لیاری میں امن آنے سے بلوچی چپلوں کی دکانوں پر رونق بڑھ گئی

کاشف حسین  پير 15 جنوری 2018
شہر بھر سے گاہک بلوچی چپلوںکی خریداری کے لیے لیاری آنے لگے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

شہر بھر سے گاہک بلوچی چپلوںکی خریداری کے لیے لیاری آنے لگے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے لیاری سے جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہیں مکمل طور پر ختم کردی گئی ہیں جب کہ لیاری کے مکین بھی سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپنی زندگی معمول کے مطابق گزاررہے ہیں۔

پاکستان میں رہنے بسنے والی مختلف قوموں کی اپنی اپنی روایات، رہن سہن اور پہناوئے علاقائی شناخت کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور تمام قومیں مل کر پاکستان کی ثقافت کو منفرد اور رنگا رنگ بناتی ہیں پاکستان میں رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے قبائل بھی اپنی باوقار روایات اور پہناوے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں دیگر زبانیں بولنے والے افراد بھی بلوچ روایات کا احترام کرتے ہوئے شادی بیاہ اور خاص تہواروں پر بلوچی ملبوسات زیب تن کرتے ہیں بلوچی اسٹائل کی پگڑیاں دلہوں کی شان بڑھاتی ہیں جبکہ خاص بلوچی اندازکی چپلیں پیروں کی زینت سمجھی جاتی ہیں کراچی میں لیاری کے قدیم علاقے میں دیگر قومیتوں کے ساتھ اکثریت بلوچ آبادی سکونت پذیر ہے جو اپنی روایات سے جڑے رہنے پر فخر کرتی ہے۔

محنت کشوں کا علاقہ لیاری گزشتہ کئی سال تک بدامنی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم پیشہ عناصر کی آلہ کار بننے پر مجبور رہی تاہم کراچی میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے لیاری سے جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہیں مکمل طور پر ختم کردی گئی ہیں اور کراچی کے دیگر علاقوں کی طرح لیاری کے مکین بھی سکھ کا سانس لیتے ہوئے اپنی زندگی معمول کے مطابق گزاررہے ہیں۔

لیاری میں قیام امن کے بعد علاقے کے قدیم بازار اور کارخانے آباد ہوگئے ہیں بدامنی کے باعث لیاری کے باہر سے گاہک لیاری کے بازاروںکا رخ کرنے سے اجتناب کرتے تھے لیکن آج لیاری ایک بار پھر تجارتی مرکز بن رہا ہے لیاری میں میوہ شاہ روڈ پر قدیم اور مشہور جھالاوان ہوٹل کے قریب کئی دہائیوںسے قائم بلوچی چپل کی تیاری اور فروخت کا مرکز بولان چپل شاپ کو بھی لیاری میں امن کے قیام سے بہت فائدہ ہورہا ہے اس دکان اور کارخانے کی شہرت ملک سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے اس دکان کے مالک عبدالرؤف بلوچ اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ مل کر بلوچی چپل کی تیاری اور فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں جو بلوچستان کے علاقے مستونگ سے تعلق رکھنے والے ان کے والد نے کئی دہائی قبل شروع کیا تھا۔

لیاری میں تیار کی جانے والی یہ چپلیں نہ صرف کراچی بلکہ دیگر شہروں میں بھی بہت شوق سے پہنی جاتی ہیں لیاری میں امن و امان کے خراب حالات کے دور میں بھی شوقین گاہک ٹی سی ایس کے ذریعے چپلیں منگواکر پہنتے رہے تاہم اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے شہر کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے گاہک بلوچی چپلوں کی خریداری کے لیے اس علاقے کا رخ کررہے ہیں۔

لیاری کے اس کارخانے کے گاہکوں میں سابق صدر پاکستان فاروق لغاری اور سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی بھی شامل ہیں جبکہ سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے موجودہ اراکین میں بھی بہت سے عوامی نمائندے لیاری میں تیار کردہ چپلیں استعمال کرتے ہیں عبدالرؤف نے بتایا کہ سابق صدر فاروق لغاری اور سابق وزیر اعظم میرظفر اللہ جمالی نے خود ہماری چپلوں کا معیار اور ڈیزائن دیکھ کر چپلیں پہننے کی خواہش کا اظہار کیا ان سے ملنے کے لیے جانے والے لیاری کے باشندوں سے ملاقات کا احوال بتاکر سابق صدر لغاری اور سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کی پسندیدگی اور خواہش کے بارے میں بتایا جس پر خصوصی طور پر چپلیں تیار کرکے بھجوائی گئیں دونوں شخصیات کے لیے کئی بار چپلیں کارخانے میں تیار کی گئیں۔

بلوچی چپل آن لائن بھی فروخت ہوتی ہے، بولان بلوچی چپل کا فیس بک پیچ موجود ہے

لیاری میں تیار کی جانے والی چپلیں آن لائن بھی فروخت ہوتی ہیں اس مقصد کے لیے 3 سال قبل فیس بک پر بولان بلوچی چپل کے نام سے پیج بنایا گیا ہے جس پر پورے ملک اور بیرون ملک سے پسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور چپلوں کے آرڈرز بھی موصول ہوتے ہیں جو کراچی سے آنے کی صورت میں سیلز مین کے ذریعے ڈیلیور کیے جاتے ہیں جبکہ دیگر شہروں سے باہر ٹی سی ایس کے ذریعے ڈیلیوری دی جاتی ہے۔

بیرون شہر سے چپلوں کی ادائیگی ایزی پیسہ کے ذریعے ہوتی ہے آن لائن سیل کا تناسب بہت کم ہے کاریگروں کے مطابق پہلے کی نسبت بلوچی چپل کے کارخانے کم ہوگئے ہیں چائنا کی چپلوں کی بھرمار ہے چینی چپلیں سستی ہوتی ہیں اس لیے کم قوت خرید کی وجہ سے غریب طبقہ چینی چپلیں استعمال کرتاہے یہ چپلیں زیادہ پائیدار نہیں ہوتیں لیکن غریب طبقہ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔

کٹ پیس کا درآمدی چمڑا بلوچی چپلوں کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے

پاکستانی چمڑا مہنگا ہونے کی وجہ سے کٹ پیس کی شکل میں درآمد ہونے والا چمڑا بلوچی چپلوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چپلوں کے سول ترکی سے درآمد ہونے والے ٹائروں کے اسکریپ سے تیار کیے جاتے ہیں کار کے 2 ٹائروں سے 5 چوڑی چپلوں کے سول تیار ہوتے ہیں یہ ٹائر مختلف وجوہات کی بنا پر ترکی سے مسترد کیے جانے کے بعد اسکریپ کی شکل میں درآمد ہوتے ہیں سول کی تیاری کے لیے گائے کی کمر کے حصے کا سخت چمڑا استعمال کیا جاتا ہے سول کو موٹا اور دبیز بنانے کے لیے گائے کے چمڑے کی تہہ ملاکر گلمہ تیار کیا جاتا ہے جسے رات بھر پانی میں بھگویا جاتا ہے اور اگلے روز چپل تیار کی جاتی ہے۔

چپلوں کو دو روز تک دھوپ میں سکھایا جاتا ہے ایک چپل مختلف مراحل سے گزر کر دو روز میں تیار ہوتی ہے ایک کاریگر ایک دن میں 6 سے8 جوڑی چپلوں کا اوپری حصہ (اپر) بناتا ہے دوسرے روز دوسرا کاری گر چپلوں کا نچلا حصہ (باٹم) بناتا ہے باٹم بنانے کا کام دشوار اور محنت طلب ہوتا ہے اور ایک دن میں زیادہ سے زیادہ چار جوڑی چپلوں کے باٹم تیار ہوتے ہیں جنھیں بعد میں سکھانے کے بعد فنش کیا جاتا ہے۔

بلوچی چپلوں کے ڈیزائن میں بگٹی اورمری کٹ زیادہ مشہور ہیں

بلوچی چپلوں میں بگٹی اور مری قبائل کے ڈیزائن بگٹی اور مری کٹ کے نام سے مشہور ہیں جو زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی نوروزی کے نام سے ایک سدا بہار ڈیزائن بہت مشہور ہے جو بلوچی چپل کے معروف کاریگر نوروز کے نام سے موسوم ہے نوروز نامی کاریگر کا انتقال ہوچکا ہے اور ان کے بچے اب اس کاروبار سے وابستہ ہیں نوروزی ڈیزائن ملک بھر میں مشہور ہے بلوچی چپلیں بلوچ ثقافت کے فروغ اور ملک کی دیگر قومیتوں کے مابین ہم آہنگی کا بھی ذریعہ بنتی ہیں۔

لیاری میں تیار کی جانے والی چپلوں کے زیادہ خریدار کراچی کا اردو بولنے والا طبقہ ہے جو شادی بیاہ اور تہواروں پر بلوچی چپلیں پہننا پسند کرتا ہے اردو بولنے والی کمیونٹی میں شادی بیاہ میںدولہا کے لیے گھیر والی بلوچی شلوار اور کرتا سلوایا جاتا ہے جس کے ساتھ بلوچی اسٹائل کی پگڑی باندھی جاتی ہے اور بلوچی چپل دولہا کی شان میں اضافہ کرتی ہے پاکستان کے معروف لوک فنکار اختر چنال زہری جو دنیا بھر میں بلوچ ثقافت کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔

بیرون ملک ثقافتی طائفوں میں بلوچی موسیقی اور لباس کے ساتھ بلوچی چپل کو بھی فروغ دے رہے ہیں جن جن ملکوں میں اختر چنال زہری نے پاکستان کی ثقافت کے رنگ بکھیرے ہیں وہاں بلوچی لباس کے ساتھ چپلوں کو بے حد سراہا گیا اور ان ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں نے بلوچی چپلوں کی خریداری کے آرڈر دیے۔

لیاری میں چپل کی فروخت کے ان مراکز پر عید کی تیاریوں کے لیے رمضان کے دوران میلے کا سماں رہتا ہے دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں اور تمام شہر سے گاہک آتے ہیں گاہکوں کا رش اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے عید کے لیے چپلوں کی تیاری ایک ماہ قبل ہی شروع کردی جاتی ہے اس کے باوجود چاند رات تک اسٹاک ختم ہوجاتا ہے۔

بلوچی چپل کی تیاری میں گائے کی کھال کا چمڑا استعمال ہوتاہے

پشاوری چپل کی طرح بلوچی چپل بھی مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کی جاتی ہیں لیکن بلوچی چپل تیار کرنے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ مضبوطی میں بلوچی چپل کا کوئی ثانی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افسران اور اہلکاروں کی بڑی تعداد بلوچی چپل استعمال کرتی ہے بلوچی چپل پشاوری چپل سے یکسر مختلف ہوتی ہے اس کی قیمت بھی پشاوری چپل سے زیادہ ہوتی ہے بلوچی چپلوں کی تیاری میں گائے کی کھال کا چمڑا استعمال کیا جاتا ہے۔

بلوچی چپل کی تیاری کا کام اوپر سے شروع ہوکر نچلے حصے پر ختم ہوتا ہے جس میں مضبوطی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے چپلوں کے نچلے حصے (تلوے یا سول) ٹائر سے تیار کیے جاتے ہیں اس مقصد کے لیے نیا ٹائر استعمال کیا جاتا ہے بلوچی چپل کئی سال تک قابل استعمال رہتی ہیں اور قیمت میں بھی پشاوری چپلوں سے مہنگی ہیں عام بلوچی چپل 1500 روپے تک فروخت کی جاتی ہیں معیاری چپلوں کی قیمت 2 ہزار سے 2500 روپے تک ہوتی ہے جبکہ فینسی چپلوں کی قیمت 10ہزار روپے تک ہوتی ہے جن پر کڑھائی کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

بلوچی چپلوں کی تیاری میں زیادہ چمڑا اور میٹریل خرچ ہوتا ہے اور تیاری میں بھی زیادہ وقت لگتا ہے اس لیے اس کی قیمت بھی پشاوری چپلوں سے زیادہ ہوتی ہے بولان چپل شاپ میں چپل آرڈر پر بھی تیار کی جاتی ہیں ہر ڈیزائن، رنگ اور بناوٹ کی چپل تیار کی جاتی ہے پاکستان سے باہر مقیم گاہک اپنا سائز بتاکر اپنے جاننے والوں سے چپلیں منگواتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔