹر جسٹن ٹروڈو، کو آئے روز اُن کے گھروں اور گوردواروں کی دہلیز پر لے جاتی ہے۔ ٹرودو کی کابینہ میں چار سِکھ وزیر بھی شامل ہیں۔

جب سے اندرا گاندھی کے حکم پر (1984ء میں)بھارتی فوج نے امرتسر میں موجود سِکھوں کے صدیوں پرانے مقدس ترین مقام (گولڈن ٹیمپل) پر حملہ کرکے اِسے تباہ کیا، دنیا بھر کے سِکھوں کی بھارت کے خلاف نفرت ختم نہیں ہُوئی۔آپریشن بلیو اسٹار نامی اِس حملے میں سِکھوں کے متفقہ و محبوب ترین لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو اُن کے سیکڑوں ساتھیوں سمیت ہلاک کر ڈالا گیا تھا۔

گولڈن ٹیمپل کے اندر بھارتی فوج نے پانچ ہزار سے زائد بیگناہ سِکھ یاتری بھی مار ڈالے تھے۔اِن ہلاکتوں، گولڈن ٹیمپل پر بھارتی ظالمانہ حملے اور خالصتان کے خواب کے برہم کیے جانے پر سِکھ کمیونٹی خون کے آنسو روئی تھی۔ یہ آنسو اب تک خشک نہیں ہُوئے ہیں۔ پچھلے 33 سال سے عالمی سکھوں کے ساتھ ساتھ کینیڈا کے تمام سِکھوں کے دل بھی، بھارت کے خلاف، شدت سے مجروح ہیں۔

کینیڈا کے سِکھ مذہبی رہنماؤں کا تازہ فیصلہ بھی بھارت سے اِسی پرانی ناراضی کا عکس ہے۔اُنکی ناراضی ختم ہُوئی ہے نہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اُن کا غصہ ٹھنڈا ہُوا ہے۔ یہ فیصلہ اونٹاریو کے شہر’’بریمپٹن‘‘ میں بروئے کار سب سے بڑے گوردوارے(جوت پرکاش گوردوارہ)میں کیا گیا ہے۔کینیڈین گوردوارہ کمیٹیوں کے سربراہ، امرجیت سنگھ مان، نے بھی اِس فیصلے کی تصدیق کر دی ہے۔

کینیڈا کی سِکھ کمیونٹی کا کہنا ہے کہ مجبوراً ہمیں بھارتی سرکاری اہلکاروں کے خلاف یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے کیونکہ یہ لوگ ہمارے گوردواروں میں آ کر شرارتیں اور شیطانیاں بھی کرتے ہیں اور ہماری جاسوسی بھی۔ کینیڈین سِکھوں کو بجا طور پر شکایات تھیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف اہلکار بھیس اور شناخت بدل کر سِکھ مقاصد کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش کرتے رہتے تھے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ہمہ وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں خالصتان کا مسئلہ پھر سے پوری طاقت سے سر نہ اُٹھا لے۔

خالصتان کے سب سے زیادہ حامی چونکہ کینیڈا اور برطانیہ میں رہتے ہیں، اس لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں سب سے زیادہ اِنہی دونوں ممالک میں بسنے والے سِکھوں پر نظر رکھتی ہیں۔ کینیڈا کے 14گوردواروں نے بھارتی سرکاری اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرکے دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی بساط ہی اُلٹ دی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 33برسوں سے بھارتی حکومتیں سِکھوں کو راضی کرنے اور منانے کی جو کوششیں کرتی چلی آرہی تھیں، کینیڈین سِکھوں کے تازہ فیصلے نے یہ کوششیں بھی غارت کردی ہیں۔کینیڈا میں بھارتی ہائی کمشنر،وکاس سواروپ، نئی سفارتی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔