زیادتی اور قتل: مجرم کون؟

عمران شاہد بھنڈر  منگل 16 جنوری 2018
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

آٹھ سالہ معصوم زینب کے ساتھ  زیادتی اور بعد ازاں اس کے بہیمانہ قتل کا جو واقعہ پیش آیا ہے، اس نے ایک بار یہ سوال کھڑا کردیا ہے کہ پاکستانی معاشرہ انسانی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے کہاں موجود ہے، اگرچہ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو پہلی بار رونما ہوا ہو اور نہ ہی اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ سماج  اور عوام کے مسائل کے حوالے سے حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی آخری واقعہ ہوسکتا ہے۔

قصور پولیس کے مطابق تو یہ گزشتہ دو برس میں ہونے والا بارھواں واقعہ ہے۔ تاہم اس واقعے کی گونج اس قدر اونچی سنائی دی ہے کہ دنیا کے تقریباََ تمام ذرایع ابلاغ میں اس واقعے کی خبر کو انتہائی دکھ اور رنج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس واقعے کے نتیجہ میںحکومت اور حکومتی اداروں کے خلاف عام لوگوں کے احتجاج نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ انھی حکام کو اس واقعے کا ذمے دار سمجھتے ہیں اور ان کا شعور قانون، انصاف، سزائوں اور بھیانک جرائم جیسے الفاظ استعمال کرنے والے ’’دانشوروں‘‘ سے زیادہ بلند ہے۔ ذمے دار اس حوالے سے نہیں کہ مجرم کو کٹہرے میں ضرور لایا جائے، بلکہ اس حوالے سے کہ اس قسم کے واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا ایک بوسیدہ نظام کی بد نما علامتوں میں سے ایک ہے۔

بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ایسے واقعات کسی انفرادی نفسیات کا حصہ ہوتے ہیں، جن کا سخت قانونی سزائوں سے قلع قمع کیا جاسکتا ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے قطعی طور پر برعکس ہے۔ آہنی قوانین مسائل کا حل پیش نہیں کرتے، بلکہ یہ اس سرمایہ دارانہ اور مذہبی ذہنیت کو آشکار کرتے ہیں، جو اپنی سیاسی، معاشی اور نظریاتی کوتاہیوں کا ازلہ نہیں کرسکتی، الٹا قانون کو الزام دے کر بری الذمہ ہوجانا چاہتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ ’’کوئی بھی فرد جزیرہ نہیں ہوتا‘‘ کہ جو خود سے شروع ہوکر خود پر ہی ختم ہوجائے، یا اس کی نفسیات کا تجزیہ اس تمام تر ماحول سے کاٹ کر کیا جائے کہ جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ سماجی، سیاسی اور معاشی بحران ہی ہے جو نفسیاتی، اخلاقی اور جنسی گراوٹ میں خود کو منعکس کرتا ہے۔ فرد کی نفسیات اس نظام کی تخلیق کردہ ہوتی ہے جس میں وہ پرورش پاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کی تکرار یہ واضح کرتی ہے کہ یہ غیر انسانی سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک متروک ہو چکا ہے کہ اس کے نتیجے کے طور پر تمام سیاسی، معاشی، سماجی، ثقافتی ، انسانی، اخلاقی اور جنسی اقدار حیوانیت کی سطح تک پہنچ چکی ہیں۔

اس طرح کے واقعات یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس وحشیانہ سرمایہ داری سماج میں انسان کی اس کی انسانی حیثیت، اس کے انسانی جوہر سے مغائرت یا بیگانگی اس سطح اس حد تک بلند ہوچکی ہے کہ اب انسان شعور سے عاری ہوکر صرف حسی سطح پر تسکین حاصل کرنے والا ایک ایسا درندہ بن گیا ہے کہ وہ سماج میں اپنی درندہ صفت خواہشات کے حصار میں سرے عام دندناتا پھرتا ہے۔ اب اس سے آٹھ برس کی معصوم بچی بھی محفوظ نہیں رہی ہے۔

جس معاشرے کے لوگ اپنے ہی جیسے ’’انسانوں‘‘ کے ہاتھوں ہر سطح پر ظلم، جبر ، دہشت، بربریت اور استحصال کا شکار ہوں، جو روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم اور روزگار جیسی انتہائی بنیادی سہولیات سے محروم ہو کر زندگی کے لیے ترس رہے ہوں،وہاں ان کا اخلاقی اور جنسی سطح پر انسان کے نام پر بدنما داغ بن جانا معمول کی بات ہے۔اخلاقی اور جنسی گراوٹ سیاسی اور معاشی گراوٹ سے الگ نہیں ہوتی۔ سیاسی و معاشی گراوٹ ہی اخلاقی و جنسی گراوٹ کے لیے ماحول مہیا کرتی ہے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں ایک طرف سرمائے کے پجاری سرمایہ داروں کا جتھہ موجود ہے، جن کے پاس ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ وہ زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، انھوں نے ایک ہی ملک کے اندر دو ملک بنا رکھے ہیں: ایک ملک ان کا اپنا ہے، بہشت کا نظارا پیش کرتا ہے، جس میں تعلیم، صحت، روزگار مختصر یہ کہ کسی بھی سہولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف اپنے ہی ملک پر براجمان نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اپنے ہی ملک کی خدمت کے لیے اپنے ہی جیسے لوگوں پر مشتمل ایک اور ملک تیار کر رکھا ہے۔

یہ ایسے لوگ ہیں، جو بالائی طبقات کے ملک میں ہر طرح کی محنت کرتے ہیں، ظلم سہتے ہیں، استحصال کو برداشت کرتے ہیں، دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محرومی نے ان سے ان کا وہ شعور تک بھی چھین لیا ہے کہ جس سے ان کو یہ علم ہوسکے کہ یہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، وہ اپنے حقیقی دشمن کو بھی پہچاننے سے قاصر ہیں، جو ان کو قومی، لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ، اور علاقائی شناختوں کا نظریاتی درس دے کر ان پر مستقل طور پر مسلط ہو چکا ہے۔ یہ اپنے اصل دشمن کو پہچاننے کی بجائے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں، ان کا شعور ان کی زندگی ہی کی طرح بکھرا ہوا ہے، ان کی ترجیحات ان کی فکر ہی کی طرح غیر متعین ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ذلالت ان کا مقدر بن چکی ہے۔

حکمران طبقہ بھی انسانی سطح پر بدترین قسم کی مغائرت کا شکار ہے، لیکن وہ اسی مغائرت میں خوش ہے۔ ان لوگوں کی زندگی کا واحد مقصد تمام تر ذرایع استعمال کرتے ہوئے صرف سرمائے کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نے اس محروم طبقے کو جنم دیا ہے جو جنسی، اخلاقی حوالے سے نفسیاتی مریض بن کر جرائم کا ارتکاب کرتا جا رہا ہے۔سرمایہ دار سرمائے کے حصول میں اس قدر مگن ہے کہ اس کی اس کی ذات سے مغائرت نے معاشرے کو دہشت، بربریت، ظلم، جبر اور استحصال کی آماجگاہ بنا دیا ہے، اور دوسری طرف ان سرمایہ داروں کے اعمال کے نتیجے میں وہ لوگ بھی وجود میں آچکے ہیں کہ جن کی اپنی ذات سے مغائرت، بیگانگی ان سے معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرانے کی راہ میں بھی حائل نہیں ہوتی ہے۔ جب تک یہ درندہ صفت سرمایہ داری نظام موجود رہے گا۔

انسان اپنی ذات کی مرکزیت سے دور اور اپنے انسانی جوہر سے محروم ہی رہے گا، جب کہ انسانوں کے درمیان محبت، اخلاص، ہمدردی، احساس، بھائی چارہ، اخوت جیسے انسانی جذبات کی افزائش نہ ہوسکے گی اور سرمایہ کی مرکزیت اپنی محرومانہ اور غیر محرومانہ اشکال میں انسان سے انسانیت سوز مظالم کراتی ہی رہے گی۔ آٹھ سالہ زینب کے ساتھ جو انسانیت کش واقعہ پیش آیا ہے، اس کا الزام کسی فردِ واحد کو دینا درست نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ تمام سیاسی و مذہبی رہنما شامل ہیں جو اپنے معاشی، سیاسی، نظریاتی غلبے کے لیے انسان کو اس کی انسانی حیثیت سے الگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ نظام ایسا تشکیل پا چکا ہے کہ حکمرانوں کے محلات اتنے بڑے اور وسیع ہو چکے ہیں کہ ان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد بھی ان تک پہنچتے ہوئے کافی وقت درکار ہوتا ہے، جب کہ دوسری طرف ذلت کا شکار وہ عام لوگ ہیں جن تک ہر مجرم بآسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اس گھنائونے طبقاتی سماج میں انسان اور انسان کے درمیان خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ انسان ہی دوسرے انسان کے لیے حیوان کا روپ دھار چکا ہے۔

جب تک یہ ظلم، جبر، دہشت، استحصال کا نظام برقرار رہے گا، انصاف نامی قدر محض ایک واہمہ ہی بنی رہے گی۔ زیادتی اور قتال کرنے والے کو لٹکانا انصاف کا حصول نہیں ہے، اس واقعہ نے جس نفسیات سے جنم لیا ہے، اس کی پرورش کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اس غیر انسانی سرمایہ داری نظام نے طویل عرصہ اس نفسیات کو پروان چڑھایا ہے  اور جس طرح یہ اجتماعی شعور پر اثر انداز ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی فرد واحد کو لٹکا کر اجتماعی شعور کو تسکین نہیں مل سکتی، اس واقعے کی جڑیں اس مکروہ سرمایہ داری میں اتنی گہری ہیں کہ اس کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی، وہ لوگوں کو مسلسل بے چینی اور اضطراب میں مبتلا رکھے گی، تاوقتیکہ اس بوسیدہ سرمایہ داری نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے، صرف اسی صورت میں انسان کو وہ ماحول میسر آسکتا ہے جس میں اس کے انسانی جوہر کا احیا ممکن ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔