اے ٹی ایم کا پن کوڈ چار ہندسوں کا کیوں ہے؟

سلیم اختر  پير 15 جنوری 2018
پہلے پہل بہت مسائل پیدا ہوئے اور کچھ مشینیں لوٹی بھی گئیں لیکن پھر یہ نظام بہت بہتر ہوگیا۔ فوٹو : فائل

پہلے پہل بہت مسائل پیدا ہوئے اور کچھ مشینیں لوٹی بھی گئیں لیکن پھر یہ نظام بہت بہتر ہوگیا۔ فوٹو : فائل

 بینک کے اے ٹی ایم میں مستعمل پن کوڈ کے استعمال اور اہمیت سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ چار اعداد پر مشتمل ہوتا ہے مگر کیوں؟ اس کا جواب دنیا میں صرف ایک شخص کو معلوم تھا اور آخر کار انہوں نے اب یہ راز سب کو بتا دیا ۔وہ یہ کہ ہم سب آج چار اعداد پر مشتمل پن کوڈ ان کی بیگم کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں۔

یہ صاحب جان شیپر ڈبیرن ہیں جو 15مئی 2010 کو چل بسے تھے۔عمر کے آخری دور میں وہ سکاٹ لینڈ میں اپنے چھوٹے سے مچھلی فارم سے مچھلیاں چرانے والے شریرسی لائنز کو ان کی شرارتوں سے باز رکھنے کی خاطر کوئی حل ڈھونڈ رہے تھے۔

شیپرڈ نے بتایاکہ جب انہوں نے اے ٹی ایم مشین کی ایجاد کے بعد پن کوڈ کی ایجاد کے بارے میں سوچا تو باورچی خانے میں کام کرتی اپنی بیگم صاحبہ سے بات کی۔ جب وہ فوج میں تھے تو ان کی پہچان ایک نمبر تھا جس میں چھ اعداد تھے۔ اگرچہ انھیں یہ سارے اعداد یاد تھے لیکن ان کی بیگم کو ان میں سے صرف چار اعداد یاد تھے،اور انہوں نے کہا کہ چھ ہندسے یاد رکھنا کافی مشکل ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ شیپرڈ نے پن کوڈ کے لیے اپنی بیگم کی یاداشت مد نظر رکھتے ہوئے صرف چار اعداد مقرر کیے۔

اس سے پہلے شیپرڈ اے ٹی ایم مشین بھی ایجاد کر چکے تھے۔ آج ہمیں رات گئے رقم کی ضرورت پیش آجائے یا کہیں دور دراز علاقے میں سفر کے دوران اچانک رقم درکار ہو تو ہمیں پتاچلتا ہے کہ اے ٹی ایم مشین کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم مشین میں کارڈ ڈال کر رقم نکالتے اور سکھ کا سانس لیتے ہیں ۔لیکن کبھی اس عظیم شخص کے بارے میں نہیں سوچتے جس نے یہ مشین ایجاد کرکے ہماری زندگی پر بہت بڑا احسان کیا۔

شیپرڈ کا کہنا تھا کہ ایک دن وہ غسل کررہے تھے۔ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر گاہکوں کو چاکلیٹ مشین سے مل سکتے ہیں تو ایسی مشین کیوں نہیں بنائی جاسکتی جو رقم ادا کرسکے۔ انہوں نے اپنا آئیڈیا بارکلے بینک کی انتظامیہ کو بتایا تو وہ فوراً اس مشین کی تیاری کے لیے تیار ہوگئے۔

پہلی مشین جون 1967 ء میں بارکلے بینک کی شمالی لندن میں واقع این فیلڈ برانچ میں لگائی گئی اور اس سے رقم نکالنے والے پہلے شخص ٹی وی فنکار ریگ وارنی تھے۔ شیپرڈ بتاتے تھے کہ ان دنوں پلاسٹک کے کارڈ نہیں ہوتے تھے ۔اس لیے مشین سے پیسے نکالنے کی خاطر چیک ہی استعمال ہوتے تھے جن پر ہلکا سا کاربن لگایا جاتا تھا۔ مشین چیک اور پن نمبر کا موازنہ کرکے رقم ادا کرتی تھی۔

پہلے پہل بہت مسائل پیدا ہوئے اور کچھ مشینیں لوٹی بھی گئیں لیکن پھر یہ نظام بہت بہتر ہوگیا۔ انہوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ آنے والوں برسوں میں کرنسی نوٹوں کا استعمال ختم ہوجائے گا اور ہر قسم کی لین دین کے لیے موبائل فون استعمال ہوں گے۔مرحومکی ایجاد کردہ اے ٹی ایم مشین تو دنیا کی کامیاب ترین ایجادات میں شمار ہوتی ہے لیکن وہ کہتے تھے کہ انہوں نے سی لائینز کو ڈرانے کے لیے بھی ایک مشین ایجاد کی تھی لیکن اس کی آواز سن کر وہ اور زیادہ تعداد میں آنے لگے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔