ہوا کا ایک تازہ جھونکا

مقتدا منصور  پير 15 جنوری 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں تین روزہ عالمی میڈیا کانفرنس کی شکل میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا بھی آیا۔ اس کانفرنس میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور چین سمیت 36 ممالک کے صحافیوں نے شرکت کی۔ کانفرنس نے پاکستان اور کراچی کے بارے قائم اس تاثر کو خاصی حد تک زائل کرنے میں مدد دی کہ یہ شہر اور ملک غیر ملکی شہریوں کے لیے ’’نوگو ایریا‘‘ ہیں۔

کانفرنس کے شرکا جس طرح رات گئے تک بلاخوف وخطر شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومے، اس سے پاکستان اور کراچی کا نرم چہرہ (Soft Face) دنیا بھر میں روشناس ہوا۔ جب یہ صحافی اپنے اپنے ملکوں میں پہنچنے کے بعد اس کانفرنس کی تفصیل، ملنے والی محبت اور آزادانہ نقل وحمل کا تذکرہ اپنے اظہاریوں، فیچروں اور ٹاک شوز میںکرینگے، تو وطن عزیز اور اس شہر کا مزید اچھا تصور دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے ہر خاص و عام تک پہنچے گا جو شاید برسوں کی سفارتی ریاضت سے بھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔

کانفرنس کے بارے میں کچھ حلقوں بالخصوص صحافی دوستوں کی جانب سے مختلف نوعیت کے شکوک وشبہات بھی سامنے آئے۔ جو غالباً غلط فہمیوں کی وجہ سے تھی۔ جب ملک کے سیاسی حالات دگرگوں ہوں تو شکوک وشبہات کا پیدا ہونا لازمی امر ہوتا ہے لیکن غالب امکان ہے کہ ناقدین بھی آنیوالے وقت میں اس حقیقت کو تسلیم کرینگے کہ اس کانفرنس نے خود ان کے لیے اس سے بڑی کانفرنسیں منعقد کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔ کیونکہ اصل مسئلہ ’’خشت اول‘‘ کا ہوتا ہے، جو اس کانفرنس نے لگادی ہے۔ برے تاثر کو ختم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اچھا تاثر قائم ہوجائے تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ وطن عزیز کو مزید نیک نامی دلانے کے لیے ناقدین اس سے بڑی اور بہتر کانفرنسوں کا اہتمام کریں گے۔

کانفرنس کے حوالے سے گورنر سندھ محمد زبیر نے نہایت مثبت، تعمیری اور وطن دوست کردار ادا کیا۔ اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ محمد زبیر اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک کے چہرے پر لگے بدنما داغوں کو ذرایع ابلاغ کے تعاون ہی سے دھویا جاسکتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی فکری اور سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی حکومت اس کانفرنس کے انعقاد اور کامیابی کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکے۔ البتہ وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ حسب توفیق تعاون کرتے رہے۔

بہرحال کانفرنس خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کانفرنس کے منتظمین (میڈیا ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن) نے وفاقی یا صوبائی حکومت سے کسی قسم کی مالی امداد نہیں لی اور نہ ہی بیرون ملک کسی Donor سے رابطہ کیا یا امداد لی۔ البتہ گورنر محمد زبیر کی ذاتی کوششوں سے ملک کے معروف صنعت کاروں اور صاحب ثروت شہریوں نے کانفرنس کے اخراجات پورا کرنے میں مکمل تعاون کیا۔ افتتاحی اجلاس والے روز گورنر سندھ کی جانب سے گورنر ہاؤس میں مندوبین کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔

دوسرے روز میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے بارہ دری (پولو گراؤنڈ) میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ تیسرے روز وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے مقامی ہوٹل میں عشائیہ دیا۔ اگلے دن ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ظہرانہ اور سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد علی شیخ نے عشائیہ دیا۔

کانفرنس میں جن موضوعات کا احاطہ کیا گیا، ان میں تزویراتی قربت اور ذرایع ابلاغ، ذرایع ابلاغ کے لیے قوانین/ ضابطہ اخلاق، پرنٹ میڈیا کا مستقبل اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے گنجائش، جنوبی ایشیائی ذرایع ابلاغ کا معاملہ، ذرایع ابلاغ اور ثقافتی تغیرات، کرنٹ افیئر کے پروگراموں اور سوشل میڈیا کے نفسیاتی اثرات اور ذرایع ابلاغ میں خواتین کو درپیش چیلنجز شامل تھے۔ ان موضوعات پر بیرون اور اندرون ملک سے آئے مندوبین نے سیر حاصل گفتگو کی۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کروشیا، سربیا، یوگنڈا، کینیا سمیت کئی ممالک کے صحافیوں نے پہلی بار پاکستان دیکھا۔ بھارت سے دو صحافیوں سبینا اندرجیت اور ایس این سنہا کو آنا تھا، مگر ویزا تاخیر سے جاری ہونے کے سبب شریک نہیں ہوسکے۔ اسی طرح افغانستان سے ایک صحافی رحیم اﷲ سمندر بھی عین وقت پر ذاتی مجبوریوں کے سبب نہیں آسکے۔ روس سے آنے والے صحافی نے گھریلو مصروفیت کی وجہ سے عین وقت پر معذرت کرلی۔ کانفرنس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ تمام غیر ملکی صحافیوں نے بلا کسی جھجھک اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔

اگر ماضی قریب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 25 سے 30 برس پہلے کراچی ملک کا وہ واحد شہر ہوا کرتا تھا، جہاں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا، جب کوئی نہ کوئی بین الاقوامی کانفرنس، سیمینار، سمپوزیم یا ادبی نشستوں کا شہر میں اہتمام نہ ہورہا ہو۔ شہر میں لیاقت نیشنل لائبریری کے علاوہ برٹش کونسل اور امریکی کاؤنسلیٹ کی لائبریریاں ہر خاص وعام کے لیے کھلی ہوا کرتی تھیں۔

شہر میں رات گئے تک چہل پہل اور ہوٹلوں اور ریستورانوں میں گہماگہمی ہوا کرتی تھی۔ مگر پھر ایک ایسا مہیب دور آیا جب شہر آسیب زدہ محسوس ہونے لگا۔ لوگ سرشام گھروں کو بھاگنے لگے۔ اسی دوران پورا ملک بھی مذہبی شدت پسندی کا شکار ہوگیا۔ بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آگیا۔ جس نے عالمی سطح پر پورے ملک کے تشخص کو بری طرح متاثر کردیا اور ایک غیر محفوظ ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔

لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملہ نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔ یوں کرکٹ سمیت مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں سمیت فنکاروں، ادیبوں اور دانشوروں نے بھی پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ ایک ایسا دور بھی آیا جب سفارت کار کڑی حفاظتی نگرانی میں اسلام آباد آتے اور میٹنگ کرکے وہیں سے واپس چلے جاتے۔

مالیاتی اداروں کے ایگزیکٹوز پاکستانی افسران کو دبئی میں طلب کرکے وہاں معاملات طے کرنے لگے تھے۔ لیکن اب یہ سحر آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا ہے اور غیر ملکی شہری بے دھڑک پاکستان اور اس شہر کی طرف آنے لگے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت عالمی میڈیا کانفرنس کا انعقاد ہے۔ جس میں شریک صحافیوں نے اپنے اہل خانہ کے خدشات اور منع کرنے کو نظر انداز کردیا۔

کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دینے کے ساتھ آرٹس کونسل کی ثقافتی سرگرمیوں اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ’’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘ کا تذکرہ نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ آرٹس کونسل تمامتر نامساعد حالات کے باوجود گزشتہ دس برس سے تسلسل کے ساتھ عالمی اردو کانفرنس اور دیگر سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، جو بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی پریس گزشتہ دس برسوں سے تسلسل کے ساتھ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کرکے پرآشوب ماحول کی شدت کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔

امید ہے کہ ان دونوں اداروں کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا، جن کے نتیجے میں شہر کی رونقیں مزید بحال ہوں گی۔ یہ بھی امید ہے کہ عنقریب شہر میں بین الاقوامی کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کے میچوں کا دوبارہ آغاز ہوجائے گا۔ جو شہریوں کو صحت مند تفریح کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ذہنی تسکین دلانے کا باعث بنیں گے۔ اس سلسلے میں شہر اور ملک کے بہتر تشخص کو اجاگر نے کی خاطر ہم سب کو اپنے ذاتی اختلافات اور رنجشوںکو فراموش کرکے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔